Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبدالرحمان باباکی شاعری میں توقیر انسانیت کا درس

 آج بھی کوئی پختون ایسا نہیں ملے گا جسے باباکا کوئی شعر یاد نہ ہو
منظورالحق۔سابق سفیر پاکستان
پشتو زبان میںبڑے بڑے شعراءپیدا ہوئے ہیں لیکن جواحترام اور مقبولیت عبد الرحمان بابا کو ملی وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ یہ شیریںگفتار شاعر 300سال پہلے ہو گزر ے ہیں لیکن آج بھی کوئی پختون ایسا نہیں ملے گا جسے رحمان باباکا کوئی شعر یاد نہ ہو۔ اُن کے اشعار ضرب الامثال اور محاوروں کے طو ر پراستعمال ہوتے ہیں۔علماءاپنے خطبوں میں با با کے اشعار سناتے ہیں اور سامعین اُن کو بہت عقیدت سے سنتے ہیں۔اُن کی شاعری میں اخلاقیات، انسانیت اور حکمت کی باتیں ہیں۔ عشق حقیقی او ر پندو نصائح اُن کی شاعری کے اہم موضوعا ت ہیںجو عام فہم اور سادہ زبان میں بیان کئے گئے ہیں۔اگر چہ عبدالرحمان بابا عمر بھر اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلے تھے لیکن اُن کی شاعری نہ مقامی ہے نہ علاقائی بلکہ آفاقی ہے اور جب وہ آفاقی پیغام دیتے ہیں تو توقیرِ آدم اور احترام انسانیت اُن کی شاعری کے خاص موضوع بن جاتے ہیں۔وہ انسان کواتنی قدر و منزلت دیتے ہیں جتنا کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کی اس حسین و جمیل تخلیق کو دی ہے۔اُنہوں نے قلب انسان کو عرش تک رسائی دی ہے اوردلوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔ان کے ایک شعر کا ترجمہ ہے :
” مقدس مقام دل میں ہوتا ہے اس لئے جتنا کر سکتے ہو دلوں کی خدمت کیاکرو۔“
عبدالرحمان بابا کے نزدیک بنی نوع انسان ایک جسم کی طرح ہیں۔اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد سے تڑپ اُٹھتا ہے۔ اس لئے اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو تکلیف دیتا ہے تو وہ دراصل اُس جسم کو تکلیف دے رہا ہوتا ہے جس کا وہ خود ایک حصہ ہے لہٰذا تکلیف اُسے بھی پہنچتی ہے۔اسی طرح انہوں نے دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنے کی اس حد تک تلقین کی ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بُرائی کرتا ہے توتم پھر بھی اُس کے ساتھ نیکی کرو۔اس لئے کہ اَچھے لوگ وہ ہیں جو برائی کا جواب اچھائی سے دیں۔ایک اور شعر میں اُنہوں نے ایک خوبصورت مثال کشتی کی دی ہے جو دوسروں کا بار اُٹھاتی ہے اور خود بھی طوفان سے محفوظ رہتی ہے۔اشعارکاترجمہ ملاحظہ کیجیے:
٭٭بنی آدم ایک جسم کی طرح ہیں اگر ایک شخص کسی دوسرے کو دکھ دے گا تو خود بھی دُکھ اُٹھائے گا۔
٭٭اگر کوئی تمہارے ساتھ برائی کرے تو تم اس کے ساتھ اچھائی کرو دیکھو کہ ہر پھلدار درخت پر پتھر پھینکے جاتے ہیں لیکن وہ پتھر کھاکر بھی پھل دیتا ہے۔
٭٭وہ دل طوفان سے امان پائے گا جو کشتی کی طرح دوسروںکا بوجھ اُٹھاتا ہے اور اُنہیں دریا پار کراتا ہے۔
اسلامی تعلیم مبارکہ ہے کہ دوسرے انسان کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔یہی پند بابا نے یوں بیان کی ہے:
٭٭جس طرح تمہیں اپنی جان عزیز ہے، اسی طرح دوسرے کی جان کو بھی عزیز سمجھو۔ سب انسان برابر ہیں اور اُن کا دکھ دردبھی ایک ہے۔
احترام انسانیت اور عظمت ِآدم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کوکم تر نہ سمجھے اور سب انسانوں کو برابر تصور کرے۔ تب وہ دوسرے انسان کی عزت کریگا اور اُسے فیض پہنچائے گا۔ اسی تناظر میںپشتو کے اس عظیم شاعر نے کہا ہے:
٭٭اگر تم ہر ایک کو حقارت کی نظر سے دیکھوگے تو تمہاری اپنی وقعت کم ہو جائیگی اور مٹی میں مل جاﺅ گے۔
باباانتہائی سادہ اور عا م فہم زبان میں وزن کے معیار سیر اور پاﺅ جوآج کل گرام اور کلو گرام ہو چکے ہیں، ان کا استعارہ استعمال کرکے ایک انسان کے دوسرے کے لئے حقارت کے اظہار پر نا پسندیدگی ظاہر کرتے ہیں:
٭٭دوسرے کو پاﺅ سمجھنے والے کیا تم خود سیر ہو؟حقیقت میں تُوخود آدھ پاﺅ ہے اور دوسرا پور ا ایک سیر ہے۔
بابا کے نزد یک سیم و زر اور مال و دولت کسی شخص کو انسانی خوبیوں سے مالا مال نہیں کر سکتے۔اچھاانسان بننے کے لئے دولت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔یہ ایسے ہے جیسے کوئی بت انسان نہیںبن سکتا خواہ وہ سونے کا ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح ہم نے ایک شخص کی انسانیت کو دیکھنا ہے نہ کہ اُس کے قیمتی لباس کو۔ بابا نے کہا ہے کہ:
٭٭انسان بننے کے لئے دولت کی ضرورت نہیں پڑتی جیسے بت اگر سونے کا بنا ہو تب بھی انسان نہیںہو سکتا۔
٭٭انسان کی پہچان اچھے اخلاق ہیں نہ کہ اُس کا پیرہن خواہ وہ سونے کا ہی کیوں نہ ہو۔
عبد الرحمان بابا خطیب کو نصیحت کرتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس پر قابو پا لو پھر دوسروں کو نصیحت کرو:
٭٭اے نصیحت کرنے والے تم اپنے نفس کوقدموں تلے روند ڈالو تب نا صح بنو۔
بابا نے یہ کہہ کر بہت بڑا درس دیا ہے کہ جو شخص خوش اخلاق ہو اُ س کی عزت اور احترام کرو:
٭٭اُس شخص کے قدموں میں گِر جاﺅ جو اچھے اخلاق اور خصلت کا مالک ہو۔
عبد الرحمان بابا کے نزدیک انسان وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور اچھے اخلاق کا مطلب احترام انسانیت اور توقیر آدم ہے جس کا درس دے کربا با نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ و ارفع مقام پر پہنچایا ہے۔ ہمیں آج کے دور کے عدم برداشت اور متشددرویوں کی روک تھام کے لئے ایسے ہی محبت کرنے والے انسانیت دوست شعراءاور مفکرین کے خیالات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: