Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریف فیملی میں کھلبلی؟

 (ن) لیگ کی حکومت کی ساکھ ختم ہوتی نظر آرہی ہے، نیّا ڈوب رہی ہے، کیسے بچے گی، اس کا علم غیب کو ہے
صلاح الدین حیدر
مثل مشہور ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آخر 6 مہینے بعد مریم نواز کو کیا اُفتاد پڑ گئی کہ وہ اپنے چچا شہباز شریف کے گھر جاکر طویل ملاقات کریں، خود اُن کے مطابق یہ محض رسمی ملاقات تھی، چچا کو سلام پیش کرنے اور چائے پینے گئی تھیں لیکن آخر اس کی ضرورت کیوں پڑی؟ جب نواز شریف کو واقعی خاندان کے اہم افراد کی حمایت اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی، اُس وقت تو شہباز شریف سامنے آئے نہ اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سب نے عین انتخاب کے دوران لندن یاترا کو ترجیح دی۔ کہنے کو تو یہ کلثوم نواز کی عیادت تھی لیکن بات کچھ سمجھ نہیں آتی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-120 کے انتخابات زیادہ اہم تھے یا لندن یاترا۔ کلثوم نواز (اﷲ اُنہیں صحت کاملہ عطا کرے، آمین۔ہماری بھی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں) کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ نواز شریف کا وہاں ہونا سمجھ آتا ہے، بیوی اگر بیمار ہو تو شوہر سے بڑھ کر اﷲ کے بعد دوسرا کوئی اور بڑا سہارا نہیں ہوتا۔ نوازشریف اگر الیکشن چھوڑ کر لندن اہلیہ کی تیمارداری کے لئے گئے تو مناسب بات ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔
لیکن اس بیچ میں کئی مہینوں سے مریم نوازنے تمام تر درد بھلا کر ضمنی انتخاب کی جیت پر ہی نظر مرکوز رکھی ہوئی تھیں، شاباش ہے، اُنہوں نے دلیری اور ہمت سے کام لیا۔ مریم نے جو کچھ کیا اُس پر اُنہیں مبارک باد، لیکن انتخابات کے دوران شریف خاندان میں تناﺅ کی خبریں متواتر گردش کرتی رہیں، کتنی صداقت تھی کتنی مبالغہ آرائی، یہ تو نہیں کہہ سکتا، لیکن انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ Where there is smoke there is fire ” دھویں کے نیچے چنگاری تو ہوتی ہی ہے۔“ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ تھی جس کا خاصا چرچا رہا۔ہر ٹیلی وژن پر مبصرین اس پر رائے زنی کرتے سنائی دیے۔ مریم کا چچا کے یہاں جانا، شہباز اور اُن کے صاحبزادے سے ملاقات اور پھر شہباز کی لمبی چوڑی جوشیلی تقریر نواز شریف کی حمایت میں، بغیر کسی وجہ کے تو نہیں تھی۔ 
مریم لندن سے واپس آگئیں۔ اُن کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر بھی وطن لوٹے۔دونوں نے احتساب عدالت کے سامنے حاضری دی لیکن وکلا کی دھما چوکڑی کی وجہ سے سب ڈر گئے کہ پہلے جیسا حملہ دوبارہ عدالت پر نہ ہوجائے۔ اُس وقت بھی نواز شریف کی پارٹی کے اہم عہدے دار بشمول وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اور معروف ٹی وی شو نیلام گھر کے میزبان ایم این اے طارق عزیز اور کئی دوسروں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ ایسا ہی کچھ سین اس بار بھی تھا جب جمعرات کو نواز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہونے آئے کیونکہ جج نے 19 اکتوبر تک تاریخ بڑھادی تھی۔شاید یہی پس منظر تھا جس پر گفتگو کرنے مریم صاحبہ چچا شہباز شریف کے گھر گئیں۔ ظاہر ہے گلے شکوے دُور ہوئے ہوں گے، جو شہباز شریف کے جوش خطابت اور ٹی وی انٹرویو سے لگ رہا تھا۔ ڈوبتی نیّا کو تو اکثر لوگ چھوڑ دیتے ہیں لیکن جہاں معاملہ اقتدار کا ہو وہاں تو کشتی کو بچانا ہی پڑتا ہے، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، یہی کچھ آج بھی لگ رہا ہے۔ اُن کی ملاقات محض رسمی نہیں تھی، خاندان کی عزت بچانا بھی مقصود تھا۔ گو مریم نواز نے خود بھی کہا کہ ملاقات کو کوئی اور رنگ نہ دیا جائے، لیکن جب بات نہ ہونی ہو تو تبصرے تو خود بخود ہی شروع ہوجاتے ہیں۔
دوسرے تناظر میں بھی ملاقات اہم تھی۔ دارالحکومت اسلام آباد میں مسلسل چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ شاید جمہوریت پٹڑی سے اُتر جائے۔ اسلئے کہ نواز شریف ہٹ دھرمی سے باز نہیں آرہے۔ مریم کی زبان قابو میں نہیں۔ مستقلاًافواج پاکستان اور اعلیٰ عدالتوں کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ نتیجہ اس کا خراب ہی ہونا ہے۔ دیکھنا یہی ہے کہ جمہوریت بچتی ہے یا حالات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ سرگوشیاں اب مستقل سننے میں آرہی ہیں کہ ایک ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کا قیام عمل میں لایا جائے جو صحےح معنوں میں انتخابات، صاف و شفاف بائیومیٹرک کے ذریعے، قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر کرائے جائیں لیکن پہلے ملکی دولت کو واپس لایا جائے، جو شریف اور زرداری خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کی طرف سے لوٹی گئی ہے ورنہ پھر جائیداد کی ضبطگی، لیکن ایک اور مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے کہ کیا صرف سیاست دانوں کا ہی احتساب ہوگا، کیا دوسروں جن پر بے پناہ دولت بنانے کا الزام ہے، اُن کو شاملِ تفتیش نہیں کیا جائے گا۔ یہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، سو سیدھی اُنگلی سے گھی نکالنا مشکل ہے۔ بہرحال کچھ تو ہے جس کا ذکرِ خیر سڑکوں پر سنائی دے رہا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جب تک تصدیق نہ ہوجائے، میں افواہوں پر تبصرہ کرنے کا قائل نہیں، لیکن اگر عوام النّاس میں بات پھیل جائے تو نوٹس تو لینا ہی پڑے گا۔
دوسری طرف کچھ مبصرین یہ تک کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شریف خاندان سے دُوری اختیار کرنا شروع کردی ہے۔میں تو یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اسلئے کہ شاہد خاقان عباسی کا ماضی بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرح داغ دار ہے۔ اُن پر قطر گیس کا کمیشن لینے کا الزام لگا، پھر ایک نئی کہانی شروع ہوگئی کہ پی آئی اے کا نیویارک میں برسوں سے خریدا ہوا ہوٹل روز ویلٹ اونے پونے داموں بیچ دیا گیا۔ پی آئی اے جو قومی ایئرلائن اپنی امریکہ کی سروسز بند کررہی ہے، شاید یکم نومبر سے کراچی نیویارک سروس بند کردی جائے اور اسکے بجائے شاہد خاقان عباسی کی ایئربلیو (جو نجی ایئرلائن ہے) کراچی-نیویارک سروس کا اجرا کرے۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ 
لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت کی ساکھ ختم ہوتی نظر آرہی ہے، نیّا ڈوب رہی ہے، کیسے بچے گی، اس کا علم غیب کو ہے۔ افتخار چوہدری کے معاملے کے بعد ایک دوسری عدالت وجود میں آچکی ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی بارہوا ہے کہ ایک وزیراعظم کو برخاست کردیا گیا۔ ویسے تو یوسف رضا گیلانی کو بھی کرسی چھوڑنی پڑی تھی لیکن ایسا کرپشن نہیں بلکہ توہین عدالت کی وجہ سے ہوا تھا۔ ویسے بھی نواز شریف اور اسحاق ڈار کی مقدمات کو التوا میں ڈالنے کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ انصاف کی توقع ہر کسی کو ہے، جو پوری ہوتی نظر آتی ہے۔
مریم نواز کی چچا اور چچا زاد بھائی سے ملاقات کا سلسلہ اِن تمام باتوں سے منسلک نظر آتا ہے، پھر اوّل سوال یہی کہ کیا شریف خاندان بچ پائےگا؟ بظاہر تو نہیں لگتا، لیکن غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ کایا پلٹ بھی سکتی ہے، مگر ایسی صورت میں عمران خان نے وہ ہنگامہ برپا کرنا ہے جس کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے۔ عمران کا بھرپور عزم اُس کی کامیابی کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں