Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی: سانولوں کی اشیاء بھی برائے فروخت

 
بیگمات کی پامال شدہ جوتیاں عام بیویوں کےلئے فٹ پاتھ کے کنارے سجائی گئی ہیں
عنبرین فیض احمد۔کراچی
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے ملک کا طبقاتی نظام ہی ہماری زبوں حالی کا باعث ہے ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے جہاں انسانوں کو مختلف طبقات میں بانٹ دیا ہے ، وہیں انسانی معاشرت میں طبقاتی نظام کو مستحکم کر دیا ہے جس کی بنا پر انسان مختلف گروہوں میں بٹ کر رہ جاتے ہیں ان میں نچلا طبقہ، متوسط طبقہ، اعلیٰ طبقہ، امیر و غریب، نوکر اعلیٰ، افسر بالا اور نجانے کیا کیا۔ اس تفریق کی وجہ سے بعض انسانوں میں تکبر اور غرور کا عنصر پایاجاتا ہے حالانکہ کسی کو کسی دوسرے پر فوقیت نہیں، سب انسان برابر ہیں۔
امیر اور غریب کسی بھی معاشرے کے دو ایسے طبقات ہوتے ہیں جو ملک کے سماجی اور معاشی مسائل کا سبب بنتے ہیںمگر ہماری بد قسمتی سمجھ لیں کہ اس امیری اور غریبی کے فرق کی بنیادی وجہ نظام تعلیم، طبقاتی نصاب اور تعلیم کی زبوں حالی ہی دکھائی دیتی ہے ۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب نگاہ کریں تو وہاں امارت و غربت کے فرق کو ختم کرنے کے لئے مثالی معاشی نظام قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا سماجی نظام بھی اس طرز پر استوار کیا ہے کہ ہر شہری کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بہتر سے بہتر طور پر حاصل ہو سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم و صحت ایسی دو بنیادی سہولتیں ہیں جنہیں دنیا کا ہر ملک ریاستی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور اسی لئے یہ سہولتیں حکومت کی جانب سے عوام کو فراہم کی جاتی ہیںمگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میںتعلیم تو دور کی بات، پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عوام کو تعلیم فراہم کرنے کی اہمیت پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ہمیں طبقاتی نظام وراثت میں ملا۔ گزشتہ 7دہائیوں میں اس فرق کو ختم کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق بڑھتا ہے چلا گیا۔ انجام کار ملک میں جہالت کا دورددورہ ہی رہا اور جیسا کہ بڑوں کا کہنا ہے کہ جہالت ، غربت کی ماں ہوتی ہے۔ اب لوگوں کے مناسب تعلیم ہے اور نہ کوئی ہنر۔ملک میں بیروزگاری عام ہو رہی ہے ، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے ہاں سے غربت کو ختم کرنے کے لئے جہالت کا قلع قمع کرتے ہیں۔ جہالت کے خاتمے کے لئے یکساں نصابِ تعلیم ، یکساں معیار تعلیم فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے وطن میں مختلف قسم کے طبقاتی نظام تعلیم رائج ہیںاسی لئے لوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو کر رہ گئے۔نہ صرف نظام تعلیم بلکہ ہر شعبے میں طبقاتی تفریق بلکہ ہر شعبے میں اس کا عمل دخل محسوس ہوتا ہے جس سے معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایسے میں تعلیم ہی ایسا عمل ہے جس کے ذریعے باشعور نسل تیار ہوتی ہے ۔ اس لئے جیسا ملک کا معیار تعلیم ہوگا، ویسے ہی نوجوان پروان چڑھیں گے ۔ اسی لئے ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے تعلیم ہر ہی زور دیتی ہیں چنانچہ تعلیم میں بگاڑ کی صورت میں دیگر شعبہ ہائے زندگی انتہائی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی نظام تعلیم میں اصلاح کر کے ہر ایک کے لئے یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ضروری ہے تاکہ ہمارا معاشرہ بھی طبقاتی کشمکش سے آزاد ہو سکے۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ اسلام آباد کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خریداری تو ضرورت کے تحت کی جاتی ہے ۔ اسلام آباد میں لنڈابازار ایسی جگہ ہے جہاں درآمد کی گئی اشیاءآدھی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیںاور استعمال شدہ مال سستے داموں مل جاتا ہے۔ یہ بازار ہفتے میں 3یا4دن کے لئے لگتا ہے ۔ عام طور پر اسے ”لنڈابازار“ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ یہ نام سنتے ہی پرانی یا استعمال شدہ اشیاءکا خیال ذہن میں آتا ہے اور وہ بھی خاص کر جوتوں اور گرم کپڑوں کا ۔ ایسے میں کیا کہا جائے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں میں عام بازاروں سے خریداری کرنے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے چنانچہ لوگ مجبور ہو کر ان بازاروں کا رُخ کر تے ہیں اسی لئے ان بازاروں کے خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالات کی مناسبت سے اشیائے ضروری کے ساتھ ساتھ گھریلو آزائش و زیبائش، کھلونے، کاسمیٹکس اور الیکٹرانکس وغیرہ نے بھی ان بازاروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے چنانچہ لوگوں نے ان بازاروں کو عوامی بازاربھی کہنا شروع کر دیا ہے ۔
لنڈابازار غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کا بہت بڑا سہارا ہوتا ہے ۔ یہاں اشیاءسستی مل جاتی ہیں ورنہ ملک میں مہنگائی کا تو یہ عالم ہے کہ چیزوں کی قیمتیں سن کر گاہکوں پر گویا کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کے عفریت نے لنڈا بازار کو بھی نہیں بخشا۔ اب ان پرانی اشیاءکے سستے بازاروں میں بھی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔یہ غریبوں کا بازار بھی اب غریبوں کی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ منہ زور مہنگائی کی وجہ ہی ہے کہ ماضی میں لنڈا بازار جوصرف ایک وقت کی روٹی کھانے والے غریبوں کا خریداری مرکز ہوا کرتا تھا اب وہاںکھاتے پیتے لوگ بھی منہ چھپائی خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ لنڈابازارچونکہ انگریزوں کی وراثت شمارہوتا ہے اس لئے ماضی میںیہاں گوروں کی استعمال شدہ ولایتی اشیاءہی فروخت ہوتی تھیں مگر اب یہاں سانولوں کی استعمال شدہ دیسی اشیاءبھی فروخت کے لئے پیش کی جانے لگی ہیں۔ اس کا ثبوت زیر نظر شہر اقتدار اسلام آباد کی تصویرہے جس میں امراءو وزراءکی بیگمات کی پامال شدہ جوتیاں عام بیویوں کے پیروں کی زینت بنانے کے لئے فٹ پاتھ کے کنارے سجاکر رکھ دی گئی ہیں۔ کیا یہ غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں؟
نجانے ہمارے ملک میں یہ طبقاتی تفریق کا نظام کب تک چلے گا۔ کب تک غریب پرانی اشیاءخریدتے اور نئی اشیاءکو ترستے رہیں گے۔ وہ اس قابل کب ہو سکیں گے کہ اپنی پسند کی نئی اشیاءخرید سکیں۔ اس ملک اور اس کے عوام کو انہی لوگوں نے اس نہج تک پہنچایا ہے جو خود کو اس ملک کاکرتا دھرتا اور گاہے” اسٹیک ہولڈر“سمجھتے ہیں۔ جو ملکی خزانہ لوٹ رہے ہیں اور بیرون ملک اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے۔ ہر نعمت موجود ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں ہونے والی پیداوار کہاں جاتی ہے ، ہمیں سالہا سال سے قرضوں سے نجات نہیں مل سکی۔ کبھی ہم آئی ایم ا یف سے مانگتے ہیں اور کبھی عالمی بینک کے آگے جھولی پھیلاتے ہیں۔ وہ ہمیں قرض دیتے ہیں جو نجانے کہاں چلے جاتے ہیں۔ یہ قرضے کم از کم عوام کی بہبود کے لئے خرچ نہیں ہوتے کیونکہ شہروں اور دیہات کا حال تو ہمارے سامنے ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے شہروں کا حال جو 70برس پہلے قیام پاکستان کے وقت تھا، آج بھی ویسا ہی ہے بلکہ کہیں کہیں تو اس سے بھی برا ہے۔
ہمارے ملک میں امراءکو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آلو اور چاول وغیرہ کس بھاوفروخت ہو رہے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ذمہ داران غرباءکے مفت علاج کے لئے بیرون ملک سے امداد وصول کرتے ہیںاور بعد ازاں اس امداد سے ذاتی میڈیکل کمپلیکس تعمیر کروا لیتے ہیں۔ ان میں صرف امراءکا علاج کیا جاتا ہے اور یوں کروڑوں روپے اپنے بینک اکاونٹ میں جمع کر لئے جاتے ہیں۔نجانے یہ امیر اور غریب کا تفاوت کب تک جاری رہے گا۔ اس سے غریبوں کے دلوں میں نفرت، حسد اور ایسے ہی منفی جذبات بھی پروان چڑھتے ہیں۔
آج وقت آ چکا ہے کہ عوام ہوش کے ناخن لیں۔ اس امر کو یقینی بنایاجائے کہ عوام کی محنت سے کمائی ہوئی دولت بااختیار بدعنوانوں کی جیب میں نہ جائے۔ عوام کی دولت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہی صرف کی جائے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، ملک میں تبدیلی نہیں آ سکے گی اور عوام یونہی امیروں اور ولایتیوں کے استعمال شدہ ملبوسات اور جوتیاںدوبارہ استعمال کے لئے چھانٹتے اورفروخت کرتے دکھائی دیتے رہیں گے ۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکے گی جب تک عوام اپنے حق کے لئے آواز بلند نہیں کریں گے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: