Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی، عامر خاکوانی کا کالم

مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ احتجاج کے موڈ میں ہیں (فوٹو: سکرین شاٹ)
ہمارے سیاسی منظرنامے پر مختلف خبر نما افواہیں اور افواہ نما خبریں گردش کر رہی ہیں۔ چند ایک مفروضے ہیں اور بعض سازشی تھیوریز۔
ان سب کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے، اس پر آخر میں بات کریں گے، پہلے خبروں، افواہوں، مفروضوں کو لیتے ہیں۔ 
خبر آئی کہ ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب تحریک انصاف اور مقتدر قوتوں کے مابین صلح یا مفاہمت کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ پہلے افواہ تھی، پھر خبر بن گئی کہ ان صاحب کا نام بھی سامنے آ گیا۔ پتہ چلا کہ ریٹائرڈ جنرل صاحب نے تھیوری یہ پیش کی ہے کہ فریقین پیچھے ہٹیں تاکہ ملک میں استحکام پیدا ہو سکے۔
جو فارمولا انہوں نے پیش کیا، اس کے مطابق تحریک انصاف دو برسوں کے لیے موجودہ سیٹ اپ کو تسلیم کر لے اور کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک اگلے سال یعنی 2025 دسمبر تک نہ چلائے،  پرامن احتجاج البتہ ہوتا رہے، بازو پر سیاہ پٹی باندھنے جیسا علامتی احتجاج۔ (براہ کرم سیاہ پٹی والے احتجاج کی معصومانہ تجویز پر ہنس نہ پڑیے گا، بری بات ہے۔) 
اس فارمولے کے دوسرے حصے کے طور پر تحریک انصاف کے رہنماﺅں پر پڑی افتاد ٹل جائے گی۔ اسیر رہنماﺅں کی ضمانتیں ہونے لگیں گی، اہم لیڈروں کی رہائی کے امکانات بڑھ جائیں گے، کسی کی ضمانت ہونے پر کوئی اور فوری کیس تیار کر کے اسے پھر سے پکڑ نہیں لیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ 
یہ تو ہوئی خبر۔ اب افواہ یہ ہے کہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے شخص نے یہ تجویز سنی اور ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے رد کر دیا کہ اس میں ہمارے لیے تو کچھ بھی نہیں۔ 
اس افواہ نما خبر پر تحریک انصاف کے ایک باخبر شخص سے رابطہ کیا اور رائے پوچھی تو وہ بولا کہ ’خان نے ٹھیک ہی تو کہا ہے۔ ہم اس حکومت کو دو سال کے لیے تسلیم کر لیں، یعنی الیکشن میں دھاندلی، فارم 47 والا ہمارا طاقتور بیانیہ جو کہ حقیقت پر مبنی ہے، وہ سب ختم ہو جائے اور اس کے بدلے کیا ملے گا؟ کچھ بھی نہیں۔‘ ان کے مطابق جو لیڈر جیلوں میں قید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میرٹ کے بجائے قید کی مدت کی بنیاد پر ضمانتیں ہو جائیں گی۔ 

ن لیگ کے رہنماؤں نے نواز شریف سے درخواست کی ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت سنبھالیں (فوٹو: اے ایف پی)

 چلیں اب دوسری طرف چلتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر اور رانا ثنااللہ کو مشیر برائے سیاسی امور بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں۔مفروضہ نما خبر یہ ہے کہ نواز شریف صاحب پھر سے ایکٹیو ہو رہے ہیں۔ الیکشن کے بعد والے شاک سے وہ باہر آ گئے ہیں۔ اپنی پسند کے بندوں کو وہ وفاقی کابینہ اور دیگر جگہوں پر ایڈجسٹ کرائیں گے۔ اپنے لیے سیاسی سپیس بڑھائیں گے، پارٹی کی صدارت سنبھال لیں گے اور پنجاب میں بھی ان کی مداخلت مزید بڑھے گے اور اعلانیہ ہو گی۔ 
افواہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کا حالیہ غیرملکی دورہ کچھ زیادہ ثمربار ثابت نہیں ہوا۔ ان کے جانے کے بعد ن لیگی میڈیا سیل اور اِن سائیڈ حلقے یہ کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب کی چینی پریمیئر سے ملاقات بھی ہو گی اور نجانے کیا کیا۔ یہ سب نہیں ہو پایا اور افواہ کے مطابق میاں صاحب جو سوچ کر گئے تھے ، وہ بھی شاید امیدوں کے مطابق نہیں ہو سکا۔
خبر یہ ہے کہ کسان پنجاب حکومت سے سخت نالاں اور برہم ہیں۔ گندم کی سرکاری خریداری اس طرح نہیں ہو رہی، جس کے باعث گندم کا فی من ریٹ کئی سو روپے نیچے آ چکا ہے، کاشت کار تباہ حال ہو چکے ہیں۔ صرف کاشت کار ہی نہیں بلکہ تاجر بھی ناخوش ہیں، پولٹری والے اپنی جگہ ناراض، سولر لگوانے اور بیچنے والے بھی ناخوش ہیں، پراپرٹی اور دیگر شعبوں سے منسلک لوگ بھی بے چین ہو چکے ہیں۔ 
افواہ یہ بھی ہے کہ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب بھی ناخوش ہیں اور میاں نواز شریف بھی۔ اس پر مسلسل غور ہو رہا ہے کہ کس طرح عوام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو ریلیف دیا جائے۔ نت نئے حل سوچے جا رہے ہیں۔ ان سب میں ایک مشترک ہے کہ ہر جگہ نواز شریف کا نام آئے گا۔ نواز شریف کینسر ہسپتال، نواز شریف کسان کارڈ، نواز شریف مزدور  وغیرہ وغیرہ۔ 

گندم کی خریداری نہ ہونے پر کسان پنجاب حکومت سے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 اس پر مفروضہ یہ ہے کہ ن لیگ کو خدشہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسی ڈگمگاتی حالت میں لمبا عرصہ نہیں چلایا جا سکتا۔ چھ، آٹھ ماہ نہ سہی تو سال ڈیڑھ میں نئے الیکشن تک معاملہ چلا جائے گا اور اگلے الیکشن میں ن لیگ کو اپنے زور پر لڑنا پڑے گا اور تب نواز شریف کے انہی نعروں اور پروپیگنڈہ کے تحت ہی انتخابی مہم چلائی جائے گی۔ 
 صحافتی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ پیپلز پارٹی سے وابستہ بعض شخصیات مختلف ٹی وی چینلز خرید رہی ہیں۔ حالیہ چند ماہ میں دو تین ایسی خریداریاں ہو چکی ہیں۔
ایک افواہ یہ ہے کہ پی پی اور ان کے قائد محترم اگلی الیکشن کمپین کے لیے ابھی سے فضا ہموار کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا میں بھی انویسٹمنٹ ہو رہی ہے، کچھ سامنے اور بہت کچھ زیریں سطح پر چل رہا ہے۔
مفروضہ یہ ہے کہ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد بھی بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنائے جانے کی کوشش ہونی تھی جو بوجوہ نہیں ہو پائی۔ اب یہ پلاننگ اور کوشش ہے کہ اگلے کسی مرحلے میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم کے لیے لایا جائے۔ اسی لیے بلاول نے نہ صرف وفاقی کابینہ میں اپنی پارٹی کو حصہ نہیں لینے دیا بلکہ نوجوان بلاول خود بھی لوپروفائل رہنا پسند کر رہے ہیں تاکہ نیوٹرل سٹانس رہے اور وقت آنے پر موجودہ حکومت کے بوجھ یا بیگیج سے بے نیاز ہو کر خود کو پیش کیا جائے۔ 

یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بلاول بھٹو خود لوپروفائل رہنا پسند کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 خبر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان سخت ناراض اور احتجاجی موڈ میں ہیں، وہ پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقریریں کر رہے ہیں، سول سپرمیسی کے علمبردار اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنا چکے ہیں، جلسے بھی کر رہے ہیں۔ افواہ مگر یہ کہ مولانا حکومت کا حصہ تو نہیں بنیں گے، ویسے ان کے لیے’کیک‘ کے چھوٹے ٹکڑے بھی اب نہیں بچے۔
مولانا مگر حکومت گرانے کی حد تک بھی نہیں جائیں گے۔ جیسا لانگ مارچ اور دھرنا انہوں نے عمران خان کے خلاف کیا تھا، ویسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مفروضہ یہ ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں اپنے سیاسی حریف تحریک انصاف کو مزید طاقتور نہیں بنانا چاہتے۔ 
ان سب خبروں، افواہوں، مفروضوں اور سازشی تھیوریز سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں ابھی کچھ عرصے تک سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو گا۔ سیاسی استحکام نہ ہونے کا مطلب ہے کہ معاشی استحکام بھی نہیں ہو پائے گا۔ نئے ٹیکسز لگیں گے، عوام مزید پریشان اور ناخوش ہوں گے، اندرونی فالٹ لائنز مزید بڑھیں گی۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا 
 نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی 
 اب یہی صورتِ حالات نظر آتی ہے

شیئر: