Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صبح نو کے آثار

احتساب کا جو پہیہ شروع ہوا ہے ،اسے کسی بھی صورت ایک خاندان تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ بلا امتیاز و بلا تخصیص ہر اس شخص تک پہنچنا چاہئے
* * * * * محمد مبشر انوار* * * *
وطن عزیز سے ٹھنڈی اور معطرہواؤں کے جھونکے آ رہے ہیں،غریب عوام جس آزادی کے منتظر پچھلے 70 برس سے ہیں،عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے سے اس کی خوشبو آنا شروع ہو گئی ہے،متفکر و پریشان حال عوام کو آسودگی کی کرن نظر آ نے لگی ہے،حکمرانوں کے اللے تللوں کی خاطر قرضوں میں جکڑے غریب عوام کو سکون کی سانسیں آنے لگی ہیں،آثار نظر آ رہے ہیں کہ وطن عزیز کو چمٹی جونکیں اور بلائیں ٹل رہی ہیں جو پچھلے 70 برس سے اس ملک کے وسائل کو انتہائی بے دردی سے لوٹ رہی تھیں،اس کے وسائل کو اپنی ہوس زر سے مسائل میں تبدیل کر رہی تھیں،عیاش کوش حکمران اشرافیہ عوام کو ساری دنیا میں گروی رکھوا کر ،افسر شاہی کی ملی بھگت کے ساتھ ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتی جبکہ غریب عوام مسلسل استحصال کا شکار بنی ان کے مظالم پر اشکبار اور اپنی قسمت کو کوستی رہتی۔ اب لیکن حالات بدل رہے ہیں ۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ اس مقدمے میں انصاف جیتا یا تحریک انصاف،کیس کو میرٹ پر دیکھا جائے تو کوئی بھی آزاد عدلیہ اس سے مختلف فیصلہ قطعاً نہ دیتی جس کا اظہار میں اپنی ایک تحریر بعنوان ’’نااہلی ‘‘ میں کر چکا ہوں۔
یہ حقیقت ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے مقدمے کے حقائق پانامہ سے متعلق تھے مگر دوران تفتیش ایسے ایسے معاملات عدالت کے سامنے آئے جو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے تھے، مثلاً بحیثیت وزیر اعظم اور کابینہ کے کئی دیگر اراکین بیک وقت نہ صرف پاکستان میں قانون سازی کی معزز ترین حیثیت پر فائز تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بغرض ملازمت مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں میں رہائش پذیر (اقامہ )بھی رکھتے تھے گو کہ اس اقامہ کے حصول میں ان کے مذکورہ کفیل مشرق وسطیٰ کی تمام قانونی شرائط کو پورا بھی کرتے ہوں گے کہ یہاں کے قوانین پورے کئے بغیر اقامہ کا حصول تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ قوم کے یہ نمائندگان سپوت ایسی ایسی جگہوں اور عہدوں پر فائز تھے جو براہ راست قومی مفادات کے خلاف اور متصادم تھے،ان تمام حقائق کے بعد عدالت عظمیٰ نے جب اپنا فیصلہ سنایا تو مسلم لیگ ن کے ورکرز کو یہ بات انتہائی گراں گزری کہ نا اہلی ایک ایسی بات پر کی گئی جس کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہ تھا۔
یہ معصومیت کی انتہا ہے یا شخصیت پرستی کی کہ عدالت عظمیٰ کے اختیار پر صرف اس لئے تنقید کی جا رہی ہے کہ چونکہ ایک ایسے غیر قانونی عمل پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا گیا جس کامتعلقہ قصے سے کوئی تعلق نہیں،چہ معنی دارد؟ شخصیت پرستوں کی ایک اور ادا ،جس پہ قربان ہو نے کو دل کرتا ہے کہ کیا معصوم لوگ ہیں کل تک جو بھٹو کو غاصب (نیشنلائزیشن کے حوالے سے)سمجھتے تھے اور تب عدالت عظمیٰ کی دی گئی سزا کو برحق سمجھتے تھے،آج اسی مقدمے کے حوالے سے واویلا کررہے ہیں کہ تب بھی عدالت عظمیٰ نے غلطی کی تھی اور وہی غلطی عدالت عظمیٰ آج پھر میاں نواز شریف کے کیس میں دہرا رہی ہے کہ عدالت عظمیٰ نہ تو ٹرائل کورٹ ہے اور اس طرح فیصلہ کرنے سے وہ مدعی کو حق اپیل سے محروم کر رہی ہے(جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حق اپیل کو بچانے کی خاطر عدالت عظمیٰ نے تمام ریکارڈ نیب اور متعلقہ اداروں کو ہدایات دے کر بھیج دیا ہے) ،اس ضمن میں ایک سوچے سمجھے منصوبے اور لائحہ عمل کے تحت معصوم عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے جس کی مجھے صرف ایک وجہ سمجھ آتی ہے کہ کسی بھی طرح اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھا جا سکے،یہ ان کا حق بھی ہے کہ جس ووٹ بینک کو بنانے میں ان کی تین دہائیاں صرف ہوئی ہوں ،اس اثاثے کو وہ کس طرح بکھرنے دیں!لیکن ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ عوام الناس کو حقیقت سے آگاہ رکھیں اگر ان حقیقتوں کے باوجود عوام ان کے ساتھ ہے تو یہ ’’جمہوریت‘‘ ہے مگر اسی عوام کی یاد دہانی کے لئے جمہوریت کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بیسو یں صدی میں بھی دنیا کا طاقتور ترین انسان (بل کلنٹن)اپنے غیر اخلاقی فعل پر عوام کو جوابدہ ہے لیکن یہ موازنہ اس لئے درست معلوم نہیں ہوتا کہ امریکی عوام کا شعور زیادہ بلند ہے،اسی لئے وہ اپنے منتخب اراکین پر پورا اعتماد کرنے کے باوجود اندھی تقلید کے قائل نہیں اور قانون کی عملداری پر کسی قسم کے سمجھوتے کے بھی قائل نہیں۔
رہی بات ان کے قومی مفادات کی تو وہاں عالمی طاقتوں کے نہ کوئی اصول ہیں اور نہ ضوابط ،صرف اور صرف ملکی مفاد دیکھا جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی بے اصولی کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر بات کی جائے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ عدالت عظمیٰ نے تمام قانونی پہلوؤں کا نہ صرف بھر پور احاطہ کیا ہے بلکہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں سے اجتناب برتتے ہوئے ،فریقین کو ایسا موقع دینے سے بھی گریز کیا ہے کہ کہیں بھی ان کا حق اپیل ختم نہ ہو۔ جس قانون کے تحت وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا گیا ہے، وہ قانون موجود ہے اور اس قانون کے تحت عدالت عظمیٰ پہلے بھی مختلف اراکین کو نا اہل قرار دے چکی ہے لہذا مسلم لیگ ن کے اکابرین اور ووٹرز کو یہ سمجھنا چاہئے کہ قانون کی عملداری سے کوئی بھی بالا تر نہیں اور اس میں کسی عہدے پر براجمان ہونے سے بڑی سے بڑی شخصیت بھی مبرا نہیں ہو سکتی،اگر اس سب کے باوجود عوام مسلم لیگ ن کے ہی نمائندوں کو منتخب کرتی ہے تو یہ اس کا حق فائق ضرور ہے مگر یہ ذہن میں رہے کہ اس بدلتے ہوئے (بدلے ہوئے نہیں)پاکستان میں اب یہ مشکل ترین ہوتا جائے گا کہ حسب ماضی من مرضی چلتی رہے اور اگر من مرضی نہ چل سکے تو شہنشاہوں کے لئے تخت و تاج میں کوئی کشش باقی نہیں رہے گی۔ محاسبے کا یہ عمل الحمد للہ پاکستان میں شروع ہو چکا ہے اور بحیثیت عام پاکستانی ہمیں اس عمل کو تقویت دینی چاہئے اور ایسی کسی بھی شخصیت کو جس نے کوئی بھی غیر قانونی کام کیا ہو،اس کی پکڑ پر بلاوجہ شورو غوغا کرنے کے یا اس کی حمایت کرنے کی بجائے ہمیں اپنے عمل سے اداروں کو مضبوط کرنا چاہئے تا کہ وہ پوری تندہی کے ساتھ ایسے مگر مچھوں کو سخت احتساب کے شکنجے میں جکڑیں اور وطن عزیز کی خوشحالی میں اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کریں۔
احتساب کا جو پہیہ شروع ہوا ہے ،اسے کسی بھی صورت ایک خاندان تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ بلا امتیاز و بلا تخصیص ہر اس شخص تک پہنچنا چاہئے جو کسی بھی حوالے سے کوئی حیثیت، مرتبہ یا عہدہ رکھتا ہے مگر اس کے اثاثے،طرز زندگی اور معاشی حیثیت کسی بھی طرح اس کے ذرائع آمدن سے میل نہ کھاتے ہوں۔ سیاستدان،افسر شاہی،کاروباری افراد، ججز،جرنیل اور بے ضمیر میڈیا کے اراکین جو اس مقدس پیشے کی اہانت کے مرتکب ہوئے ہیں، سرکار دربار کے دستر خوان سے مال مفت بٹورا ہے اور عوضانے میں عوام کو حقائق کے برعکس اپنے آقاؤں کی وہ تصویر پیش کرتے رہے،جو سب اچھا ہے کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور عوام کو ارادتاً گمراہ کرتے رہے۔ بات یہیں تک رکنی نہیں چاہئے بلکہ اس کرپٹ مافیا کی بیرون ملک جائدادوں کی قرقی کر کے پاکستان کا لوٹا ہوا مال واپس لایا جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دے کر ، نشان عبرت بنا کر، دوسروں کو ایسی کارروائیوں سے روکا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے صرف اپنا کام نہیں کیا بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اس پر عملدرآمد کی خاطر ایک جج کو متعین کرنے کی درخواست بھی کی ہے تا کہ کسی بھی جگہ پر کوئی بھی ادارہ اپنے فرض سے روگردانی نہ کرے اور بطور ٹوکن نیب کے سربراہ قمر الزمان چوہدری کو کام سے روک کر پاکستان میں صبح نو کے آثار پیدا کر دئیے ہیں۔

شیئر: