Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں بارشوں کے نئے سلسلے نے مزید تباہی مچا دی، گوادر شہر پھر پانی میں ڈوب گیا

محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان مغربی موسمی نظام کی لپیٹ میں ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں مغربی ہواؤں کے نتیجے میں جاری بارشوں کے نئے سلسلے نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ گوادر شہر ایک بار پھر پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ضلع کے کئی دیگر علاقوں میں بھی سیلابی صورتحال کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان مغربی موسمی نظام کی لپیٹ میں ہے جو ایران اور بحیرہ عرب کے راستے صوبے میں داخل ہونے کے بعد ملک کے باقی حصوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، ہرنائی، بارکھان، گوادر، پنجگور، کیچ، خضدار، قلات، سوراب، مستونگ، نوشکی، واشک، چاغی، خاران، سبی، نصیرآباد، جھل مگسی سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ملک میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران گوادر میں سب سے زیادہ 94 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ ایران سے ملحقہ گوادر کے علاقے  جیونی میں 84 جبکہ ساحلی شہر پسنی میں 31 ملی میٹر بارش ہوئی۔
کمشنر مکران ڈویژن سعید احمد عمرانی کے مطابق بارشوں سے ایران سے ملحقہ مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع گوادر، کیچ اور پنجگور متاثر ہوئے ہیں۔ کیچ اور پنجگور میں صورتحال قابو میں ہے، تاہم گوادر اور پسنی میں سیلابی صورتحال ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر کے ان علاقوں میں دوبارہ پانی داخل ہوگیا ہے جو پچھلے ماہ کی بارشوں سے متاثر ہوئے تھے۔ پانی نکالنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے، تاہم بارش جاری رہنے کی وجہ سے اس میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
میونسپل کارپوریشن گوادر کے چیئرمین شریف میاں داد نے اردو نیوز کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب شروع ہونےوالی بارش نے بدھ کی صبح طوفانی شکل اختیار کرلی۔ صبح آٹھ سے دس بجے کے درمیان صرف ڈیڑھ گھنٹے میں 56 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر کی پرانی آبادی میں نکاسی آب کا نظام موجود نہیں، پرانے برساتی راستے نئے تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بارشوں کا پانی سمندر میں جانے کی بجائے شہر کی آبادی میں جمع ہوجاتا ہے۔
یہ گذشتہ دو ماہ کے دوران دوسرا موقع ہے کہ گوادر میں بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اس سے پہلے 27 فروری سے یکم مارچ کے دوران تین دنوں میں 245 ملی میٹر بارش نے پندرہ سالہ ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
ان بارشوں کے نتیجے میں شہر کے نشیبی علاقوں میں دو ہفتوں سے زائد تک پانی کھڑا رہا جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق فروری اور مارچ میں بارشوں سے گوادر میں 431 مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ 7243 کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔

میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ شہر میں بجلی کی فراہمی بھی کل سے متاثر ہے (فوٹو: اے ایف پی)

چیئرمین میونسپل کارپوریشن گوادر کا کہنا ہے کہ شہر میں ایک بار پھر ویسے ہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور زیادہ تر وہی پرانے علاقے ملا بند، شادو بند، ملا کریم بخش وارڈ، شاہی بازار، جنت بازار، ٹی سی سی کالونی، شمبے اسماعیل، فقیر کالونی، نیا آباد متاثر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے گھروں اور دکانوں میں پانی داخل ہو چکا ہے۔ کئی مقامات پر تین فٹ سے زائد پانی جمع ہے۔ زمین پانی جذب نہیں کر رہی، گلیوں میں بھی پانی جمع ہے، گھروں سے پانی نکالنے کا واحد طریقہ مشنری کا استعمال رہ گیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے پاس صرف ایک باؤزر اور 25 ڈی واٹرنگ پمپس ہیں جو پانی نکالنے کے لیے ناکافی ہے۔
شریف میاں داد کے بقول اگر یہ پانی بروقت نہ نکالا گیا تو بڑے پیمانے پر مکانات اور املاک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب تک کئی مکانات منہدم ہوچکے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ پرانی آبادی سے زیادہ تر لوگ نقل مکانی کرکے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو رہے ہیں، ہم نے ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ سرکاری ریسٹ ہاؤسز کھل کر متاثرین کو پناہ فراہم کریں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دس باوزر اور پی ڈی ایم اے کوئٹہ کی جانب سے فراہم کردہ 31 ڈی واٹرنگ پمپس بھی پانی کی نکاسی میں مصروف ہیں۔
میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین شریف میاں داد کا کہنا ہے کہ شہر میں بجلی کے کھمبے گرنے ، ٹرانسفارمر جلنے کی وجہ سے بجلی کی فراہمی بھی کل سے متاثر ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں موبائل فون نیٹ ورک بھی کام نہیں کر رہا۔
ایران سے متصل گوادر کے ساحلی علاقے جیونی میں بارش کے بعد سیلابی صورتحال ہے۔ جیونی کے رہائشی شاہ بخش نے بتایا کہ شہر کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں لوگوں کے گھروں میں پانی موجود ہے۔ مسلسل بارش کی وجہ سے پانی کی سطح بلند ہورہی ہے۔
پشکان، پلیری، اورماڑہ میں بھی سیلابی صورتحال ہے۔ گوادر کو کراچی سے ملانے والی مکران کوسٹل ہائی وے پر سیلابی ریلوں کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک متاثر ہے۔
گوادر کے علاقے پسنی میں دو دن کے وقفے سے ہونے والی بارش نے ایک بار پھر تباہی مچا دی ہے۔ درجنوں خستہ حال مکانات اور چار دیواریاں منہدم ہوگئیں۔  انتظامیہ نے خستہ حال مکانات کے رہائشیوں کو سرکاری سکولوں میں پناہ لینے کی ہدایت کی ہے۔

پی ڈی ایم اے عہدے دار کے مطابق 12 سے 14 اپریل تک بلوچستان میں نو افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

پسنی کے رہائشی زاہد احمد نے بتایا کہ دو دن پہلے نوے ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی تھی جس کا پانی ابھی تک وارڈ نمبر چار، پانچ، چھ اور دیگر نشیبی علاقوں میں جمع تھا آج ایک بار پھر طوفانی بارش نے صورتحال گھمبیر بنادی ہے۔ پانی کی مقدار میں مزید اضافہ ہونے سے مکانات گرنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
پی ڈی ایم اے کنٹرول روم کے انچارج یونس عزیز نے بتایا کہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع بارشوں کی لپیٹ میں ہیں۔ تمام اضلاع کی انتظامیہ کو پہلے ہی الرٹ کردیا گیا تھا۔ گوادر میں اربن فلڈنگ ہے، جی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ پانی کی نکاسی میں مصروف ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے داخل ہونے والے سیلابی ریلوں کے بعد نوشکی کے بور نالے میں طغیانی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے دو یونین کونسلوں میں سیلابی صورتحال ہے۔
پی ڈی ایم اے عہدے دار کے مطابق 12 سے 14 اپریل تک بلوچستان میں بارشوں کے پہلے سلسلے کے دوران مکانات منہدم ہونے اور آسمانی بجلی گرنے سے نو افراد ہلاک ہوئے، تاہم 16 اپریل سے شروع ہونے والے بارشوں کے نئے سلسلے کے نتیجے میں کسی جانی نقصان کی اب تک اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

شیئر: