Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ خاکستر بستی کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہی تھی

 
اس نے کہا کہ جب تک مصیبت نہ آجائے، ہم دنیا میں آنے کا مقصد بھلائے رکھتے ہیں
 زینت شکیل۔جدہ
وہ بلک بلک کر رو رہی تھی، وہ صبر کی تلقین کر رہا تھا۔وہ تڑپ کر کہنے لگی ”کیا دنیا میں کوئی ہمارا نہیں کہ اس مصیبت کے وقت 
ہماری آواز پر لبیک کہے ؟“ وہ تسلی دلاتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ کیوں نہیں،بالکل ہیں۔ وہ لوگ ہماری مدد کے لئے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ وہ اسکے آنسو پوچھتے ہوئے کہہ رہا تھا،”دودنوں سے تم نے کھانا نہیں کھایا، لو پانی پی لو،اس نے ثابت گندم کے چند دانے اس کے سامنے کئے اور کہا کہ ہمارا خالق، کسی مخلوق کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔
وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک کہہ اٹھی کہ دیکھو تو سہی ،ہمارے جسم سے روح کا رشتہ جوڑے رکھنے کے لئے صرف ایک مٹھی اناج اور چند گھونٹ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یاسیت سے اپنی گزری زندگی کو سوچتے ہوئے بولی کہ جب تک ہم پر کوئی اجتماعی بڑی مصیبت نہ آجائے، ہم اپنے اس دنیا میں آنے کا مقصد ہی بھلائے رکھتے ہیں۔اس دنیا کی رعنائی ہمیں ایسے اپنے شکنجے میں لئے رکھتی ہے کہ ہم اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ہمیں ہوش اس وقت آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجا تا ہے۔ اس سے پہلے ہم خواب خرگوش جیسی بے خبری میں رہتے ہیں۔
وہ جل کرخاکستر ہونے والی اپنی بستی کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہی تھی اور اس سے پوچھ رہی تھی کہ اسے پیاس تو نہیں لگی ہو گی ناں؟
وہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسواپنی ہتھیلی کی پشت سے پونچھتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ وہ بہت اچھی جگہ پر چلا گیا ہے۔ وہ گزرے منظر کو نگاہوں کے سامنے محسوس کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہمارا پانچ سالہ بچہ اچانک لگنے والی آگ کے شعلوں میں گھرے لوگوں کی آہ وفغاں سن کر کیسے اس ظلم وبربریت کی وحشت ناک آواز سے بلبلا کر رونے لگا اور اچانک اس کی آواز بند ہوگئی ۔وہ ہم لوگوں سے بہت دور چلا گیا۔
اس کے سامنے اپنے بچے کے علاوہ بستی کے کئی خاندانوں کے افراد کا جھلسا ہوا ،دم توڑتا ہوا منظر نظروں کے سامنے آموجود ہوا اور کچھ روشنی گاڑیوں کی نظر آئی تو بول اٹھا کہ دیکھو ہماری مدد کو ہمارے دینی بھائی آپہنچے ہیں۔کوئی کتنا بھی دنیاداری میں لگ جائے، اپنوں کا درد دور رہ کر بھی محسوس کر سکتا ہے کیونکہ ہم ایک قوم ،ایک جسم کے مانند ہیں۔ جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اسکا درد محسوس کرتا ہے۔
کلمہ گو اپنے دینی بھائیوں کی مدد کو پہنچے تو وہ اپنے ہمدردوں کو اپنی آپ بیتی سنانے لگے کہ ہم تو صدیوں سے یہاں رہتے آئے ہیں۔ اب نئی بات ہمیں بتائی گئی ہے کہ ہم صدیوںکے بعد یہاں کے شہری نہیں رہے۔ اپنے ہی ملک میں ہمیں ”مہاجر“ بنا دیا گیا ہے ۔بچ جانے والے لٹے پٹے خاندانوں کا قافلہ آج یہاں پہنچا تھا۔دنیا بھر کے ذرائع ا بلاغ، سرحد پار سے آنے والوں کے لئے اپنی سی کوشش میں مصروف تھے کہ کسی نے بڑی حکمت کی بات کہی کہ ہمارا کوئی عمل خالصتاً مالک حقیقی کے لئے ہوتا ہے تو فوراً قبولیت کے درجے کو جا پہنچتا ہے ۔ 
 اس دنیا کو حاصل کرنے کے لئے جو اپنی قوت، صلاحیت اور ذہانت صرف کرتے ہیں اس کا صرف اتنا ہی حصہ ہمیں ملتا ہے جو ہماری قسمت میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی زندگی میں زیادہ اہم کام کی طرف متوجہ رہنا چاہئے ۔ 
جاننا چاہئے کہ ذہانت کا امتحان ہر لمحہ ہوتا ہے کیونکہ جسم دماغ کے حکم پر عمل کرتا ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: