پاکستانی اداکاروں کا ممبئی میں اور ہندوستانی اداکاروں کا کسی پاکستانی فلم میں کام کرنا کشیدگی کے بادلوں تلے معمول کی بات ہے
* * وسعت اللہ خان* *
65ء تک پاکستانی سینماؤں کی بیشتر آمدن ہندوستانی فلموں کی نمائش سے تھی۔مقامی فلمیں بھی بمبئی کلچر میں گندھی ہوئی تھیں کیونکہ تقسیم کے بعد بیشتر فلمی ٹیکنیشین ، ہدایت کار اور اداکار سرحد پار سے ہی لاہور اور کراچی پہنچے تھے چنانچہ ان سے یہ فوری توقع نامناسب تھی کہ راتوں رات ایک نئے ملک کی ابھرتی فلم انڈسٹری کو ایک نئی شناخت دیدیں گے۔ پھر 65 کی جنگ ہوئی اور نظریۂ پاکستان کو ’’ہندو ثقافتی یلغار’’ سے بچانے کی امنگ حب الوطنی کا سکہ رائج الوقت ٹھہری۔ ہندوستانی فلموں کی آمد پر روک لگ گئی۔
تب تک مقامی فلم انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی تھی اسی لئے60 اور 70 کی دہائی کو پاکستانی فلمی صنعت کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ سنہری دور بہت آگے اسلئے نہیں جا سکتا تھا کہ فلم سازوں کی اگلی نسل بھی پچھلوں کے اثرات کی زنجیر نہ توڑ پائی۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی طرح پاکستانی انڈسٹری بھی سپر ہیرو اور ہیروئن اور ایک ہی کہانی کو نت نئے ناموں سے فلمانے کے سوا کوئی متبادل تخلیقی خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں تھی۔تربیت اور بین الاقوامی فلمی دنیا سے کچھ سیکھنے کی نہ آرزو تھی نہ چلن۔الٹا سرحد کے دونوں پار کے فلم سازوں نے دو طرفہ سینما کے بارے میں عام تماشائیوں کی لاعلمی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ ہندوستانی فلم ساز معروف اور چلنتر پاکستانی فلمی و غزلیہ دھنیں اور پاکستانی شارٹ کٹ باز فلمسازہندوستانی اسکرپٹ چرانے میں لگے رہے ،مگر یہ دھندہ بھی بہت دن نہ چل پایا۔
اس پر ضیا الحق کا دور آگیا جس نے ٹی وی کو دوپٹہ اور فلم انڈسٹری کو ترپال اوڑھا دی۔محبت کی کہانی کو گنڈاسے نے وڈھ کے رکھدیا۔شہری ولن کو جیلر اور اسمگلر ٹائپ کرداروں نے مات دیدی۔انٹرٹینمنٹ ٹیکس اور فلمی لاگت بتدریج بڑھنے لگی،سنسر بورڈ باریش ہوگیا۔ فلمی دنیا کی نظریاتی نسبندی کا اثر یہ ہوا کہ خلیجی ممالک سے تارکینِ وطن کے ہمراہ آنے والے وی سی آر اور ہندوستانی فلم کے وڈیو کیسٹس نے متوازی گھریلو سینما گھروں کی بنیاد رکھ دی اور اخبارات میں اس طرح کی خبریں آنے لگیں کہ پتوکی میں10 افراد وی سی آر پر غیر قانونی فلمیں دیکھتے ہوئے پکڑے گئے۔پولیس نے وی سی آر اور فلمیں ضبط کرلیں ( شاید جرم کی تہہ تک ریوائنڈ کر کر کے پہنچنے کیلئے )۔ رنچھوڑ لائن میں غیر قانونی فلمیں دکھانے والے گڑھ پر چھاپہ کے دوران3 تماشائی دیواریں کود کر فرار ہوتے ہوئے ٹانگیں تڑوا بیٹھے وغیرہ وغیرہ،پولیس نے دفعہ فلاں فلاں ت پ کے تحت مقدمہ درج کرلیا،مگر ایوانِ صدر میں شترو گھن سنہا کی فلمیں چلنے پر پنڈی یا اسلام آباد کی پولیس کبھی حرکت میں نہیں آئی۔
سنہا فیملی کئی بار ضیا فیملی کی مہمان بھی بنی۔ مل ملا کے 80کے عشرے کے آخر تک پاکستانی فلم انڈسٹری کا انتم سنسکار( آخری رسومات )ہو گیا۔پرائم لوکیشنز کے سینما سپر مار کیٹیں اور شاپنگ پلازے بن گئے۔ممبئی سے جو تخلیقی و تکنیکی کھیپ آئی تھی یا تو بوڑھی ہوگئی ، یا دل برداشتہ گھر بیٹھ گئی ، یا جہان سے جانے لگی۔ ضیا ء دور کے خاتمے کے بعد سیاسی حکومتیں ایک کے بعد ایک بدلتی گئیں۔ایسی آپا دھاپی میں فلم انڈسٹری کے احیا کو کون گھاس ڈالتامگر یہ دنیا بڑی نرالی ہے۔ایک آمر ( ضیاء الحق ) کے دور میں فلم انڈسٹری کا گلا گھونٹا گیا تو دوسرے آمر ( پرویز مشرف ) کے دور میں اسی فلمی صنعت کے تنِ مردہ میں جان پڑنا شروع ہوئی۔سب سے پہلے نجی شعبے میں الیکٹرونک میڈیا کو پھلنے پھولنے کی اجازت ملی۔ 2سرکردہ میڈیا ہاؤسز ( اے آر وائی اور جیو ) فلم ساز ادارے بھی بن گئے۔
اور تو اور فوج کا محکمہ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر ) بھی ایک اہم فلمساز کے طور پر کود پڑا۔ مشرف دور میں انٹرٹینمنٹ ٹیکس میں بھی کمی آئی اور2007ء میں ہندوستانی فلموں کی امپورٹ کی باضابطہ اجازت بھی مل گئی چنانچہ پاکستان میں ملٹی پل اسکرینز کا رواج شروع ہوا اور فلم کی سرپرستی غریب طبقے سے مڈل کلاس کو منتقل ہونے لگی۔اسی سال شعیب منصور کی فلم ’’ خدا کیلئے ’’ کی کامیاب ریلیز ہوئی جو اعلان تھا کہ پاکستانی فلمی صنعت کا دوسرا جنم ہوچکا ہے۔ اس بیچ پڑھے لکھے نوجوان فلم میکروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو چکی تھی۔ انہوں نے نفع نقصان کے چکر سے نکل کر ماضی کے روایتی فلمی استادوں کی فارمولا انگلی پکڑے بغیر نیا سفر ، نئے تخلیقی قالین پر ، نئے میڈیم کی چھتری تلے شروع کیا۔ پچھلے9 برس میں یہ ہوا کہ ملٹی پلیکس اسکرینز کی تعداد صفر سے بڑھ سو کا ہندسہ چھونے لگی ہے۔
فلمسازی و اَداکاری کا میدان پوری طرح سے جوان نسل کے ہاتھوں میں ہے۔اس بیچ 2 فیچر فلمیں آسکر کیلئے شارٹ لسٹ ہوئیں ( ’’چزندہ بھاگ‘‘ اور’’ مور‘‘ )۔ آج 20سے زائد پاکستانی فلمیں زیرِ تکمیل ہیں۔پاکستانی اداکاروں کا ممبئی میں اور ہندوستانی اداکاروں کا کسی پاکستانی فلم میں کام کرنا کشیدگی کے بادلوں تلے معمول کی بات ہے۔ جدید پاکستانی ڈرامہ بھی نئی ہندوستانی نسل ویسے ہی دیکھتی ہے جس دلچسپی سے انکے والدین 70 اور80 کے عشروں میں پی ٹی وی ڈرامے کی اسمگل شدہ کیسٹ دیکھتے تھے۔ گزشتہ برس ہندوستانی پروڈکشن ہاؤس’’ زی انٹرٹینمنٹ‘‘ نے ’’ زیل فار یونٹی ’’ ( جذبۂ اتحاد ) پروجیکٹ کے تحت 6 ہندوستانی اور 6 پاکستانی فلمسازوں کو فیچر فلمیں بنانے کی دعوت دی اور اس منصوبے کو دوطرفہ کشیدگی کے باوجود خاصی کامیابی ملی۔ یہ مشترکہ فلم ساز منصوبہ ہند اور پاکستان کی آزادی کی 77ویں سالگرہ پر 12 فیچر فلموں کا دونوں ملکوں کے عوام کو تحفہ ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو ایک’’ انٹرٹینمنٹ سارک‘‘ ضرور وجود میں آجائیگی جو’’ کچھوا رفتار سیاسی سارک‘‘ کو بھی پیچھے کر سکتی ہے۔ ٹریک ون اور ٹو ڈپلومیسی کی جگہ انٹرٹینمنٹ ڈپلومیسی لے سکتی ہے۔دونوں ممالک میں شدت پسند تنظیمیں اپنا کام کرتی رہیں گی مگر تشدد کا مقابلہ اگر انٹرٹینمنٹ سے ہو تو کم ازکم پاک، ہند تعلقات کے تناظر میں انٹرٹینمنٹ زیادہ سخت جان ثابت ہوئی ہے۔