طلاق ثلاثہ معاملے پر علماء اور دانشوروں میں اختلاف
نئی دہلی۔۔۔۔طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی،غیرقانونی و غیر اسلامی قراردینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مسلمانوں کے مذہبی ، سماجی اور سیاسی حلقوں میں زبردست بحث چھڑگئی ہے۔ مسلم سیاستداں ، علماء اور دانشورفیصلے کے حوالے سے ایک رائے پر متفق نہ ہوسکے۔ بعض نے فیصلے کو درست قراردیا، دیگر نے غیر آئینی کہا۔ بعض نے تشویش کا اظہار کیا ۔ دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے کہا کہ مسلم پرسنل لابورڈ کے بعض عہدیداروں نے اسلامی شریعت کو مذاق بنادیا ہے جس سے پورے ملک کے مسلمانوں میں بے چینی کی فضا قائم ہے۔ انہوں نے 3طلاق کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مذہبی آزادی کی بنیادی روح برقرار ہے۔انہوں نے مسلم پرسنل لا پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس وقت جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار بورڈ کے وہ ممبران ہیں جنہوں نے دہرا معیار اپنارکھا ہے۔مولانا نے کہا کہ مذہبی گھرانوں میں اگر کوئی شخص ایک نشست میں 3طلاق دیتا ہے تو وہ لوگ اہلحدیث سے فتویٰ لے لیتے ہیں لیکن اگر عام مسلمانوں میں سے کوئی 3طلاق دیدیتا ہے تو کہتے ہیں کہ طلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔شاہی امام نے سوال کیا کہ آخر یہ منافقت کیوں؟جبکہ مسلک اہلحدیث میں ایک نشست میں 3 طلاق کو ایک ہی تسلیم کیا جاتا ہے ۔کیا ان کے مسلک کی بنیاد قرآن و حدیث پر قائم نہیں؟کولکتہ ترنمو ل کانگریس کے رکن اسمبلی اور جمعیت علمائے ہند مغربی بنگال کے صدر صدیق اللہ چوہدری نے 3 طلاق کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی قراردیا اور کہا کہ مرکزی حکومت کو دینِ اسلام کے معاملے میں مداخلت کا حق نہیں ۔جمعیت علمائے ہند کے مرکزی دفتر نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے طلاق ثلاثہ کے فیصلے کو کالعدم قراردینے کے تناظر میں مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری صدر جمعیت علمائے ہند کی زیر صدارت اہم میٹنگ ہوئی جس میں مولانا محمود مدنی، مفتی سلمان ، ایڈوکیٹ شکیل احمد وغیر ہ شریک ہوئے۔ممبئی کے ممبران پارلیمنٹ نے اس موضوع پر الگ الگ رائے کا اظہار کیا۔معروف وکیل اور راجیہ سبھا میں این سی پی ممبر مجید میمن اور کانگریس کے راجیہ سبھا رکن حسین دلوائی نے فیصلہ کو تاریخی قراردیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنا چاہئے۔