Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کس کا پلان کامیاب ہوگا: عمران خان یا عمران مخالفوں کا؟ عامر خاکوانی کا کالم

اگر قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو آئین میں ترامیم آسکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس وقت بیک وقت دو سیاسی پلان زیرعمل ہیں۔ ایک تحریک انصاف اور اس کے قائد کی حکمت عملی، دوسرا پلان اینٹی تحریک انصاف کیمپ کا جس میں سیاسی وغیر سیاسی قوتیں شامل سمجھ لیں۔ سوال یہی ہے کہ کس کا پلان کامیاب ہوگا؟ پہلے دونوں پلانز کو دیکھ لیتے ہیں۔

 اینٹی تحریک انصاف کیمپ

 سب سے پہلے اینٹی تحریک انصاف کیمپ کا پلان۔ جو کچھ سوچا گیا تھا، اس پر آٹھ فروری کے الیکشن ڈے کو پوری طرح عمل درآمد نہ ہوا مگر کسی نہ کسی طرح ڈیمیج کنٹرول کر کے حتیٰ الامکان حد تک سکرپٹ پر عمل کر ڈالا گیا۔ گو الیکشن متنازع ہوا اور عالمی میڈیا میں بھی یہ سب کچھ چھپا۔
 جو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ صرف اتنی تبدیلی ہی آ پائی کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ٹھیک ٹھاک اکثریت سے بن گئی جبکہ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کی اچھی خاصی نشستیں آئیں اور یوں ن لیگ کے ساتھ پی پی پی کو ملا کر وفاقی حکومت بنی۔
مشہور روسی فکشن نگار چیخوف نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ کسی ڈرامے میں اگر دیوار پر لٹکی بندوق دکھائی گئی ہے یا افسانے میں اس منظر کا ذکر آیا ہے تو پھر اس ڈرامے یا افسانے میں وہ بندوق چل جانی چاہیے۔ روسی لیجنڈ کا مطلب یہ تھا کہ کچھ بھی غیر ضروری نہ دکھایا جائے، جس کا ذکر ہو، اس کا کوئی مضبوط جواز موجود ہو۔
 بدقسمتی سے پاکستان کے طاقتور حلقے چیخوف کے اس مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو وہ بلامقصد نہیں ہوتا۔ اس کا کوئی جواز اور باقاعدہ پلان موجود ہوتا ہے۔ وقت آنے پر اسے عملی جامہ بھی پہنا دیا جاتا ہے۔
 اس لیے یہ سمجھ لیں کہ اگر قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو آئین میں ترامیم آ سکتی ہے۔ مسئلہ قومی اسمبلی کا ہے، سینیٹ میں تو ویسے بھی اس حکمران اتحاد یعنی ن لیگ +پی پی پی+ایم کیو ایم +دیگر چھوٹے گروپوں کو پہلے ہی اکثریت حاصل ہے۔
سینیٹ کے انتخابات کے بعد دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔ ان ترامیم میں نگران حکومت کے جھنجھٹ کو ختم کرنا یا لیڈر آف اپوزیشن کی منظوری کی شرط تو لازمی ختم ہو جائے گی، چیئرمین نیب کے لیے بھی یہ قدغن اڑائی جا سکتی ہے۔
 اس وقت یہی لگ رہا ہے کہ جو حکمران اتحاد وفاق میں ہے، اسے بغیر کسی مشکل یا پریشانی کے چلایا جائے۔ وزارت خزانہ سے اسحق ڈار کو دانستہ الگ رکھا گیا۔
زرداری صاحب صدر بن کر خوش، شہباز شریف وزیراعظم بن کر مسرور جبکہ نواز شریف خوش تو نہیں مگر اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ بنوا کر انہیں کچھ طمانیت تو ملی ہے اور ان کی ترجیح اس وقت سسٹم کو بگاڑنے کے بجائے اپنی صاحبزادی کو کامیاب کرانا ہوگا۔

 مولانا فضل الرحمن کدھر جائیں گے؟


مولانا برہم ہیں مگر اتنے نہیں کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک چلے جائیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 ان حالات میں صرف مولانا فضل الرحمن ہی ناخوش ہیں۔ سابق پی ڈی ایم حکومت کے وہ ایسے پارٹنر ہیں جنہیں اس الیکشن میں زیادہ نہیں مل سکا۔ مولانا کی نگاہ صدارت پر تھی، وہ تو کیا ملنی تھی، پختونخوا کی گورنری بھی جا رہی ہے اور بلوچستان کی صوبائی حکومت میں بھی شیئر نہیں مل پایا۔
مولانا برہم ہیں مگر اتنے نہیں کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک چلے جائیں۔ مولانا کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پختونخوا کی سیاست میں تحریک انصاف ان کی روایتی حریف ہے اور کسی بھی صورت میں وہ مستقبل میں اتحادی نہیں بن سکتے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ وزیراعلیٰ ایسے شخص کو بنایا گیا جو کھلے عام جلسوں میں مولانا کا مذاق اڑاتا اور فقرے کستا رہا ہے۔
 مولانا فضل الرحمان کے لیے تھوڑی سی سپیس اب پیپلزپارٹی نے پیدا کی ہے۔ طے پایا کہ سینیٹ انتخابات میں جے یوآئی پی پی کے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سیٹ پر سپورٹ کرے گی جبکہ پیپلزپارٹی جواب میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سے جے یوآئی کو ایک ایکسٹرا سینیٹر بنوانے میں مدد کرے گی۔
کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں اپنی سیٹیں بڑھ جانے سے مولانا فضل الرحمن وفاقی کابینہ کے لیے کوئی بہتر ڈیل کر سکیں گے۔
لگ رہا ہے کہ کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ عمران خان خاموش یا لو پروفائل رہیں۔ ان کی پختونخوا حکومت کو برداشت کیا جائے اور انہیں احتجاج کے بجائے پارلیمنٹ میں رہ کر اپوزیشن کا کردار نبھانے پر مجبور کیا جائے۔ کم از کم اگلے دو برسوں تک سب ایسے ہی چلتا رہے اور اس دوران پورا فوکس اکانومی پر کیا جائے۔
آئی ایم ایف سے نئے پیکج کے بعد دوست ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کی کوششیں اور وزارت خارجہ کو بھی اس بار اکانومی کے لیے استعمال کیا جائے۔

 اپوزیشن کی خاموشی لازمی

یہ تب ہو سکتا ہے جب اپوزیشن خاموش رہے یا دھیمے سروں میں گنگنائے۔
بلند آواز میں ان کی گائیگی کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی بھی بظاہر لیوریج کے لیے اپنائی جانے والی پالیسی کا حصہ ہے۔
بعض حوالوں سے مزید سختی آ سکتی ہے۔ ابھی تک نو مئی کے کیسز کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی تیز رفتار پیش رفت ہوسکتی ہے، وغیرہ۔

زرداری صاحب صدر بن کر خوش، شہباز شریف وزیراعظم بن کر مسرور ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

علی امین گنڈاپور نے اگر زیادہ جارحانہ انداز اپنایا تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان ہی کے حلقہ سے جے یوآئی کے مقامی رہنما اس معاملے کو اٹھا چکے ہیں۔

 عمران خان اور تحریک انصاف

 عمران خان اور ان کے پارٹی رہنما اس پر برہم اور ناراض ہیں کہ ان کے الیکشن مینڈیٹ کو تبدیل کیا گیا، ورنہ ان کے بقول وہ ڈیڑھ سو سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں اور پنجاب اسمبلی میں بھی اکثریت لے چکے تھے۔ تحریک انصاف کا موقف بے وزن نہیں، الیکشن میں بہت کچھ ایسا متنازع اور غلط ہوا کہ مانیٹرنگ کرنے والے آزاد ادارے، مقامی اور غیر ملکی اخبارنویس بھی کھل کر یہ مان اور کہہ رہے ہیں۔
 مسئلہ مگر یہ ہے کہ جو کچھ ہوگیا، وہ ہوگیا، اسے فوری ریورس کیسے کیا جائے؟
آئین کے مطابق الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہیں، جس کا ان انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں نے جو فیصلے کیے، ان کے خلاف صرف ٹریبونلز ہی میں اپیل ہو سکتی ہے، ہائی کورٹ جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ٹربیونلز کا مسئلہ وہی ہے کہ رفتار اتنی سست ہوتی ہے کہ کم از کم بھی دو ڈھائی سال اور کئی بار تو اسمبلی کی پوری مدت مکمل ہونے تک بھی فیصلے نہیں ہوتے۔ پچھلے الیکشن کے بعد پنجاب میں نو ٹریبونلز بنائے گئے تھے، اس بار تو سنا ہے کہ ابھی تک صرف دو ٹریبونل بنے ہیں۔ مزید بن جائیں گے، مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت ان متنازع کیسز کے فیصلے جلد کرانے میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی؟

خان کی حکمت عملی

 عمران خان کی حکمت عملی بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پر دباﺅ برقرار رکھا جائے۔ کسی حد تک سڑکوں پر احتجاج اور بڑی حد تک پارلیمنٹ کے اندر احتجاج، شور شرابے اور جارحانہ حکمت عملی سے اسمبلی نہ چلنے دی جائے۔

بظاہر اکتوبر نومبر 2025 تک موجودہ سیٹ اپ جو ایسے ہی چلانے کی کوششیں ہوں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حساسیت اس حد تک ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے کی ن لیگی رکن اسمبلی سے ہنستے بولتے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور جپھی ڈالنے کا کلپ سامنے آیا تو شیرافضل مروت نے عمران خان سے ملاقات کے بعد صاف کہہ دیا کہ خان صاحب ان پپی جپھیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مطلب شاید کہ سخت گیر مخالفت کی فضا برقرار رہے۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی صوبے کے مسائل اور وفاق سے رائلٹی وغیرہ کے لیے سخت جارحانہ رویہ اپنائیں گے۔ مرکزی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش ہوگی۔

  کیا احتجاجی پالیسی کامیاب ہوگی؟

 اس کا جواب آسان نہیں۔ عمران خان ظاہر ہے یہ حکومت گرانا چاہیں گے کیونکہ ان کے بقول یہ جعلی مینڈیٹ والی حکومت ہے۔ اس کے پیچھے سپورٹ موجود ہے۔
ہم 2018 میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ اگر سپورٹ حاصل نہ ہو تو مولانا فضل الرحمن اپنے پرجوش کمٹیڈ 20 سے 25 ہزار ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد میں آٹھ دس دن دھرنا دے کر بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔
اسی طرح جب ساڑھے تین سال بعد مقتدرہ پیچھے ہٹی، تب ہی اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکی۔
 اس لیے سردست تو تحریک انصاف کے لیے چیزیں زیادہ آسان نہیں۔ ملک کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اگلے چند ماہ تو آئی ایم ایف سے نئے معاہدے اور مشکل معاشی فیصلے کرنے پر سب کا فوکس رہے گا۔
نئی نئی حکومتیں ہیں تو کوئی بھی پارٹی اتنا جلد اگلا الیکشن نہیں چاہے گی۔ ارکان اسمبلی جو کروڑوں لگا کر آئے ہیں، اتنا جلد دوبارہ الیکشن میں جانے کے لئے قطعی تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے بظاہر اکتوبر نومبر 2025 تک یہ سب ایسے چلانے کی کوششیں ہوں گی۔
 دو فیکٹرز البتہ اہم ہیں۔ نمبر ون پر اکانومی۔ اگر معاشی حالات جلد نہ سدھرے اور پی ڈی ایم حکومت پارٹ ون کی طرح شہباز شریف حکومت کی ناقص گورننس کا تاثر رہا تب شائد تحریک انصاف کے لئے کچھ سپیس بن سکے۔

زیادہ بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف اپنے لئے مشکلات بڑھائے بغیر سیاسی دباﺅ برقرار رکھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 دوسرا فیکٹر پیپلزپارٹی ہے۔ اس کا ن لیگ کے ساتھ مستقبل بنیاد پر جڑا رہنا بھی دشوار ہے۔ حکومت اگر اپنی غلطیوں یا مشکل فیصلوں، مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے ازحد غیر مقبول ہوگئی تو پیپلزپارٹی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہوگی۔ تب ممکن ہے سیاسی توڑپھوڑ ہو۔

 حرف آخر

 تحریک انصاف کے لیے حکومت پر دباﺅ ڈالنا مجبوری بھی ہے کہ اسی سے پارٹی بھی متحد اورالیکشن نتائج سے ناراض کارکن بھی مویٹویٹ رہیں گے۔ تحریک انصاف کے لیے اس وقت ایک بڑا اپوزیشن اتحاد بنانا بہت ضروری ہے۔
جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے پاس تحریک انصاف کے کیمپ میں جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ بلوچستان کی بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں کو بھی قریب لانا ہوگا۔ محمود اچکزئی تو خیر تحریک انصاف کے قریب آئے ہی ہیں، اختر مینگل کو بھی ساتھ ملانا ہوگا اور ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی یا دیگر چھوٹے گروپوں کو بھی۔ بلوچستان میں ان کے لیے جگہ نہیں باقی رہی، تحریک انصاف اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
زیادہ بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف اپنے لئے مشکلات بڑھائے بغیر سیاسی دباﺅ برقرار رکھے اور کسی مناسب وقت کی تاک میں رہے۔

شیئر: