یوم النحر، احکام ومسائل اور وضاحتیں
یوم النحر کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے رمی جمار، اس کے بعد قربانی پھر بال کٹوانااور اس کے بعد طواف افاضہ کرنا، احناف کے مطابق یہ ترتیب واجب ہے
مولانا حبیب الرحمن۔ جدہ
میدان عرفات میں شام ہوگئی ہے اور سورج غروب ہوچکا ۔ اب اللہ کے رسول نے یہاں سے میدان مزدلفہ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا( مسلم) آپ بھی اسی طرح روانہ ہو ں اورراستہ میں تلبیہ، استغفار اور دعائیں کثرت سے کریں۔ راستہ میںنماز مغرب کاوقت ہوگیا ہے لیکن نماز عرفات اور نہ ہی راستہ میں ادا کریں، یہاں کا یہی حکم ہے۔
مزدلفہ پہنچ کر مزدلفہ کے میدان میں عشاء کے وقت پہلے مغرب اس کے بعد عشاء کی نماز پڑھنا واجب ہے۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان سنت یا نفل نمازیں نہ پڑھیں نہ اذکار کریں۔ یہ دونوں نمازیںمیدان مزدلفہ میں سوائے وادی بطن محشر کے کہیں بھی وقوف کیا جاسکتا ہے۔ افضل مقام مشعر الحرام یا جبل قزح کا دامن ہے۔
امام مسلم نے سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے میدان مزدلفہ میں رات کیسے بسر فرمائی۔آپ نے میدان مزدلفہ پہنچ کر پہلے نماز مغرب اس کے فوراً بعد نماز عشاء ایک اذان اور2 اقامتوں سے ادا کیں اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز یا تسبیح بھی نہیں کی۔
نمازوں کے بعد آپ لیٹ گئے اور آرام فرمایا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی۔ آپؐ نے نماز فجر ادا کی، اس وقت تک صبح ہوگئی تھی۔ پھر آپنے سواری طلب کی اور مقام مشعر الحرام پر آگئے ،پھرآ پ قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ دعائیں ، تکبیر و تحلیل کرتے رہے ، یہاں تک کہ طلوع ِشمس سے قبل پیلی روشنی اچھی طرح پھیل گئی ۔ اب آپ نے وقوف ختم کیا اور میدان منیٰ کی طرف روانگی کا قصد کیا۔
آپ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہورہے ہیں اور سورج طلوع ہونے والا ہے۔ جب وادیٔ محشر آئی تو سواری تیز کردی۔ آپنے وہ درمیانی راستہ اختیار کیا جو جمرۃ الکبریٰ یا عقبہ کی طرف لے جاتاج ہے۔ اس طرح آپ جمرۃ العقبہ پر آگئے۔ ( مسلم)۔
یہاں آکر آپ نے تلبیہ پڑھنا بند کردیا( بخاری)۔
یوم النحریعنی10 ذوالحجہ کوچند ضروری امور سرانجام دینے ہیں جیسا کہ رسول اکرمنے ادا کئے۔
1۔ رمی جمار: جمرۃ العقبہ پر آپنے تکبیر پڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے7 کنکریاں ماریں(مسلم)۔
2۔ تکبیر تشریق: اس رمی کے بعد رسول اللہ نے تکبیر تشریق کے کلمات پڑھنا شروع کردیئے ( بخاری)۔
تکبیر تشریق کے کلمات یہ ہیں:
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد (فقہ السنہ )۔
" اللہ بہت ہی بڑا ہے، اللہ بہت ہی بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت ہی بڑا ہے، اللہ بہت ہی بڑا ہے اللہ بہت ہی بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہیں تمام تعریفیں اور شکر۔
3۔ ذبح: جانوروں کی قربانی کریں۔ قربانی حدودِ حرم کے اندر کہیں بھی کریں، خود جانور ذبح کریں یا اپنی نیابت میں کسی بااعتماد شخص یا ادارہ سے کرائیں، جائز ہے۔اس دن رسول اکرم نے رمی جمرۃ العقبہ کے بعد 100 اونٹوں کی قربانی کی جو سیدنا علی ؓ ملک یمن سے لائے تھے۔ ان میںسے 67 آپ نے خود او رباقی 33 سیدنا علیؓ نے آپکی طرف سے ذبح کئے۔
4 ۔حلق یا قصر(بال منڈوائیں یا ترشوائیں) قربانی کے بعد آپاور صحابہ کرام ؓ نے بال منڈوائے ۔ بعض صحابہ کرامؓ نے بال چھوٹے کرائے۔
امام بخاری نے روایت کیا کہ رسول اکرم نے اپنے مبارک سر کے سارے بال منڈوا دیئے(فتح الباری شرح صحیح البخاری )۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اس موقع پر رسول اکرم نے یہ دعا فرمائی " اے ہمارے رب! بال مونڈھنے والوں پر رحم فرمائے۔ "صحابہؓ نے عرض کیا کہ بال چھوٹے کرانے والوں کیلئے بھی دعا فرمائیے۔ آپنے فرمایا" اے اللہ ! بال مونڈھنے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : بال چھوٹے کرنے والوں کیلئے بھی تو اب آپ نے فرمایا "بال چھوٹے کرنے والوں پر بھی رحم فرما"۔
اس کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے رمی جمارکریں گے، اس کے بعد قربانی پھر بال کٹوانا اس کے بعد طواف افاضہ کرنا۔ احناف کے مطابق یہ ترتیب واجب ہے۔ اگر کسی شرعی عذر یا یا بھول سے ترتیب میں فرق آیا تو معافی ہے۔ کوئی فدیہ نہ ہوگا جیسا کہ صحیح احادیث میں ملتا ہے۔
اب یہاں آکر احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں سوائے جماع کے تقاضے جو طواف افاضہ مکمل کرنے تک حرام رہیں گے لہذا احرام کا لباس اتارا جاسکتا ہے۔ اب غسل کریں، اپنا روز مرہ کالباس زیب تن کریں،خوشبو وغیرہ لگائیں۔
5۔ یوم النحرکا پانچواں عمل، طواف زیارت:
طوافِ بیت اللہ جسے طواف افاضہ یا طواف زیارت بھی کہتے ہیں، یہ حج کا دوسرا رکن اور تیسرا فرض ہے، ادا کرنا ہے، اس کے ادا کرنے کا وہی طریقہ ہے جو عمرہ کے طواف کا ہے۔
رسول اکرم 10 ذوالحجہ ظہر سے قبل منیٰ سے مکہ تشریف لائے اور آپنے طواف افاضہ ادا کیا، اس کے بعد نماز ظہر (مسجد حرام میں) ادا کی (مسلم )۔
جن حضرات نے ابتداء میںحج کی سعی نہ کی ہو وہ اسے اب ادا کریں جو طریقہ عمرہ کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے۔
طواف افاضہ اور سعی کے بعد منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر بلا تاخیر واپس بلاتاخیر آجائیں،بلا عذرِ شرعی میدان منیٰ کا قیام ترک کرنا گناہ ہے۔
منیٰ میںقیام کی تاریخیں 12,11 اور ممکن ہو تو 13 ذوالحجہ ہیں۔
ان ایام میں رمی جمار کرنی ہے، بخاری و احمد میں رسول اکرم کے رمی جمار کرنے کا طریقہ اس طرح بیان کیا گیا ہے : رسول اکرم جمرۃ الاولیٰ پر تشریف لائے اور آپنے تکبیر پڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے7 کنکریاں ماریں۔ اس کے بعد قدرے بائیں جانب ہٹ کر آپنے قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھاکر دعا کی اور طویل وقوف کیا۔ اس کے بعد آپجمرۃ الوسطیٰ تشریف لے گئے اور وہاں تکبیر پڑھتے ہوئے 7 کنکریاں یکے بعد دیگرے ماریں۔ اس کے بعد آپ قدرے بائیں طرف ہٹ کر قبلہ رخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہے،پھر آپ جمرۃ العقبہ (یعنی بڑی یا آخری علامت پر) آئے اور آپنے تکبیر پڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے7 کنکریاں ماریں۔ آپنے وہاں کھڑے ہوکر دعا یا وقوف نہیںکیا اور واپس پلٹ آئے( بخاری و احمد)۔
رمی جمار کے بعد 12 ذوالحجہ کو میدان منیٰ سے روانگی ہوسکتے ہیں۔ اگر یہاں مغرب ہوگئی تورک جائیں اور آخری دن 13 ذوالحجہ کی رمی کرکے روانہ ہوں۔
ر سول اللہ نے منیٰ میں 13 ذوالحجہ تک قیام کیا لیکن آپنے اجازت دے دی کہ جو 12 ذوالحجہ کی رمی کرکے جانا چاہے چلا جائے۔ منیٰ سے واپسی پر وادیٔ محصب میں ٹھہریں اگرچہ ایک لحظہ ہی ہو،یہ سنت ہے۔
طواف وادع جسے طواف صدر یا طوافِ رخصتی بھی کہتے ہیں،یہ آفاقی حاجیوں کیلئے حج کا نواں واجب ہے۔حج کے تمام اعمال کرکے 12 یا 13 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ آجائیں ۔ اپنے وطن، شہر واپسی سے قبل ایک طواف، وداع کی نیت سے ادا کرلیں۔
چندوضاحتیں:
*طوافِ زیارت یا افاضہ (جو حج کا فرض ہے) کے بعد اگر نفل طواف ادا کر لیا تو وہ طواف وداع کے قائمقام ہوجائے گا اس لئے کہ طواف کی نیت میں اس کی نوع کا تعین شرط نہیں ۔
*حالت حیض و نفاس میں خاتون سے طواف وداع معاف ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حدیث النبیہے لیکن مکہ مکرمہ کی آبادی سے نکلنے سے قبل طہارت ہوجائے اور حرم آسکے تو طوافِ وداع ادا کرنا واجب ہوگا۔
بفضل تعالیٰ حج اور عمرہ کے ادا کرنے کا مختصر طریقہ مکمل ہوا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قبول فرمائے ، آمین۔