Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے …

نااتفاقی و انتشار ، باہمی اختلاف و نزاع ، ایک دوسرے کے ساتھ بغض وحسد تباہی و بربادی، ذلت ورسوائی اور شکست و ناکامی کا سبب بنتی ہیں
* * * *اللہ بخش فریدی۔فیصل آباد* * *
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر آج ہم جس قدر افتراق وانتشار کا شکار ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ بقائے معاشرہ کیلئے ہمیں ایک مرکز پر اکٹھے ہوناہوگا ،اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنا ہوگی ورنہ یہ عظیم غلطی ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’خدا انسان کو معاف کر دیتا ہے ، انسان انسان کو معاف کر دیتا ہے مگر انسان کی غلطی انسان کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔‘‘اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت۔ جب تک ہم لا مرکزیت کا شکار رہیں گے زمانہ کبھی ہمارے حال پرترس نہیں کھائے گااور جب چاہے گا ہمیںاچک لے جائے گا اور صفحہ ہستی سے مٹا دیگا۔ قرآن مجید میں کئی جگہوں پر باہمی تعاون و اتحاد ، اخوت ، ہمدردی و مساوات کی پر زور تاکید کی گئی ہے اور باہمی تنازعہ اور تفرقہ بازی سے بچنے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے ۔ ’’اور سب کے سب مل کر اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران 103) ۔ ’’اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول کی اطاعت کرواورآپس میں مت جھگڑو(اختلاف مت کرو) ورنہ تم ہمت ہار جائو گے اور بز دلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی (باہمی اتحاد و یکجہتی کی طاقت ) جاتی رہے گی اور صبر کرو ، بیشک اللہ صبر کرنے والو ں کے ساتھ ہے۔‘‘(الانفال 46)۔
10ہجری کاواقعہ ہے کہ حضور نبی کریم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نجران کے ایک معزز قبیلے بنو حارث کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد نبوی کی تعمیل کرتے ہوئے اُن کے ہاں پہنچے اور انہیں اسلام کی دعوت دی جو ان لوگوںنے فوراً قبول کرلی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن کے اسلام لانے کی اطلاع حضور نبی کریم کو لکھ بھیجی ۔ آپ اس اطلاع پر بہت خوش ہوئے اور ہدایت فرمائی کہ اُن کا ایک وفد ساتھ لے کر مدینہ آئیں، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کا ایک وفد لے کر مدینہ پہنچے ۔ وفد کے شرکاء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اقرار کیا اور آپ کی نبوت کی صداقت کی گواہی دی ۔ یہ لوگ بہت بہادر تھے اور ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آنے کی شہرت رکھتے تھے۔ حضور اقدس نے اِن سے پوچھاکہ تم کس وجہ سے اپنے دشمن پر غالب آتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم ہمیشہ اس لیے دشمن پر غالب آتے ہیں کہ ہم آپس میں متفق رہتے ہیں ، اختلاف نہیں کرتے، باہم لڑتے جھگڑتے نہیں، ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے اور سختی اور مصیبت کے وقت صبرکرتے ہیں۔‘‘آپ نے فرمایا۔ ’’سچ کہتے ہو۔‘‘ جی ہاں!یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ آپس میں متحد رہنے والے ، باہمی اختلاف اور جھگڑوں سے بچنے والے ، ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ رکھنے والے اور مصائب و مشکلات کے وقت صبرو استقامت کا مظاہر ہ کرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آتے ہیں ، فتح ایسے ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے، عزت و سربلندی کا تاج ایسے ہی لوگوں کے سر پر رہتاہے ، کامیابیاں و کامرانیاں ایسے ہی لوگوںکی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں ، ہمیشہ سر اٹھا کر جینے والوں کی علامات اور نشانیاں یہی ہیں ۔ یہ قوت بخش خوبیاں جہاںپائی جاتی ہیں کامیابیاںچل کر وہاں پہنچتی ہیں اوران کے قدم چومتی ہیں خواہ مشرق ہو یا مغرب ۔
جو قوم ان صفات کواپنے اندر پیدا کر لیتی ہے یہ اس کیلئے عزت ووقار ، عظمت و سربلندی اور ترقی و عروج کا زینہ بن جاتی ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس کے بر عکس آپس کی نااتفاقی و انتشار ، باہمی اختلاف و نزاع ، ایک دوسرے کے ساتھ بغض وحسد اور مصیبت و آزمائش کے وقت بے صبری کا مظاہرہ وہ خامیاں ہیں جو تباہی و بربادی، ذلت ورسوائی اور شکست و ناکامی کا سبب بنتی ہیںخواہ وہ کسی قوم میں ہوں ۔ فردقائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں قرآن وحدیث میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہے اورتاریخ نے بھی بار ہا اس سبق کو نہایت جلی حروف میں لکھا ہے ۔ ابتدا میں جب مٹھی بھر مسلمانوں میں یہ صفات پائی جاتی تھیں تو انہوں نے نصف صدی کے اندر اندر آدھی دنیا کو اپنازیر نگیں بنا لیا۔ بیک وقت ایک طرف سندھ اور ہند کے دروازے پر دستک دینے لگے اوردوسری طرف سر زمین فارس وروم کو ڈھیر کرکے رکھ دیا اور تیسرے افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں سے گزر کر اندلس کی سرزمین ،ا سپین اور کو ہ پائر نیز کی چوٹیاں عبور کرکے فرانس تک جا پہنچے۔ یوں اسلامی معاشرہ میں ملکوں ملکوں کے باشندے، مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ اور مختلف نقطہ ہائے نگاہ کے حامل لوگ شامل ہوگئے مگر اس رنگا رنگ کے باوجود ملت اسلامیہ جسد واحد کی طرح متحد رہی ۔
’’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو ،ورنہ تمہیں ایسی قوم سے واسطہ پڑے گا جو موت کی اتنی ہی خواہش مند ہے جتنی کہ تم زندگی کی تمنا رکھتے ہو۔‘‘ یہ اُس خط کے الفاظ ہیں جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہرمز کو لکھا تھا۔ ہرمز کسریٰ کی طرف سے عراق کا گورنر تھا ۔ مٹھی بھر مسلمانوں نے دنیا کی ظالم و جابر سپر طاقت کو للکارا،چنانچہ ہرمز مسلمانوں کو اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے نکلاکہ ان ننگے ، بھوکے ، پیاسے مسلمانوں کی یہ جرأت کہ دنیا کی سپر طاقت کو اس طرح للکاریں اور اس کے سامنے سر اٹھائیں۔ہم انہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دیںگے اور ایسا سبق سکھائیں گے کہ دنیا یاد رکھے گی۔فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، مقابلہ ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا اور یاد رکھا وہ حشر مگر کس کا ؟ مٹھی بھر مسلمانوں کانہیں بلکہ اس عظیم سپر طاقت کا ۔
عراق ہی کی سرزمین پر لڑ ی جانے والی جنگ سلاسل ، جنگ نذار، جنگ بابل کے واقعات اور اس کے علاوہ دوسری جنگیں او ر غز وات مٹھی بھر مسلمانوں کی شجاعت و بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اپنی زبان حال سے مسلمانوں کی جرأت ، بہادری و عظمت کی داستان سنا رہی ہیں ۔ دور صدیقی میں عراق و شام کے کئی علاقے فتح ہوگئے، مسلمانوں کا رعب، دبدبہ چار سو پھیل گیا، مسلسل فتوحات مسلمانوں کے قدم چومنے لگیں۔ دورفاروقی آیا تو مسلمان اس عروج اور بلندی پر پہنچ گئے کہ اُس دور کی سپر طاقتیں فارس و روم مسلمانوں کے سامنے تھرتھر کاپنے لگیں اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا غرور و تکبر خاک میں مل گیا ،ظلم و ستم کادور مٹ گیا، جہالت وگمراہی کے بادل چھٹ گئے، جور جفا کی آندھیاں تھم گئیں اور دین حق کے پھیلنے سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بنی۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں شام ، مصر ، ایران ، عراق، جزیرہ، خوزستان، آرمینیا، آذر بائیجان، فارس، روم ، کرمان، خراسان، مکران اور کئی دوسرے علاقے فتح ہوکر سلطنت اسلامیہ میں داخل ہوئے، آخر یہ سب کس کا نتیجہ تھا؟باہمی اتحاد و یکجہتی کا۔یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں ہوائیں پورے عالم میں مسلمانوں کی فتوحات کی نوید سنایا کرتی تھیں ، سورج کی کرنیں مسلمانوں کے عدل و انصاف ، مساوات، رواداری اور عظمت و بزرگی کی گواہ بن کر چار سو پھیل جایا کرتی تھیں،دجلہ و فرات کاپانی مسلمانوں کی جرأت ، ہمت ، شجاعت اوردلیری و بہادری کے گن گایا کرتا تھا۔
مگر آج سورج کی کرنیں کیا دیکھ رہی ہیں ؟ ہوائیں کیاپیغام سنا رہی ہیں ؟وہی جو کبھی مسلمانوں کے جرنیل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دور کی عظیم سپر طاقت کو دیا تھا،مگر آج یہ پیغام کون کس کو دے رہا ہے؟ افسوس ! آج سب کچھ الٹ ہوگیا ۔جاگنے بلکہ جگانے والے سو گئے ،بہادر بزدل اور بزدل بہادر بن گئے۔دنیا کے مظلوموں کو ظالموں کے پنجوں آزاد کرانے والے آج خود ظالموں کے چنگل میں پھنس گئے۔دنیا پر حکومت کرنے والے آج محکوم بن گئے۔دنیاکو علم و حکمت کا درس دینے والے آج غیروں کی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جن کے ناموں سے کفار اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے آج ان کے بچوں کے دلوں میں کفار کی عظمت اور دبدبے کارعب بیٹھ گیا۔جوکبھی ایک بہن کی پکار پر تڑپ اٹھتے تھے آج انہوں نے کشمیر ، فلسطین ،روہنگیا ، بوسنیا، چیچنیا، کوسوو، صومالیہ ، افغانستان و عراق کی لاکھوں کروڑوں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کوکس کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے؟کون لاکھوں کروڑوں مظلوم مسلمان بچوں کے مستقبل اور ا ن کے حقوق کو پامال کر رہاہے ؟کس جرم کی سزا میں ان پر بم ، میزائل وغیرہ برسائے جا رہے ہیں ؟آخر ان کا قصور کیا ہے؟ان سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بچے ہیں ؟یا یہ کہ وہ انگریزی کی بجائے عربی اور دوسری زبانیں بولتے ہیں؟کوئی بتائے ان کا جرم، کوئی بتائے ان کا قصور؟ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کہاں ہیں ؟ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جب وہ مر جائیں توا ن کے کفن و دفن کے نام پر ساری دنیا سے چندہ اکٹھا کیاجائے؟عالمی امن وسلامتی کے دعویدار اب کہاں ہیں؟کوئی ہے جو ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائے؟ کوئی ہے جو ظالم کا ہاتھ روکے؟کوئی ہے جو ان معصوم مسلمان بچوں کو دلاسا دے، حق کی آواز بلند کرے؟کوئی ہے مظلوم مائوں ، بہنوں، بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہنے والا؟کیاانسانیت دم توڑ چکی ہے؟کیا اخوت ، ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات مٹ چکے ہیں؟ مسلمانوں کی غیرت کہاں ہے؟ کیادنیا کے چوتھائی ( سوا ارب سے زائد) مسلمانوں کی غیرت دم توڑ چکی ہے؟ کیا اب کوئی مظلوموں کی داد رسی کرنے کیلئے ایوبی، ابن قاسم ، غزنوی ، طارق و خالد بن کر نہیں آئے گا؟ مغرب سے آنے والی ہوائیں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں اور طرح طرح کے طعنے دیتی ہیں۔
سورج کی کرنیں ہم پر ہنستی ہیں ،مغرب سے اٹھنے والے بادل ہمارا تمسخر کرتے ہیں ۔ابھی حال ہی میں عراق وار کے دوران ڈیوڈ نامی ایک یہودی کا بیا ن شائع ہوا جس نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ :’’ تمہارے 57اسلامی ممالک کے حکمران ہماری ڈکٹیشن پر اپنے ملکی و غیر ملکی مفادات کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔اگر وہ ہماری حکم عدولی کریں تو سانسوںکے بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں یعنی موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں ۔ طاقتور میڈیا ہمارے کنٹرول میں ہے۔دنیا میں کہیں کوئی مسلم آواز فیصل ، قذافی ،بھٹو ،سوئیکارنو وغیرہ کی صورت میں یہودیت کیخلاف اٹھتی ہے تو ہمارے ذرائع ابلاغ اسے عوامی نظروں میں اتنا خونخوار کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے عوامی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔دنیا کی سپر پاور امریکی صدر کے داخلی اور خارجی فیصلے سینیٹ کے ا ن ارکان کے مرہون ِ منت ہیں جن کی اکثریت میری قوم (یہودیت ) سے تعلق رکھتی ہے ۔
تمہارے دانشور سچ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ ہماری لونڈی ہے۔اقوام متحدہ کے 10 اہم ترین اداروں کے اہم ترین عہدوں پر 73یہودی فائز ہیں ۔اقوام متحدہ کے نیویارک آفس میں 22شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں ۔یہ تمام شعبے حساس قسم کے ہیں جوبین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں ۔عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف کے 9ارکان اور ورلڈ بینک کے 6 اہم شعبوںکے سربراہ یہودی ہیں ۔جومسلم حکمران ہماری مرتب کردہ پالیسیاں اپنی عوام پر مسلط نہیں کرتے ہم اس کی معیشت کا تختہ دھڑن کر دیتے ہیں ۔ سنو! ہم صلیبی جنگ کا آغازکر چکے ہیں ۔ 1909ء میں یروشلم میں ہمارے صلیبی سپاہیوں نے مسجد عمر میں گھس کر تمہاری قوم ( مسلمانوں ) کا قتل عام کیا ۔
اس وقت دل ہلا دینے والے شور وغل میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ مسجد عمر کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا تمہارے 70ہزار سے زاید مسلمانوں کا خون بہا ۔ موجودہ قتل عام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ایریل شیرون کی موجودہ الیکشن میں کامیابی اسے جلا بخشے گی ۔اکتوبر 1918ء میں ہمارے جنرل گورو نے تمہاری قو م کے عظیم محسن صلاح الدین ایوبی کی قبر پر پاؤں کی ٹھوکر مارتے ہوئے کہا تھا کہ ’’لو صلاح الدین ! ہم یہاں تک پہنچ آئے ،ہم نے شام بھی فتح کرلیا تم کب تک سوئے رہو گے ؟‘‘ تمہارے کاسی کیس کی سماعت کے دوران ہمارے وکیل نے غلط ریمارکس نہیں دئیے تھے کہ پاکستانی پیسوں کی خاطر اپنی مائیں بیچ ڈالتے ہیں ۔ایمل کانسی کے سودے میں تمہارے ایک نامور سابق وزیر نے خوب ڈالر کمائے۔ کسی بھی مسلم ریاست سے ہم ایسے افراد کو جن سے ہمیں خطرہ ہو ،اغوا کرنے کیلئے ’’میر صادق اور میر جعفر ‘‘ تلاش کرتے ہیں۔
11 ستمبر کا حادثہ بھی ہمارے ایک ’’ ماسٹر مائنڈ ‘‘ کی اختراع تھی ۔ افغانستان کی دھرتی پر ایک اور عمر پیدا ہو چکا تھا جس نے 14سو سال پہلے کی خلافت راشدہ کے قیام کو عملی شکل دی تھی۔ فلسطین کی کسی مظلوم بیٹی کی آواز پر آج تمہارا کوئی صلاح الدین نہیں آئے گا ،حماس کی آواز پر کوئی طارق بن زید ’’ ہر ملک ملک ماست‘‘ کا نعرۂ رستا خیز نہیں کرے گا ،تم تعداد میں ایک عرب25 کروڑ ہونے کے باوجود سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن ہو ۔‘‘
قارئین کرام!آج اسلام دشمن یہو د ونصاریٰ و ہنود ، امریکہ اور اس کے حلیف مسلمانوں کے ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔افغانستان و عراق کے بعداب شام اور ایران کی باتیں ہو رہی ہیں ، لیکن عالم اسلام میں کہیں بھی اپنے بھائیوں کو بچانے ، ان کے سا تھ اظہار یکجہتی کرنے اور ان کے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی تدبیر اور فکر نظر نہیں آتی بلکہ اپنی بے غیرتی اور بز دلی کو جواز فراہم کرنے کیلئے ایسے موقعوں پر بھی اختلافات کی باتوں کو دہرایا جاتا ہے ۔حال ہی میں عراق کے مسئلہ کو لیں ۔ہمارے بز دل وزیر اعظم اور صدر کہنے لگے کہ عراق نے ہمارے مشکل وقت میں ہمارا کیا ساتھ دیا ہے کہ ہم اس کا ساتھ دیں ؟کسی نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔
اللہ عزوجل قیامت کے دن تمہیں اس نعرے کا جواب دے گا اور ظالموں سے دوستی کا مزہ چکھائے گا۔ ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے ایمان ہے اور ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ دیا جائے،ان کی سلامتی و بقاء ، آزادی و خود مختاری کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا جائے۔ کوئی کہنے لگا کہ یہ مصیبت صدام کی اپنی لائی ہوئی ہے ، صدام کے زوال یا موت پر کوئی آنکھ آنسو نہیں بہائے گی۔کسی نے کہا :اگر ہم پر کوئی مصیبت آئے تو عراق یاکوئی اور ہماری مدد کو نہیں آئے گا اس لئے ہمیں اپنے بچائو کی تدبیر کرنی ہے۔ ان بز دل ، عقل کے اندھوں کو یہ معلوم نہیں کہ ایسی باتیں کرکے وہ دشمن کے کام کو مزید آسان بنا رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ اور دنیا کی عظیم اسلامی طاقت کہلانے والوں نے جس بز دلی کا مظاہرہ کیا وہ کسی بیان کی محتاج نہیں ۔
شرم اور غیرت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہندجیسے اسلام کے بد ترین دشمن ملک نے عراق کے مسئلہ پر بالکل واضح پالیسی اختیار کی اورجنگ کی مخالفت کرتا رہا جبکہ پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہونے کے باوجود ابھی دیکھو اور انتظار کرو کی بز دلانہ پالیسی میں اٹکا رہا ۔ اس سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس غیرقانونی غاصبانہ جنگ کی مخالفت میں کھل کر دو بیان دیدے یا جنگ کی مخالفت کرنیوالے (فرانس، جرمنی، چین اور روس ) کے گروپ میں ہی شامل ہو جائے۔ اگر اسلام کا قلعہ ہی باطل کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر باقی وہاں کیا کرینگے حالانکہ انہوں نے سب کو حوصلہ دینا تھا اور سب کو ساتھ لیکر آگے بڑھنا تھا ۔اگر یہ کوئی مثبت قدم اٹھاتے تو یقینا پوری مسلم امہ ان کے پیچھے دوڑتی۔غیر مسلم یورپ کے لوگ عراق پہنچ کر جنگ کیخلاف ڈھال بنانے کی کوشش کرتے رہے جبکہ مسلم ممالک کے بز دل اور بے غیرت عوام چپ سادھے بیٹھے رہے کہ کہیں کوئی آفت نہ آجائے ۔ آفت تو اب تم پر قیامت کے دن تمہارے رب کی طرف سے پڑیگی اور تمہیں اس بے غیرتی اور بزدلی کا مزہ چکھائیگی۔
(جاری ہے)

شیئر: