پاکستان میں قابل تجدیدتوانائی
سمیرا ظفر
ریموٹ سینسِنگ اینڈ جیو انفارمیشن سائنس۔کراچی
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو آب و ہواکی تبدیلیوں سے سب سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حالانکہ کرہ ارض کے درجہ حرارت کے بڑھنے اور آب و ہواکی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے۔ دنیا کو درپیش ان 2مسائل کی وجہ کسی حد تک معدنی تیل کا استعمال بھی ہے۔ اب جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک توانائی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے قابل تجدید اور صاف توانائی پر انحصار کر رہے ہیں، پاکستان میں یہ شعبہ کسی حد تک ترقی پذیر ہے۔
”لیڈ پاکستان“ کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے مطابق خوابوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن خواب نہ ہونا آپ کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جی ہاں یہ ہماری مستقبل کی نسلوں پر اثر انداز ہوگا۔ اب بھی ہم اس دوڑ میں بہت پیچھے نہیں اور بہت جلد قابل تجدید اور صاف توانائی ہماری صنعتوں، گھریلو استعمال اور نقل و حمل کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے استعمال ہوگی۔خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس متبادل توانائی کے بہت سے ذرائع موجود ہیں جس میں پن بجلی، ہوا ، شمسی توانائی اور بائیو فیول شامل ہیں لیکن یہ ممکنہ وسائل بھی اب تک پوری طرح بروئے کار نہیں لائے جاسکے ما سوائے پن بجلی کے۔اس وقت پاکستان 1000 میگا واٹ بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کر رہا ہے۔
وزارت مالیاتی امور نے رواں سال ہوا اور شمسی توانائی کے1 سے 10 میگا واٹ کے منصوبوں کےلئے150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ان منصوبوں میں 5 میگا واٹ کا منصوبہ خضدار،بلوچستان اور مختلف میگاواٹ کے منصوبے جھمپیر اور گھاروسندھ میں لگائے جائیں گے۔1000 میگا واٹ کے قائد اعظم پارک کےلئے172 ملین ڈالر کا بجٹ تفویض کیا گیا ہے۔ یہ توانائی پارک2630 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے اور 2017 کے اختتام تک 100 میگا واٹ بجلی کی فراہمی شروع کر دیگا۔
متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ملک اس وقت 1135 میگا واٹ متبادل توانائی پیدا کر رہا ہے جس میں 400 میگا واٹ شمسی توانائی سے، 590 میگا واٹ ہوا سے اور 145 میگا واٹ بائیوفیول سے ہے۔ متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ کے مطابق 2018 کے آخر تک شمسی توانائی کی پیداوار 1750 میگا واٹ تک ہو جائیگی ساتھ ہی وہ پرامید ہیں کہ 2019 تک پاکستان میں صاف توانائی کی پیداوار 3000 میگا واٹ تک پہنچ جائیگی۔
جدید جیوگرافیکل انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے قابل تجدید اور صاف توانائی کے منصوبوں کےلئے موزوں مقامات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی ( شعبہ ریموٹ سینسِنگ اینڈ جیو انفارمیشن سائنس -کراچی ) کے ماسٹرز کے طالبعلم نے اپنی تحقیق میں مختلف ماحولیاتی ،زمینی اور آب وہوا کے عوامل(ہوا کی رفتار، ہوا میں نمی کا تناسب، زمین کے خدوخال، گرڈاسٹیشن، سطحی ڈھلان اور سورج کی روشنی استعمال کرتے ہوئے ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں کےلئے موزوں مقامات معلوم کیے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق ہوا کے منصوبوں کےلئے موزوں ترین مقامات دادو، ٹھٹھہ، بدین، لاڑکانہ، سکھر، جیکب آباد اور تھر پارکر میں واقع ہیں جو کہ 1800 میگا واٹ تک توانائی پیداوار دے سکتے ہیں۔ شمسی تونائی کےلئے موزوں ترین مقامات دادوسکھر، جامشورو اور تھر پارکر میں واقع ہیں اور 270 میگا واٹ تک توانائی پیداوار دے سکتے ہیں۔ ایک اور طالبعلم نے اپنی تحقیق میں ٹھٹھہ کے موجودہ بنجر زمین کوپودے کے لئے مو زوں قرار دیا ہے۔ اس پودے کے بیج سے بڑے پیمانے پر بائیو فیول حاصل کیا جا سکتا ہے۔
متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ اور ورلڈ بینک نے قابل تجدید اور متبادل توانائی کے منصوبوں کی نقشہ بندی بھی شروع کردی ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہم صاف توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ بہت جلد پاکستان اپنی زیادہ تر توانائی قابل تجدید ذرائع سے ہی حاصل کر رہا ہوگا۔