Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جماعت اسلامی کے ’گڈ لُکنگ‘ نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمان کون ہیں؟

جماعت اسلامی کے 46 ہزار ارکان 51 سالہ حافظ نعیم الرحمان کو کثرت رائے سے پارٹی کی امارت سونپ دی ہے۔ (فوٹو: ایکس)
 کراچی میں فنڈریزنگ کی تقریب جاری تھی، مائیک تقریب کے میزبان انور مقصود  کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے اپنے مہمان کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اتنا گڈ لُکنگ جماعت اسلامی کا رہنما پہلے نہیں دیکھا۔‘
دراصل انور مقصود دلچسپ انداز میں جماعت اسلامی کے امیج میں تبدیلی کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ آگے چل کر حافظ نعیم الرحمان کی شخصیت صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ کراچی کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتی نظر آئی اور جنوری 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی شہر کی سیاست میں واپسی ہوئی۔

جمہوریت یا موروثیت؟

جماعتِ اسلامی کی داخلی سیاست میں مورثیت کے بجائے جمہوریت کی بنیاد خود بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے رکھی جب وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے اور ارکان جماعت نے مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے لاہور میں آباد ہونے والے میاں طفیل محمد کو اکتوبر 1972 میں جماعت کا نیا امیر منتخب کرلیا۔ 
برسوں گزرنے کے باجود جماعت اسلامی آج بھی اس روایت پر قائم ہے کہ ہر پانچ سال بعد ملک بھر میں موجود ارکان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ امیر کا انتخاب کریں۔
ملک بھر میں موجود 46 ہزار کے قریب ارکان جماعت کی اکثریت نے اس بار کراچی سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ حافظ نعیم الرحمان کو پارٹی کی امارت سونپ دی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان کون ہیں؟

سنہ 1972 میں حیدر آباد میں پیدا ہونے والے حافظ نعیم الرحمان اس وقت کراچی میں جماعتِ اسلامی کا سیاسی چہرہ ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینیئرنگ کرنے والے حافظ نعیم زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبا سے وابستہ رہے اور اس کے ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب ہوئے۔
طلبا سیاست کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور جلد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
سینیئر صحافی مظہر عباس کے مطابق ’حافظ نعیم کراچی اور سندھ کی سیاست کو سمجھتے ہیں، انہوں نے شہری سندھ کی سیاست پر فوکس کیا اور جو ایشوز اٹھائے پھر ان پر کھڑے بھی نظر آئے۔ ان کی میئر کراچی بننے کی بھی امید تھی مگر تحریک انصاف کے اندرونی مسائل کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ میرا خیال ہے کہ وہ میئر کراچی اس لیے بھی نہیں بن سکے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ان کی ملاقات کو اسٹیبلشمنٹ نے مثبت نہیں لیا۔‘

 جماعت کے کس امیر کی کیا پالیسی رہی؟

 جماعت اسلامی کی سیاسی پالیسیاں بنانے میں مرکزی شوریٰ کا کردار اہم رہتا ہے مگر امیرجماعت کی شخصیت عمومی طور پر سیاسی منظر نامے پر چھائی رہتی ہے۔

مظہر عباس کے مطابق عمران خان سے ان کی ملاقات کو اسٹبلشمنٹ نے مثبت نہیں لیا۔ (فوٹو: ایکس عمران خان)

جماعت اسلامی کے طرز سیاست میں نمایاں تبدیلی قاضی حسین احمد لے کر آئے تھے۔ مظہرعباس کے مطابق ’ماضی میں یہ تاثر حاوی تھا کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے مگر قاضی حسین احمد کے بعد جماعت میں بھی یہ رنگ نظر آیا کہ اس میں بھی شخصیات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے پارٹی کو بند کمرے سے نکال کر اوپن کیا، قاضی حسین احمد کے مقابلے میں منور حسن سخت گیر شخصیت کے مالک تھے اور اسٹیبلشمنٹ کو ان کے بعض بیانات پسند نہ آئے۔‘
حافظ نعیم الرحمان نے شہری مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنایا جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد ایک بار پھر جماعت اسلامی کی طرف لوٹ آئی اور بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کراچی سے 87 یونین کونسلز اور 9 ٹاؤنز جیتنے میں کامیابی ہوئی جسے تجزیہ کاروں نے شہر میں جماعت اسلامی کی واپسی سے تعبیر کرتے ہوئے بڑا کریڈٹ حافظ نعیم الرحمان کو دیا۔
کراچی میں جماعت اسلامی نے سوشل میڈیا کا بڑی مہارت سے استعمال کیا جس کے ذریعے اس نے شہر کے ووٹرز کو اپنا پیغام مؤثر انداز میں پہنچایا۔
حافظ نعیم کے پیشرو سراج الحق  کے مستعفی ہونے کے بعد جماعتِ اسلامی کے ارکان  نے اس بار امیر جماعت کے لیے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا انتخاب کیا۔ یہ جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک شہر کا امیر مرکزی نظم کا حصہ بنے بغیر مرکزی امیر منتخب ہوا ہے۔

سنہ 1972 میں حیدر آباد میں پیدا ہونے والے حافظ نعیم الرحمان اس وقت کراچی میں جماعتِ اسلامی کا سیاسی چہرہ ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

ماضی میں منتخب ہونے والے امرا یا تو جنرل سیکریٹری تھے یا پھر نائب امیر جبکہ حافظ نعیم ایسی کسی ذمے داری پر فائز نہیں رہے۔

سراج الحق کی جگہ حافظ نعیم الرحمان کیوں؟

سید منور حسن کی جگہ سنہ 2014 میں جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہونے والے سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی کو اپنے روایتی علاقوں میں بھی اثر ورسوخ برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی سنہ 2018 کے عام انتخابات میں صرف ایک اور 2024 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی۔
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’حافظ نعیم الرحمان کا امیر بننا سراج الحق کے تحت جماعت اسلامی کی پالیسیوں کی شکست ہے۔‘

حافظ نعیم الرحمان کتنے مختلف امیر ثابت ہوں گے؟

 ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ امیر جماعت پارٹی کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد اتحادی سیاست کے قائل تھے تو سید منور حسن کی سوچ یہ تھی کہ جماعت اسلامی اپنے پرچم اور انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔ سوال یہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کی حکمت عملی کیا ہو گی؟

حافظ نعیم الرحمان نے شہری مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنایا جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد ایک بار پھر جماعت اسلامی کی طرف لوٹ آئی۔ 

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سندھ میں حافظ نعیم الرحمان کے لیے اصل سیاسی چیلنج پیپلز پارٹی یا ایم کیوایم نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہو گی۔
’پنجاب میں ان کی حکمت عملی کیا ہو گی یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔ وہ سراج الحق کی نسبت زیاد سخت گیر امیر ثابت ہوں گے، یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ کیا وہ قومی سطح کی سیاست کریں گے اور حکومت مخالف گرینڈ الائینس کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں؟‘

جماعت اسلامی اپنے امیر کا انتخاب کس طرح کرتی ہے؟

جماعت کے دستور کے مطابق ارکان جماعت کسی بھی رکن کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب کرسکتے ہیں۔ مرکزی شوریٰ صرف ارکان جماعت کی رہنمائی  کے لیے تین نام ارکان کے سامنے پیش کرتی ہے۔
اگر 46 ہزار ارکان جماعت چاہیں تو وہ ان تین کے علاوہ کسی چوتھے شخص کو بھی امیر بنا سکتے ہیں۔

شیئر: