Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر ایڈکانیولا

افغانستان نے سوویت اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ خاموشی سے وہاں سے نہ نکلے تو ؟ ہر کمالے رازوال!
* * * *جاویداقبال* * * *
کرۂ ارض کی اکلوتی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا افغان پالیسی پر خطاب سن کر مجھے ان کے ہی ایک ہموطن ڈاکٹر ایڈ اور اس کا نیولا یاد آگئے۔ ڈاکٹر ایڈ سے میری ملاقات مشرقی افریقی ملک کینیا کے شہر مچاکوس میں ہوئی تھی۔ ایڈ شہر سے کوئی 10کلو میٹر دور ایک پہاڑی پر واقعہ ثانوی اسکول میں ریاضی پڑھاتا تھا۔ مخبوط الحواس تھا لیکن ریاضی پر قابل رشک دسترس رکھتا تھا۔
امریکہ کے شہرۂ آفاق تعلیمی ادارے میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد امریکی وزارت دفاع میں اس نے محقق کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا۔ ہوا میں اچھالے گئے اجسام (Projectiles) کے موضوع پر تحقیق میں لگ گیا۔ کشش ثقل اور اسکی مخالف قوتوں کے باہمی روابط پر کام کرتے اس نے ایسے کلیے دریافت کئے جو اس سے پہلے کسی ادارے نے نہ کئے تھے۔ ڈاکٹر ایڈ کی فائل میزائل پروڈکشن ڈپارٹمنٹ ارسال کی گئیں جہاں اس میں بیان کئے گئے نقاط نے میزائل ٹیکنالوجی میں متعدد مثبت تبدیلیاں متعارف کرادیں۔ ویتنام جنگ زوروں پر تھی۔
ویت کانگ گوریلے ہند ، چینی کے جنگلوں میں امریکی فوجیوں کے لئے عذاب بنے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ایڈ کے نسخے نے نئی وضع کے میزائل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نیپام بموں کو ہدف تک پہنچانا آسان ہوگیا۔ جنگلوں میں امریکی فوجیوں کے خلاف برسر پیکار ویت کانگ ان بموں کا ہدف بننے لگے۔ ڈاکٹر ایڈ اپنی فائل وزارت دفاع کے حوالے کرکے مستعفی ہوگیا۔ انہی دنوں امریکی حکومت نے افریقہ میں اپنے قدم جمانے کیلئے وہاں کے تعلیمی اداروں میں اپنے گریجویٹ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تدریس کیلئے بھجوانے کا پروگرام بنایا۔ پیس کور کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی اور ہزاروں گریجویٹ بھرتی کرکے افریقی ممالک کو ارسال کردیئے گئے۔ ڈاکٹر ایڈ ان میں سے ایک تھا۔ معروف تعلیمی ادارے سے ریاضی میں ڈاکٹریٹ کرنے اور پینٹاگان کے لئے 2 برس کام کرنے کے بعد سکون کی تلاش میں تھا کہ اسے پیس کور کے بارے میں خبر ملی اور اب کینیا کے ایک ثانوی مدرسے میں نویں اور دسویں جماعت کے سیاہ فام طلباء و طالبات کو پڑھا رہا تھا۔
ہر اتوار کو پہاڑی کے اوپر اپنے گھر سے نیچے اترتا اورشہر آجاتا۔ میری رہائش شہر کے مرکز میں واقع تھی اور وہیں وہ میرے ایک دوست کے ہمراہ آیاتھا۔ اس پہلی ملاقات میں ہی وہ مجھے کچھ مخبوط الحواس سا لگا۔ ٹی شرٹ اور گھسی پرانی جینز پہنے تھا۔ جب بات چلی تو اس نے اپنے بارے میں تفصیلاً بتایا تھا اور پھر بڑے متاسف انداز میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی میزائل ٹیکنالوجی کی پیشرفت میں اس کی تحقیق نے بھی اہم کردارادا کیاتھا۔ ’’تو تم نے نسل انسانی کی تباہی میں اپنا حصہ ڈال دیا؟‘‘ میں نے کہا تھا۔ ’’نہیں،نہیں! اس میں میزائل کا کیا قصور؟ میزائل ہی تو ہمیں چاند پر لے گیا تھا!‘‘ وہ تھوڑا جل ہوکر بولا تھا۔ ہماری پہلی ملاقات تھی اس لئے میں نے بات کو طول دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ جاتے وقت وہ بولا ’’میں ہر اتوار کو شہر آتا ہوں اگر اجازت ہو تو یہاں آکر تھوڑا سستا لیا کروں؟‘‘ ’’یقینا.....یقینا اسے اپنا ہی گھر سمجھو‘‘۔ اس نے متشکرانہ انداز سے میری طرف دیکھا اور پھر میرے دوست کے ہمراہ کمرے سے نکل گیا۔ اگلی اتوار کو وہ آیا تو اس کے شانے پر ایک ننھا سا نیولے کا بچہ سوار تھا۔ گلے میں رسی تھی جس کا دوسرا سرا ایڈ کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے مہمان کو دیکھا تو وہ بولا ’’معاف کرنا یہ کل رات میرے ہاتھ لگا تھا۔
میرے گھر کے باہر اچانک بلیوں نے شور مچاد یا۔ نکل کر دیکھا تو اس نیولے کے بچے کو 4،5بلیوں نے گھیر رکھا تھاا ور یہ بچارا خوف میں زمین سے چپکا بیٹھا تھا۔ میں نے بلیوں کو بھگایا اور پھر اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ یہ بڑے اطمینان اور آرام سے میری ہتھیلی پر چڑھ آیا۔ بڑا شریر ہے۔ یہ دیکھو اس نے میری پتلون کا پائنچہ کاٹ دیا ۔ آج صبح جب پہنی تو اس کی کارستانی کا پتہ چلا۔‘‘ اس نے پیار سے شانے پر سوار بچے پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے اپنی گود میں اتار لیا۔ ننھا جانور اپنی چمکدار گول آنکھوں سے مجھے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ٹھیک ہے ایڈ لیکن اسے مجھ سے دور رکھو‘‘۔ میں نے ناگواری سے کہا۔’’ کیوں؟ ‘‘وہ حیرت سے بولا۔ ’’مجھے اچھا نہیں لگتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ایڈ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ پھر چند لمحوں بعد وہ بولا ’’یہ سب معصوم اور خوبصورت مخلوقات زمین کی رونق ہیں۔ اسی خالق کی پیدا کی ہوئی ہیں جس نے ہمیں تخلیق کیا ۔ پرندے ، تتلیاں، پھول ، جانور یہ سب قدرت کے مظاہر ہیں اورہمارے پیار اور توجہ کے مستحق ہیں۔ ہم امریکی ان سب سے بیحد محبت کرتے ہیں۔‘‘ آداب میزبانی مانع رہے اس لئے میں ایڈ سے اس تحقیق کا تذکرہ نہ کرسکا جس کے نتیجے میں بنائے گئے نئے میزائل ویتنام کے جنگلوں میں آگ بھر رہے تھے۔ 1954ء سے 30اپریل 1975ء تک جنگ میں دونوں طرف کے 20لاکھ شہری مرے۔ جن میں 11لاکھ ویت کانگ اور شمالی ویتنامی تھے۔ واشنگٹن میں تعمیر کئے گئے ویتنام میموریل پر ان 57ہزار 939امریکی فوجیوں کے نام کھدے ہیں جو اس جنگ میں کام آئے۔ 2003ء میں عراق پر حملے کا آغاز ہوا تو پہلے3برسوں میں مرنے والے عراقی شہریوں کی تعداد بعض اندازوں کے مطابق 6لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ یہ 8سال،8ماہ اور 28دن کا حساب زیست و مرگ ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگ 16ویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ طویل ترین خوں آشام قضیہ 117ارب امریکی ڈالر کھاچکا ہے جبکہ صرف گزشتہ برس امریکی ٹیکس ادا کرنے والوں نے 4کروڑ80لاکھ ڈالر افغانستان میں امریکی فوجیوں کو اسلحہ پہنچانے پر ادا کئے ہیں۔
صرف مارچ 2017ء سے اب تک افغانستان کے حکومتی اداروں اور ترقی پر 32.3ارب ڈالر صرف ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس 11ہزار 418افغان شہری اس جنگ کا ایندھن بنے جبکہ اب تک 2400امریکی کام آچکے ہیں۔ 2روز قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان پر اپنی حکمت عملی واضح کی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ویتنام، عراق اور افغانستان میں ہونے والی جنگوں اور ان کے نتائج کا مطالعہ نہیں کیا۔ تقریباً ہر جگہ امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ افغانستان نے سوویت اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ خاموشی سے وہاں سے نہ نکلے تو ؟ ہر کمالے رازوال! اگر نسل انسانی کا نہیں تو ٹرمپ، افغانستان کے کوہساروں میں پلنے والے ننھے نیولوں ، رنگ برنگی تتلیوں ، جنگلی پھولوں اور وحشی جانوروں کا ہی خیال کرلیں۔

شیئر: