ٹرمپ کی نئی پالیسی، احتیاط کی ضرورت
امریکہ نے تو کبھی تعاون کی بات نہیں کی اور نہ تعاون کیا ہے بلکہ وہ تعمیل کی بات کر تا ہے اور اسی کا مطا لبہ کر تا ہے
سید شکیل احمد
امریکی نا ئب صدر مائیک پنس نے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے غیر ملکی مغویو ں کی بحفاظت بازیابی پر حکومت پاکستان ، پاک فوج، ایف سی ، آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ پا کستانی اداروں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ اس وقت دونوں ممالک کی جانب سے خوشگوار ماحول کی جانب قدم بڑھا نے کی ڈونڈی پیٹی جا رہی ہے ۔پاکستان کی جانب سے یہ تاثرعوام کو دیا جارہا ہے کہ پاکستان نے جنو بی ایشیا کے بارے میں صدر ٹرمپ کی پا لیسی پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے اُس میںاس کو کامیابی ملی ہے جبکہ امریکی عوام کو یہ تا ثر دیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے جنوبی ایشیا کی جس پا لیسی کا اعلان کیا تھا پا کستان کی جانب سے اس پر عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ پروٹوکول کے پیش نظر عموماً ًیہ ہو تا ہے کہ ہم منصب ہی ٹیلی فونک رابطہ کر تا ہے۔ چلو امریکی صدر کو ٹیوٹ سے فرصت نہ ملی تو ان کی جگہ نا ئب صدر ہی سہی ویسے ما ضی میں تو اس سے بھی نیچے درجے نے رابطہ کیا ہے ۔
خبر وں کے مطا بق امریکی نائب صدر مائیک پنس نے ٹیلی فونک پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ خطے میں امن واستحکا م کے لئے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا خواہا ں، مزید خواہا ں کی شرائط سے آگاہ نہیں کیا، غالباً اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کیو نکہ وہ جنو بی ایشیا کی پالیسی میں بیان کی جا چکی ہیں اور پاکستان نے بھی ان پر عمل کر دکھایا ہے کہ پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اس پا لیسی کے بارے میںکہہ دیا گیا تھا کہ امریکہ رہنمائی کر ے پاکستان قدم بڑھا ئے گا اور غیر ملکی جو ڑے کی بحفاظت بازیا بی اس کا عملی مظاہر ہ ثابت ہوا ۔
اس بارے میں وائٹ ہاﺅس سے جو بیا نیہ جا ری ہوا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ امریکی نائب صدر پنس نے پا کستان کا شکر یہ ادا کرتے ہو ئے توجہ دلائی ہے کہ یہ کا وش خطے میں دہشتگردی کےخلا ف امریکی حکمت عملی کو پا کستان کے جانب سے ملنے والی حمایت کے ضمن میں اہمیت کی حامل ہے ۔ گویا یہ اہمیت یا حما یت دراصل ایک آزمائش تھی۔ پنس کی طرف سے اس امرکی امید کا بھی اظہا ر کیا گیا کہ شدت پسندو ں کے خلا ف تعاون جا ری اور بر قرار رکھا جا ئیگا ، جیسا کہ گزشتہ ما ہ نیو یا رک میں ہو نے والی ملا قات میں بات ہو ئی تھی۔ وائٹ ہاﺅ س کے بیا نیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکی نائب صدرنے اس طریقہ کا ر کے بارے میں پھر گفتگو کی کہ پاکستان امریکہ اورخطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کس طر ح سے کا م کر سکتا ہے ، تاکہ جنوبی ایشیا میں استحکا م اور سیکیورٹی دیا جا سکے ۔
امریکہ اور پاکستان کے علا وہ دیگر ممالک سے امریکہ کی کیا مر اد ہے ، افغان قضیے کو حل کر نے میں5فریقی ممالک جن میں چین، روس، افغانستان ، پا کستان اور ایر ان شامل ہیں کاوشیں کر رہے ہیں مگر بات آگے نہیں بڑھ رہی کیو نکہ اس میں امریکہ کا عدم تعاون شامل ہے چنا نچہ امریکہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ تعاون کا ہا تھ دے ، البتہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے واشنگٹن تھینک ٹینک سینٹر فار اسٹراٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسڈیز سے خطا ب کر تے ہو ئے علا قے کے دیگر ممالک کی نشاند ہی کر دی ہے۔ انھو ں نے وہا ں فرمایا ہے کہ امریکہ ہند کے ساتھ دہشتگر دی کےخلا ف جنگ میں شانہ بشانہ کھڑ ا ہے ۔ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ ہند کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے ، انھوں نے چین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کی تقریر اس امر کی غما زی کر رہی ہے کہ نہ وہ بدلے ہیں اور نہ ان کی خُو بدلی ہے۔ جہا ں تک غیر ملکی جو ڑے کی بات ہے، اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کو ٹیلی فون کرنا محض ایک رسمی کا رروائی کے سوا کچھ نہیں ۔ اصل حقیقت اُس وقت کھلے گی جب امریکی نا ئب صدر اور وزیر خارجہ کے پا کستان کے دورے ہو ں گے ۔
امریکی پا لیسی کی وضاحت ایک اور امرسے بھی ہوتی ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک تھنک ٹینک مس کولیزا کرٹیس کو جنوبی ایشیا کےلئے امریکہ کے صدر کا مشیر خاص تعینا ت کر دیا ہے۔ اس طر ح ایک تو وہ امریکہ کے صدر سے براہ راست رابطے میں ہو گئی ہیں اور ان کاعہد ہ امریکہ کی نیشنل سیکیو رٹی کونسل میں جنوبی ووسطی ایشیا کے امور کے سینیئر ڈائریکڑ کاہے اوروہ صدر کی ڈپٹی اسسٹنٹ کے برابر ہو ں گئی ہیں۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے بارے میں وہ ایک بااختیار اور فیصلہ کن حامل شخصیت بن گئی ہیں ۔حال میں انکی ایک رپو رٹ شائع ہو ئی ہے جس میں ان کی پاکستان سے دشمنی واضح طور پرجھلک رہی ہے اور ہند کی جانب غیر مشروط جھکاو نظر آرہا ہے ۔لیز ا کی رپورٹ کو دیکھ کر اند ازہ ہو تا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں کیا کر دار اد ا کرے گا اورمفادات کے حصول کےلئے کیا اقداما ت کر ے گا چنانچہ امریکی نائب صدر کی جانب سے ٹیلیفونک رابطہ اور امریکی صدر کی جانب سے ٹیوٹ کئے جانے پر پاکستانی حکا م کو کسی غلط فہمی کاشکا ر نہیںہو جانا چاہیے کیونکہ اب جنوبی ایشیا اور خاص طورپر پاکستان ، افغانستان اور ہند کے بارے میں لیزا کو حمایت حاصل ہو گی ہے جس نے اپنی رپورٹ میں پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کو بریکیٹ کیا ہے ۔
جہا ں تک امریکہ کا دہشتگر دی میں ہند کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا دعویٰ ہے سمجھ سے باہر ہے ۔ہند کہا ں اور کس مقام پر دہشتگردی کےخلا ف قربانیا ںدے رہا ہے جبکہ پا کستان نے ہزارو ں کے قریب اپنے شہر ی اور فوجی جو انوں اور افسرو ں کی بیش قیمت جانوںکی قربانیاں دی ہیں جس کا امریکہ کے کسی صفحہ پر ذکر تک نہیں آتا ۔ امریکہ نے تو کبھی تعاون کی بات نہیں کی اور نہ تعاون کیا ہے بلکہ وہ تعمیل کی بات کر تا ہے اور اسی کا مطا لبہ کر تا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ ٹلر سن جو ہند کے دورے پر جارہے ہیں، انھوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ بے یقینی کی کیفیت اور خوف کے اس دور میں ہند کو عالمی اسٹیج پر ایک قابل اعتما د شرکت دار کی حیثیت حاصل ہے ۔
حیر ت ہے کہ ہند نے کب دہشتگردی کےخلاف جنگ لڑی ہے اور کب قربانیا ں پیش کی ہیں ۔کشمیر میں ہند جس طر ح انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے کیا وہ دہشت گردی میں شراکت کا پہلو ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر سبحان اللہ ہی کہا جا سکتا ہے تاہم ٹلر سن کی ہند روانگی سے پہلے کی تقریر بہت سے عوامل کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ پاکستان کےلئے بہتر ہے کہ وہ ہند کا پہلے دورہ کر رہے ہیں۔ اس طر ح جب ٹلر سن پاکستان آئیں گے تو اس سے ان کے مو ڈ کا بھی پتہ چل جائے گا اور پا کستانی حکام کو ان کی ہندوستانی یا تر ا کے پس منظر میں بات سمجھنے اور کرنے کا بھی مو قع ملے گا ۔
٭٭٭٭٭٭