Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'قوم پرست گھرانے کے مسلم لیگی‘ نومنتخب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر

حالیہ انتخابات میں ن لیگ کی صوبائی قیادت نے نئے شامل ہونے والوں کو ٹکٹ جاری کیے۔ (فوٹو: سیدال ناصر)
سینیٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے والے سیدال خان ناصرقومی سیاست میں بظاہر جانی پہچانی شخصیت نہیں لیکن بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ اور نظریاتی کارکن کے طور پر ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کے دیرینہ کارکن ہیں اور ان کی  پارٹی سے وابستگی کم از کم تین دہائی پرانی ہے۔
سیدال ناصر کا تعلق پشتونوں کے ناصر قبیلے اور بلوچستان کے ضلع لورالائی سے ہے۔ تاہم وہ  کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور یہی پلے بڑھے۔ وہ کاروباری لحاظ سے کوئلہ کی کان کنی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
 ان کے والد رحمت خان نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم کارکن تھے اور جب نیپ پر مشکل دور آیا تو اجمل خٹک سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی طرح وہ بھی جلاوطن ہوئے اور 12 سال افغانستان میں جلا وطنی گزاری۔
سیدال ناصر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے والد اور بھائیوں سمیت خاندان کے زیادہ تر افراد قوم پرست سیاست کے حامی رہے اور وہ اپنے خاندان میں واحد فرد تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کی۔
سیدال ناصر نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے تعمیر نو سکول اور ثانوی تعلیم کوئٹہ کے سائنس کالج سے حاصل کی۔ بلوچستان یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر کیا۔
ابتدائی طور پر وہ بھی قوم پرست طلبہ تنظیم پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے اور صوبائی نائب صدر رہے۔ تاہم 1992 میں کالج کے زمانہ میں ہی  پہلی بار مسلم  لیگ ن کی طلبہ تنظیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف )کا حصہ بنے  اس کے بعد سے اب تک ان کی پارٹی سے وابستگی کو 32 سال ہوچکے ہیں۔
نومنتخب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ  1993 میں ایم ایس ایف کے صوبائی جنرل سیکریٹری اور 1996 میں مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری رہے۔
1999 میں مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے صوبائی صدر بنے۔ 2002 میں مسلم لیگ ن کے  صوبائی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری بنے۔ اس کے بعد پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری، سینیئر نائب صدر، صوبائی جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
وہ گزشتہ 20 سالوں سے پارٹی کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ 2013 سے 2018 کے دوران وزیراعلیٰ  ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں معاون خصوصی بھی رہے۔  
سیدال ناصر پہلی بار کسی ایوان کا حصہ بنے ہیں۔ انہوں نے 2005 میں ضلع ناظم، 2008 میں کوئٹہ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست، 2015 میں سینیٹ، 2018 میں صوبائی  و قومی اسمبلی کی نشست پر بھی انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی وتجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ سیدال ناصر پارٹی کے دیرینہ رہنما ہیں جو پارٹی میں اہم عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے مشکل دور میں بھی پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جب 2017 میں دوبارہ میاں نواز شریف پر افتاد پڑی تب بھی سیدال خان ناصر پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی قیادت انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ  کئی مواقع پر نظر انداز بھی رہے خصوصاً 8 فروری کے انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
حالیہ انتخابات میں ن لیگ کی صوبائی قیادت نے نئے شامل ہونے والوں کو ٹکٹ جاری کیے۔ صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل نے کوئٹہ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی  42 سے اپنے داماد کو ٹکٹ جاری کیا اور خود ژوب کے صوبائی حلقے سے انتخاب لڑا۔
’یقیناً ٹکٹ نہ ملنے پر سیدال ناصر دل گرفتہ تھے لیکن انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی اور پارٹی امیدوار کے حق میں دستبردار ہوگئے۔  اسی دوران بعض ایسے لوگ بھی تھے جو دیرینہ وابستگی رکھتے تھے لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی چھوڑ دی۔‘
جلال نورزئی کے مطابق اس کے بعد سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بھی انہیں نظر انداز کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ ’ن لیگ کی اعلیٰ قیادت ان کے حق میں تھی لیکن پارٹی کے اندر بعض لوگ نہیں چاہتے تھے کہ سیدال ناصر کو ٹکٹ جاری ہو اور ان کی جگہ وہ اپنے اقرباء کے لیے ٹکٹ کوشش کرتے رہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ  بعد ازاں  جب سیدال ناصر کو ٹکٹ ملا تو اسے تکنیکی طور پر انہیں آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’ان کے تائید و تجویز کنندہ میں سے ایک کاغذات نامزدگی کے جانچ پڑتال کے وقت الیکشن کمشنر کے سامنے پیش نہیں ہوئے جس پر ان کے کاغذات مسترد ہوئے۔ بعد ازاں الیکشن ٹربیونل نے ان کے کاغذات نامزدگی بحال کردیے۔‘
جلال نورزئی کہتے ہیں کہ سیدال ناصر کے آخری وقت تک سینیٹر بننے کے امکانات نہیں تھے لیکن میاں برداران اور پارٹی کی مرکزی قیادت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور صوبے میں ان کے خلاف سازش کرنے والوں کو رام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیدال ناصر کو سینیٹر اور پھر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنانا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا بہت اہم فیصلہ ہے۔
’ن لیگ نے اہم آئینی عہدے پر اپنے ایک با اعتماد شخص  کو بٹھا دیا ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں بھی مشکل وقت آنے پر وہ پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ سیاسی لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے اور نظریاتی کارکنوں کو بھی مثبت پیغام  گیا ہے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔‘

شیئر: