Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

پرانے دور کی کہانی ہے جب ایک حکمران ہوتا اور اس کی چلا کرتی تھی
* * *وسعت اللہ خان* * *
باقی دنیا میں دوا ساز کمپنیاں پہلے وزارتِ صحت یا متعلقہ اتھارٹی سے اجازت لیتی ہیں اور پھر دواؤں کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کرتی ہیں۔کسی دور میں ہمارے ہاں بھی یہی روایت تھی مگر ظاہر ہے کہ اب وہ زمانے نہیں رہے۔یہ بھاری پتھر دوا ساز کمپنیاں خود ہی اٹھا لیتی ہیں اور ہر سال ،2سال بعد لائف سیونگ ڈرگز سمیت ہر دوا کے نرخ میں 10 سے 15فیصد اضافہ کردیا جاتا ہے۔وزارتِ صحت کو بھی ہماری طرح اخبار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہو گیا ہے اور وہ ہوگیا ہے، تو ہونے کو کون ٹال سکتا ہے۔
چند دن حسب ِ روایت عوامی حلقے شور مچاتے ہیں ، پریس ریلیزوں پر زندہ سیاستداں مذمت کرتے ہیں ، دوا ساز کمپنیوں کے ترجمان خام مال کی مہنگائی کا رونا روتے ہوئے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دواؤں کی سستائی ثابت کرنے والے جدول اور چارٹ دکھاتے ہیں۔یوں سب کے سب دواؤں کی قیمتوں میں اگلے یکطرفہ اضافے تک ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ مگر بات دوا کے مہنگے سستے ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ جن دواؤں کا اسٹاک قیمت بڑھانے سے پہلے ہی سے بازار میں پڑا ہے کیا اسے پرانے ریٹ پر ہی رہنے دیا جائے گا یا بازار سے اٹھوا کر نئی قیمت کا ٹھپہ لگا کر پھر لایا جائیگا۔
اس سوال کا100 فیصد جواب ہے کہ ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ثبوت یہ ہے کہ جن دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ان کی قلت پیدا جاتی ہے۔جوں جوں اضافی قیمت کے ٹھپے لگتے جاتے ہیں توں توں وہ بازار میں دستیاب ہوتی چلی جاتی ہے۔ میری بلا سے سردرد کی پیٹنٹ گولی 10روپے کی آئے کہ 100کی۔مجھے تو کوئی بس یہ بتا دے کہ کیا10 روپے کی گولی 20 روپے کی ہونے کے بعد خالص ملے گی ؟ یہ سوال یوں آ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں جعلی دواؤں کا تناسب 40 سے 50 فیصد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔
چند بڑے شہر چھوڑ کے قصبات اور دیہات 2نمبر بلکہ 3 نمبر دواؤں کی سلطنت ہیں،ورنہ جگہ جگہ کاہے کو سننا پڑے کہ بس فلاں میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدنا اور کہیں سے مت لینا۔ میرا مسئلہ دواؤں کی قیمت آسمان چھونے سے زیادہ یہ ہے کہ مہنگی ہونے کے بعد کیا اسپتالوں کو ایکسپائرڈ دواؤں کی سپلائی کم ہو جائیگی۔ہوسکتا ہے دوا ساز کمپنیاں کہیں کہ ہم تو صرف دوائیں بناتے ہیں۔یہ ذمہ داری تو ہول سیلرز کی ہے کہ وہ ایکسپائرڈ یا نان ایکسپائرڈ کا خیال رکھیں اور ہول سیلرز یہ کہیں گے کہ کمپنیاں ہم سے ایکسپائرڈ دوائیں واپس نہیں لیتیں تو ہم کیا کریں ؟ میں نے منوں ٹنوں منشیات تلف ہونے یا سیکڑوں لٹر شراب سے بھری بوتلیں بلڈوزروں سے کچلے جانے کی تصاویر تو بے شمار دیکھی ہیں لیکن آج تک حسرت ہی رہی کہ کوئی دوا ساز کمپنی ، کوئی ہول سیلر ، کوئی محکمہ صحت ، کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یہ شائع تصویر بھی دکھا دے کہ ایکسپائرڈ دواؤں کے ذخیرے کو برسرِ عام تلف کیا جارہا ہے۔
تو پھر یہ سب کہاں جاتی ہیں ؟ کیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کسی دوا ساز کمپنی کو طے شدہ میکنزم سے انحراف پر سزا دے سکتی ہے ؟ شاید سزا کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس ڈھانچے کو کتنی مرتبہ زحمت دی گئی۔ مان لیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بالا بالا دواؤں کی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن خود اتھارٹی کی منظوری سے بھی جو قیمت بڑھتی ہے اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے ؟ میں سن81 کے عشرے کے آخری برسوں کے ایک وزیرِ صحت سے واقف ہوں جو ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافہ کروانے کے چند دن بعد ملک سے ایسے چمپت ہوئے کہ زندگی میں واپس نہ لوٹے۔اُس زمانے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ 10 کروڑ روپے جس وزیر کو یکمشت ہاتھ آجائیں اُسے پاکستان میں رہنے کی ضرورت ہی کیا۔
تو پچھلے 70 برس میں کیا اپنی نوعیت کا یہ ایک ہی کیس ہوا ہوگا ؟ چلئے گولی ماریں سردرد کی گولی بنانے والے گولی بازوں کو۔اس پاکستان میں کتنے کاروباری ہیں جو منافع کا موقع سامنے ہو اور وہ اس پر شبخون نہ ماریں ؟ کیا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے بعد 20گھنٹے کیلئے پٹرول پمپ بند نہیں ہوتے ؟ کیا پرانے پٹرولیم ، ڈیزل اور گیس اسٹاک کو پرانی قیمت پر ہی خالی کیا جاتا ہے ؟ رمضان میں کیا ہوتا ہے ؟ کون کون مسلمان کاروباری روزے کے ثواب کو روزی کی چاندی سے نہیں بدلتا اور آخری 10 روز میں عمرے کی فلائٹ نہیں پکڑتا ؟ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں بچا مزید سوچنے لکھنے کے علاوہ ، ہزار بار سنی درجِ ذیل پھٹیچر کہانی کہ: ’’ حاکم کے لشکر نے ایک گاؤں کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔خیمے تن گئے۔
گوشت چولہوں پے چڑھ گیا۔ حاکم نے اپنے کارندے کو دوڑایا کہ گاؤں سے نمک خرید لاؤ۔کسی لال بھجکڑ درباری نے پوچھا: حضور نمک جیسی حقیر شے خریدنے کی کیا ضرورت۔گاؤں والے ویسے ہی ڈلے کے ڈلے لے آئیں گے۔آخر کو آپ انکے حاکم اور وہ رعایا ہیں۔ حاکم نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا: اگر میں نے نمک جیسی بے قیمت شے بھی مفت حاصل کرنے کی اجازت دیدی تو اسے مثال سمجھ کے میرا لشکر پورے گاؤں کو مفت کا مال سمجھ کر اجاڑ ڈالے گا۔‘‘ مگر یہ پرانے دور کی کہانی ہے جب ایک حکمران ہوتا اور اس کی چلا کرتی تھی۔اب تو اوپر سے نیچے تک صدر سے نائب قاصد تک ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ایک ریاست اور بزعمِ خود قانون ہے۔گویا جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ان حالات میں دواؤں کا طالب مریض ہو ، کہ سستی کھاد کا منتظر کسان ، کہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے والا بے روزگار ، کہ اپنی تنخواہ میں ہی گزارہ کرنے والا صابر و سادہ پوش۔ان سب کے لئے ایک ہی پیغام ہے:
*جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔

شیئر: