تم میں سے جب کوئی شخص مناسکِ حج پورے کرلے تو اسے جلد اپنے گھر لوٹ جانا
محمد منیر قمر۔ الخبر
حرمین شریفین روئے زمین پر 2 ایسے مقامات ہیں کہ جہاں رہتے ہوئے کسی مسلمان کا کبھی بھی جی نہیں بھرتا کیونکہ وہاں قلب ونظر کی آبیاری اور روح وایمان کی بالیدگی کے سامان موجود ہیں۔ ایک حرم مکی میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اور دوسرے حرمِ مدنی میں ایک نماز کاثواب صحیح حدیث کی رو سے ایک ہزار نماز سے زیادہ ہے لہٰذا حج سے پہلے یا بعد میں زیارتِ مدینہ طیبہ سے فارغ ہو کر زیادہ سے زیادہ وقت مکہ مکرمہ میں صرف کرنا اجروثواب میں زیادتی کا باعث ہے کیونکہ حرم مکی میں پڑھی گئی ایک نماز کا ثواب حرم مدنی سے100گنا زیادہ ہے مگر بعض حجاجِ کرام مکہ مکرمہ میں کم رہیں یا زیادہ مدینہ طیبہ میں کم از کم 8 دن رُکنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ مسجدِ نبوی میں40 نمازیں پوری کرسکیں۔ مدینہ طیبہ میں8 دن قیام کرکے 40 نمازیں مسجدِ نبوی میں ادا کرنے کو اتنا ضروری سمجھا جاتاہے کہ شاید وہ حج کا ایک لازمی جز ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حرمین شریفین میں جتنا بھی رکا جائے سعادت ہے، جتنی فرصت اور گنجائش ہو وہاں اتنا وقت گزارا جاسکتاہے لیکن حرمِ نبوی میں8 دن کا قیام اور مسجدِ نبوی میں 40 نمازوں کاالتزام حج کاحصہ ہرگز نہیں البتہ مسنداحمد اور طبرانی اوسط کی ایک روایت سے اتنا پتہ چلتاہے کہ مسجدِ نبوی میں بلا انقطاع، مسلسل 40 نمازیں پڑھنے والے کی جہنم اور نفاق سے برأت اور عذاب سے نجات ہوجاتی ہے۔غالباً اِسی روایت کے پیش نظر اکثر حجاج مدینہ شریف میں8 دن قیام کرنے پر مصر ہوتے ہیں۔ اولاً: یہ روایت ہی صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے (سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی )
یہاں یہ بھی ذکر کردیں کہ بعض اہل علم نے اس روایت کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیاہے کہ جس سے اس روایت کے قوی ہونے کا شبہ ہوتاہے۔ مثلاً علامہ ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس روا یت کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، مسجد حرام کے ایک فاضل مدرس شیخ المعصومی نے المشاہدات المعصومیہ میں اس کی توقیر کی ہے۔ امام منذریؒ نے الترغیب میں اس کی تصحیح کی ہے اور دور حاضر کے معروف عالم سید سابق نے فقہ السنہ میں اسے امام احمد وطبرانی کی طرف منسوب کرکے اس کی سند کو صحیح کہا ہے لیکن یہ تسامحات ہیں کیونکہ اس روایت کا ایک راوی نبیط بن عمرو ہے جس سے امام بخاری ومسلم حتیٰ کہ اصحاب سنن نے کوئی روایت نقل نہیں کی۔ اس راوی کو امام ابن حبان کا ثقہ قرار دینا بھی ان کے معروف اصول ’’توثیق المجہولین‘‘ کے تحت ہے جسے دیگر محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔ پھر کسی محدث کا کسی حدیث کے بارے میں ’’رجالہ ثقات‘‘ یا ’’رجالہ رجال الصحیح‘‘ کہہ دینا بھی اس کے صحیح السند ہونے کیلئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ رواہ کے ثقہ اور صحیح کے رواہ ہونے کے باوجود اس کی سند میں انقطاع اور ارسال کا خدشہ باقی رہتاہے۔ ثانیاً: اگرعلیٰ وجہ التنزل مشار الیہ حدیث کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی اس سے یہ مفہوم تو ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ یہ 8 روزہ قیامِ مدینہ فرض یا واجب ہے اورنہ ہی اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ حج کا کوئی رکن یا حصہ ہے لہٰذا جیسا بھی موقع ملے اور جتنی کچھ گنجائش نکلے اسی کے مطابق اس قیام کو کم وبیش کیا جاسکتاہے اور اس سے حج پربھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ثالثاً:رہا معاملہ جہنم کے عذاب اور نفاق سے برأت حاصل کرنے کے جذبہ کا تو یہ عین اسلامی ہے اور ہر مسلمان میں ہر جگہ رہتے ہوئے ہونا چاہئے اور اس کا حصول اس مشار الیہ حدیث سے بدرجہاقوی حدیث کی رُو سے عام حالات میں حتیٰ کہ اپنے وطن اور گھرمیں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف میں مرفوعاً اور موقوفاً مروی ہے’’جس نے40 دن تمام نمازیں باجماعت تکبیراُولیٰ کے وقت مل کر ادا کیں اس کیلئے 2چیزوں نارِجہنم اور نفاق سے برأت لکھ دی جاتی ہے‘‘اس حدیث کے متعدد طرق ذکر کرنے کے بعد محدثِ عصر علامہ البانیؒ نے لکھاہے ’’مذکورہ طُرق میں سے اگرچہ انفرادی طور پر ہر طریق میں ہی (ضعف کی) کوئی نہ کوئی علت وسبب موجود ہے مگر یہ مجموعی طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘‘ بعض لوگ جب 40 نمازیں باجماعت ادا کرنے کے دوران کسی وجہ سے کبھی کسی نماز کی جماعت سے رہ جائیں تو یہ بات ان کیلئے سوہانِ روح بن جاتی ہے اور اس پریشانی وتشویش کو دور کرنے کیلئے اب اگر وہ نئے سرے سے 40 نمازیں پوری کرنا چاہیں تو وقت نہیں ہوتا لہٰذا ان کی ذہنی کوفت باقی ہی رہتی ہے حالانکہ سابقہ تفصیل کے پیش نظر اس تشویش کی ضرورت نہیں بلکہ جتنی نمازیں پڑھ سکیں انہیں غنیمت سمجھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں مگر اتنی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ 40 کایہ عدد صحیح احادیث سے وہاں کیلئے ثابت ہی نہیں ،نہ یہ حج کارکن یا حصہ ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ اور فقہاء ومحدثین کرام میں سے کسی نے وہاں40 نمازیں پوری کرنے کو فرض یا واجب کہاہے۔ عوامی حلقوں میں یہ تاثر عام پایاجاتاہے کہ جو شخص دورانِ حج، تجارت یاکوئی مزدوری کرے اس کاحج ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے بارے میں عجیب وغریب باتیں بنائیں جاتی ہیں حتیٰ کہ اس کی نیت پر شک کیا جاتاہے کہ یہ گیاہی کمائی کرنے کیلئے تھا لہٰذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس سلسلہ میں بھی شریعتِ اسلامیہ کا حکم واضح کردیا جائے کہ یہ جائز ہے یا ممنوع؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے قرآن کریم کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جائز قرار دیاہے جیسا کہ مناسکِ حج بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’(اگرحج کے ساتھ ساتھ) تم اپنے رب کا فضل (رزق) بھی تلاش کرتے جائو تو اس میںکوئی مضائقہ نہیں‘‘(البقرہ198)
اس آیت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں لوگوں نے موسم حج میں تجارت ومزدوری کو اصل اور مستقل مقصود بنالیا ہوا تھا۔ منیٰ میں بازار لگتے، نمائشیں قائم ہوتیں اور مارکیٹنگ کی گرما گرمی ہوتی تھی۔ اسلام نے جب حج میں ملائی ہوئی جاہلانہ رسوم کو مٹایا تو صحابہ کرامؓ نے سوچا کہ شاید تجارت ومزدوری بھی کلیۃً ممنوع ہوگئی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ شروع میں لوگ حج کے دوران منیٰ وعرفات میں لگنے والے بازاروں (عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز) میں خریدوفروخت کرتے تھے پھر وہ احرام کی حالت میں خرید وفروخت کرنے سے ڈر گئے (کہ کہیں یہ گناہ نہ ہو) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔علامہ ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر کے تحت اس حدیث کے علاوہ حضرات ِعمر فاروقؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابن عباسؓ کی بعض دیگر تفسیری روایات بھی ذکر کی ہیں جو ابن جریر، مسند احمد اور مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے ہیں جن سے دوران حج تجارت ومزدوری کے جائز ہونے کا پتہ چلتاہے۔
جوازِ تجارت پرسورہ حج کی آیت38 سے بھی استدلال کیا جاسکتاہے جس میںارشاد ہے’’تاکہ وہ فائدے دیکھیں جوان کیلئے (یہاں رکھے) ہیں‘‘معروف مصری فاضل سید سابق نے بھی فقہ السنہ میں مذکورہ سابقہ حدیث کے علاوہ ابوداؤد، بیہقی، دارقطنی اور سنن سعید بن منصور کی احادیث نقل کی ہیں جو جواز پر دلالت کرتی ہیںجبکہ بذل المجہود شرح ابی دائود (مولانا خلیل احمد سہارن پوری) کے حواشی میں امام ابن قدامہ سے نقل کرتے ہوئے معروف حنفی عالم اور مصنف ’’تبلیغی نصاب‘‘ مولانا محمد زکریا سہارن پوریؒ نے لکھاہے ’’اس پر امتِ اسلامیہ کا اجماع ہے کہ حج کے دوران کسبِ معاش کیلئے صنعت وتجارت یا مزدوری کرلینے میں کوئی حرج نہیں‘‘ اب رہا اپنے اہل وعیال اور اعزاء واقارب کیلئے ہدئیے اور تحائف خرید کر لانے کا معاملہ تو جہاں تجارت و مزدوری جائز ہے وہاں یہ کیونکر ناجائز ہوں گے لیکن سوچنا یہ چاہئے کہ سرزمینِ حجاز اور حرمین شریفین کے اصل تحائف اور مقدس ہدئیے کیاہیں؟ آپ کپڑوں اور گھڑیوں وغیرہ کے تحفے خریدیں یامصلّے(جانماز) اور تسبیحات، یہ سب چیزیں تو غیر ملکی مصنوعات ہیں جنہیں تاجر حضرات لاتے، منگواتے اور بیچتے ہیں اور دل کے خوش کرنے کو اتنا ضرور ہوجاتاہے کہ ہم یہ تحائف مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ سے لائے ہیں۔ یہ اشیاء بھی لائیں تو ساتھ ہی 2تحائف لانا ہرگز نہ بھولیں اور وافر مقدارمیں لائیں جوانمول تحائف اور مقدس ہدئیے ہیں اور نبی اکرم کے پسندیدہ بھی ہیں جن میں سے ایک مکہ مکرمہ سے اور دوسرامدینہ منورہ سے عام ملتاہے۔
مکہ مکرمہ سے ملنے والا مقدس ہدیہ تو آبِ زمزم ہے جبکہ مدینہ منورہ کامقدس ہدیہ، گراں مایہ تحفہ ’’عجوہ‘‘ نامی کھجور ہے جس کے بارے میں صحیح بخاری ومسلم میں ارشادِ نبوی ہے’’جس نے صبح کے وقت عجوہ کھجور کے 7 دانے کھالئے، اسے اس دن زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچاسکتے‘‘اور مسلم شریف میں ارشادِ نبوی ہے’’عوالی مدینہ کی عجوہ کھجور میں شفاء ہے اور اس کا علی الصباح کھانا زہر کا تریاق ہے‘‘جبکہ ترمذی ونسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے’’عجوہ جنت سے ہے اور یہ زہر کیلئے شفاء ہے‘‘علامہ ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب زادالمعاد کے باب الطب النبوی میں لکھاہے کہ ’’عجوہ‘‘ سے مراد مدینہ منورہ کی عجوہ کھجورہے جوحجازی کھجوروں میں سے سب سے عمدہ اور مفید ترین ہے اور پھر آگے چل کر اس کے فوائد بھی ذکر کئے ہیں۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ حرمین شریفین میں قیام سے تو کبھی بھی جی نہیں بھرتا لیکن نبی کے بعض ارشادات سے پتہ چلتاہے کہ حج وعمرہ کے مناسک مکمل ہوجانے کے بعد اپنے گھروں کو جلد لوٹ جانا مستحب ہے جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں ایک عام ہدایت پرمشتمل ارشادِ نبوی ہے’’سفر بھی عذاب کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ تمہیں (وقت پر اورمناسبِ حال) کھانے پینے سے روکتاہے لہٰذا تم میں سے جب کوئی شخص اپناکام پورا کرلے تو جلد اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ آئے ‘‘اورسنن دار قطنی میں تو خاص حج کے بارے میں بھی ارشادِ نبوی ہے’’تم میں سے جب کوئی شخص مناسکِ حج پورے کرلے تو اسے جلد اپنے گھر لوٹ جانا چاہئے، اس کیلئے یہی زیادہ اجر کا باعث ہے‘‘جبکہ صحیح بخاری ومسلم میں جلد واپس لوٹ جانے کے بارے میں دنوں کی تعیین و حد بندی بھی ثابت ہے چنانچہ ارشادِ نبوی ہے’’مہاجر (باہر سے آنے والا آفاقی حاجی) مناسکِ حج مکمل کرلینے کے بعد صرف 3 دن قیام کرے‘‘
ان تینوں احادیث سے اہلِ علم نے مناسکِ حج کی ادائیگی کے بعد جلد واپس وطن لوٹ جانے کے استحباب کی دلیل اخذ کی ہے لیکن اگر کوئی3 دن سے زیادہ رکتاہے تو منع بھی نہیں۔ اگر آپ حج سے پہلے ہی مدینہ طیبہ کی زیارت سے فارغ ہوگئے تھے اور مکہ مکرمہ سے ہی واپس وطن لوٹ رہے ہیں تو ’’طوافِ وداع‘‘ کے آداب کو اختیار کریں اور روانہ ہوجائیں اور اگر حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ آئے تھے تو یہاں مسجدِ نبوی سے بھی الٹے پائوں نکلنا مشروع وثابت نہیں بلکہ حسبِ معمول سیدھے ہی نکل آئیں اور جب مسجد سے باہر اپنا بایاں پائوں پہلے رکھیں تو صحیح مسلم، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں مذکور یہ دعاء پڑھیں’’اے اللہ! میں تیرے فضل وکرم کا طلب گار ہوں‘‘اور مدینہ طیبہ سے نکلتے وقت کس راستے سے نکلناہے؟ اس کا کوئی ذکر وارد نہیں ہوا، اپنے مناسبِ حال کسی بھی راستے سے نکلیں اور واپسی کے وقت سفر اور سواری کی دعائیں کریں ۔ راستے میں قیام، شہروں کو دیکھنے اور دیگر مواقع کی دعائیں کرتے آئیں۔ جب اپنا شہر نظر آجائے تو صحیح بخاری ومسلم اور مسنداحمد میں مذکوریہ دعا کریں’’ہم تو تائب ہوکر سجدہ وعبادت گزاری کا عہد کرکے لوٹ آئے ہیں اور اپنے رب کی تعریفیں کرتے ہیں‘‘جب اپنے شہر، قصبہ یا گائوں پہنچیں تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی مسجد میں جائیں اور 2رکعت نماز ادا کریں کیونکہ ابودائود میں مذکور ایک حدیث کی رُو سے یہ سنتِ رسول ہے۔ پھرجب اپنے گھر آئیں تو گھر میں داخل ہوتے ہی ابودائود میں مذکور یہ دعاء کریں’’اے اللہ! میں تجھ سے داخل ہونے اورنکلنے کی جگہوں کی بھلائی کاسوال کرتاہوں، تیرا نام لے کر ہم یہاں سے نکلے تھے اور اے ہمارے معبود وپروردگار !تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے‘‘