Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا 9415 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے حصول کے لیے ٹیکس ریٹ بڑھایا جائے گا؟

ظفر موتی والا کا کہنا ہے ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ٹیکس اکھٹا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا رواں مالی سال 2023-24 کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 9415 ارب روپے مقرر ہے۔
ایف بی آر نے  رواں مالی سال کے نو مہینے کے دوران 6 ہزار 710 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے جو کہ اس دورانیے کے لیے مقرر کردہ ہدف سے زائد ہے۔
ایف بی آر کے محصولات میں 9 ماہ کے دوران 30 فیصد اضافہ سامنے آیا ہے۔ اس عرصے میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6 ہزار 707 ارب روپے تھا۔
ایف بی آر نے اس طرح مقررہ ہدف سے 3 ارب روپے زیادہ اکٹھے کیے ہیں۔ ایف بی آر اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 369 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے۔
گذشتہ سال اسی عرصے میں 254 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے تھے۔ ایف بی آر اعلامیے کے مطابق صرف مارچ کے مہینے میں 879 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے گئے ۔
ایف بی آر کے مطابق مارچ کے مہینے میں 67 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے جب کہ گذشتہ سال مارچ میں 22 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے تھے۔

تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس کا حصول

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقہ صنعت کاروں تاجروں سے زیادہ انکم ٹیکس دیتا آرہا ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ یعنی جولائی تا مارچ کے دوران تنخواہ دار طبقے سے اب تک 241 ارب روپے اکٹھے کیے گئے ہیں۔
اندازہ ہے کہ ایف بی آر تنخواہ دار طبقے سے تقریباً 300 ارب روپے حاصل کر سکتا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس کی مد میں پر آئی ایم ایف کی سفارش سے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طبقوں سے 500 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔

کاروباری افراد سے ٹیکس کا حصول

پاکستان کے معاشی حجم کا تقریباً 20 فی حصہ ریٹیل سیکٹر پر مشتمل ہے۔ یہ ملکی معیشت کا تیسرا بڑا شعبہ ہے جہاں افرادی قوت کے تقریبا 15 فی صد افراد کو روزگار ملا ہوا ہے۔

اعداد شمار کے مطابق 35 لاکھ تاجروں میں سے 5 لاکھ بھی انکم ٹیکس ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ (فوٹو: ایکس)

تاہم حکومت اس شعبے سے وابستہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ غیر رجسٹرڈ تاجر حکومت کے لیے پریشانی کا بڑا سبب ہیں جو حکومت کو انکم ٹیکس ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ریٹیل سیکٹر سے صرف چھ ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کیا گیا جبکہ ملک میں تاجروں کی مجموعی تعداد 35 لاکھ کے قریب ہے۔
اعداد شمار کے مطابق 35 لاکھ تاجروں میں سے 5 لاکھ بھی انکم ٹیکس ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ لگ بھگ 24 کروڑ کی آبادی کے ملک میں صرف 32 لاکھ افراد ٹیکس فائلر ہیں جن میں سے 13 لاکھ کے قریب تو تنخواہ دار ٹیکس فائلرز ہیں۔

تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات

 فیڈل بورڈ آف ریونیو نے تاجر دوست سپیشل پروسیجر 2024 کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کی رجسٹریشن کر کے ان سے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
سکیم کا اطلاق مینوفیکچررز کم ریٹیلرز، امپورٹر کم ریٹیلرز، چھوٹے تاجروں، دکانداروں، ہول سیلرز ،ریٹیلرز پر ہو گا جبکہ اس سے آن لائن کام کرنے والے اداروں اور کاروبار کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جا سکے گا۔
اس نئی ٹیکس سکیم کے اطلاق سے عالمی مالیاتی فنڈ کی ایک اور شرط پوری ہو جائے گی جس نے 20 مارچ کو اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر کے بیل آؤٹپیکج کی منظوری دیتے ہوئے پاکستان سے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔
تاجردوست سپیشل پروسیجر کا اطلاق تاجروں اور دکانداروں پر ہوگا اور اس اسکیم کے تحت تاجروں اور دکانداروں کی رجسٹریشن یکم اپریل سے ہو گی جو 30 اپریل تک جاری رہے گی۔

'آئندہ مالی سال کے آغاز تک ایف بی آر نیا ٹیکس عائد نہیں کر سکتا'

صحافی اور معاشی امور کے ماہر مہتاب حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایف بی آر کو نئے ٹیکس اقدام کرنے کے لیے پارلیمان سے منظوری یا صدارتی آرڈیننس کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایف بی آر نے  رواں مالی سال کے نو مہینے کے دوران 6 ہزار 710 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اُن کے خیال میں اس وقت حکومت کسی ایسے اقدام کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایف بی آر بظاہر آئندہ مالی سال تک کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کر سکتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تنخواہ دار طبقہ صنعت کاروں اور تاجروں سے زیادہ ٹیکس دیتا آ رہا ہے۔‘
 مہتاب حیدر کے مطابق ایف بی آر کے لیے رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف کا حصول مشکل نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے 8 ماہ تک تک تو ایف بی آر نے ہدف کے مطابق محصولات اکھٹے کیے ہیں تاہم آخری سہ ماہی میں نمبرز کو 9415 ارب روپے تک پہنچانا آسان نہیں ہو گا۔
ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سکیم سے متعلق سوال پر مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے یہ اقدام گذشتہ سال انکم ٹیکس آرڈیننس سیکشن میں متعارف کروائی گئی ترمیم کے تحت کیا ہے۔
اُن کے خیال میں اس وقت ایف بی آر تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس سلیبس میں تبدیلی نہیں لا سکتا کیونکہ یہ اقدام قانون میں ترمیم سے مشروط ہے۔
تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سکیم کے اجرا پر تبصرہ کرتے ہوئے مہتاب حیدر نے بتایا کہ 'پہلے مرحلے میں اس سکیم کے تحت ریٹیلرز کی رجسٹریشن شروع کی گئی ہے جس کا عمل 30 اپریل تک مکمل ہو گا۔ سکیم کے تحت تاجروں سے ٹیکس کا حصول آئندہ مالی سال سے ہی شروع ہو گا۔‘
سینئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق ’یہ ایف بی آر کی ایک بڑی ناکامی ہے کہ وہ تاجر برادری کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لا سکے۔‘
ماہر معیشت ظفر موتی والا سمجھتے کہ صنعت کاروں اور تاجروں سے ٹیکس کا حصول ایف بی آر کے لیے ہمیشہ مشکل کام رہا ہے۔
ماضی میں تاجر برادری کے لیے سکیمیں متعارف کروائی گئیں تاہم اُن کا کوئی مثبت نتیجہ نہ مل سکا۔‘

 مہتاب حیدر کے مطابق ایف بی آر کے لیے رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف کا حصول مشکل نظر آ رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اّن کے مطابق اس بار کچھ مختلف ہے کیونکہ آئی ایم ایف سختی سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھائیں اور کاروباری افراد سے بھی انکم ٹیکس کا حصول یقینی بنائیں۔
ظفر موتی والا کا کہنا ہے ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کا کوئی ارادہ نہیں: ایف بی آر

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ترجمان آفاق احمد قریشی نے رابطہ کرنے پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ 'فی الوقت تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے تاہم ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
اُنہوں نے بتایا کہ 'ایف بی آر رواں مالی سال کے محصولات کا ہدف حاصل کرنے کے لیے پر امید ہے۔ تیسری سہ ماہی کے احتتام پر مقرر کردہ ٹیکس ہدف حاصل کر چکے ہیں۔آخری سہ ماہی کے دوران بھی ہدف کے مطابق ٹیکس وصولیوں کا امکان ہے۔‘

شیئر: