Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ِشہرت دوام کے حامل نغمات کے شاعر”فیاض ہاشمی“

 91سال اس ”سرائے ناپائدار“ میں مقیم رہے،2011ءمیں وفات پائی
محمد عامل عثمانی
1973-74ءکی بات ہے ، مجھے مےرے ایک ساتھی انجینیئرسیدانوارالحق نے بتایاکہ برصغیر کے ایک معروف شاعر فیاض ہاشمی حج کی ادائیگی کے لئے آئے ہوئے ہیں اور جدہ میں ایک ہردل عزیز ہندوستانی نژاد سعودی مصطفی قدوائی کے کاشانے پر انکے اعزاز میں استقبالیہ دیا جا رہا ہے، تم بھی آجانا ۔ میں نے جیسے ہی انکا نام سنا تو میرے ذہن میں انکا ایک بہت ہی معروف گیت گونجنے لگا جس کے بول ہیں: 
تصویر تری دِل مرا بہلا نہ سکے گی 
میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی
سینے سے لگا لُوں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی
آرام و ہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی
طلعت محمود کی منفرد آواز میں گا یا ہوا ےہ گیت میں دل ہی دل میں گنگنانے لگا۔یہاں میں یہ بتانا چاہوںگا کہ اس نشست میں ہاشمی صاحب سے کئی بار وہی گیت سنانے کی درخواست کی گئی لیکن وہ یہی کہتے رہے کہ اب یہ گیت طلعت محمود کی آواز میں ہی اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے یہ گیت سناکر ہی نہیں دیا۔ جس زمانے میں یہ گیت فضا میں بکھرا تھا تو شعراور موسیقی کو سمجھنے والا ہر شخص چونک پڑاتھا۔ یہی وہ گیت تھا جس نے طلعت محمود کو طلعت محمود بنایا۔ بالکل اسی طرح جیسے فلم سویراکے لئے لکھا ہوا فیاض ہاشمی کا یہ گیت گلوکار ایس بی جون کی شہرت کا باعث بناجس کے بول تھے:
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے
لا تعداد گیت لکھنے والے فیاض ہاشمی کو کمسنی میں ہی شہرت عطا ہوگئی ۔کراچی میں میری ملاقات انکے برادرِ عزیز معراج جامی سے ہوئی او ر میں نے درخواست کی کہ مجھے کچھ فیاض ہاشمی کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے کچھ زبانی ا ور کچھ مختلف حوالوں سے گوش گزار کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے:
فیاض ہاشمی 1920ءمیں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کلکتہ گرامر اسکول سے حاصل کی اور باقاعدہ ہومیو پیتھ ڈاکٹر بھی بنے لیکن پریکٹس نہیں کی کیونکہ طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی۔والد کا نام سید محمد حسین ہاشمی تھا۔ابتدائی سے لے کر بی اے تک کی تعلیم کلکتہ میں حاصل کی۔ کلکتہ میں ان کے گھر کے نزدیک مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری رہا کرتے تھے ۔انہوں نے فیاض ہاشمی کی شاعری سن کر انہیں معروف شاعر علامہ سرور خاں سے ملوایا اور فیاض نے ان سے اپنے کلام میں اصلاح لی۔ کلکتہ میں ان کے مراسم معروف بنگالی شاعر قاضی نذر الاسلام سے بھی رہے۔
فیاض ہاشمی نے باقاعدہ گیت نگاری کا آغاز ”ہز ماسٹرز وائس گراموفون کمپنی “ سے کیا اور فلموں کیلئے گیت لکھنا شروع کردئیے۔عمدہ ترین گیت نگاری پر انہیں اہالیانِ بنگال کی جانب سے ”شاہِ سخن“ کا خطاب دیا گیا۔15اگست 1947ءکو فیاض ہاشمی کا معروف ترین نغمہ ”آزاد مسلمان“ بیک وقت بی بی سی اور ریڈیو پاکستان ،ڈھاکا سے نشر ہوا۔آپ نے فلم ”جواب“ اور ” سوگِ مندر“ کے لئے سب سے پہلے گیت لکھے۔اس زمانے میں فیاض ہاشمی نے ایک نغمہ ”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے“ لکھا جسے ا±س وقت کے معروف گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا اور بعد میں پاکستان میں اس نغمے کو فلم” بیداری“ کے لئے سلیم رضا نے گایا۔
شاعر فیاض ہاشمی 1936ءمیں فلمی دنیا سے وابستہ ہو چکے تھے، 8 زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے ۔ 1944ءمیں انکا پہلا مجموعہ ”راگ رنگ“شائع ہوا تھا ۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں اردو اور ہندی کی آمیزش سے ایک نیا رنگ بھرا جس کی وجہ سے گیتوں کو لازوال شہرت عطا ہوئی۔انہوں نے 9ویں جماعت ہی سے بہت پختہ شعر کہنے شروع کر دیئے تھے جس کی بنا پر کلکتہ میں ہونے والے ہر مشاعرے میں انہیں کم سن شاعر کی حیثیت سے بطور خاص بلوایا جاتا تھا۔ جہاں ہندوستان میں ان کے سر پر شہرت کا تاج رکھا جا چکا تھا ، اسی طرح پاکستان میں بھی انہیں وہی پذیرائی ملی ۔ بے شمار گیتوں کے علاوہ کئی فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں جن میں سہیلی ، آشیانہ ، اولاد، دِل کے ٹکڑے ، سہاگن ، لاکھوں میں ایک، زمانہ کیا کہے گا، عید مبارک ، ہزار داستان اور ایسا بھی ہوتا ہے ، سرِ فہرست ہیں۔
فلمی دنیا میں یوں تو اور بھی لوگ گیت نگاری کر رہے تھے لیکن فیاض ہاشمی صاحب کی انفرادیت یہ تھی کہ ان کے اندر شاعر کے ساتھ ساتھ ایک موسیقار بھی چھپا ہوا تھا۔ اسی لئے دھن بناتے وقت اگر کہیں کوئی مشکل آڑے آتی اور میوزک ڈائریکٹر ان سے کہتا کہ فیاض صاحب بول صحیح نہیں بیٹھ رہے، آپ مصرعے میں تبدیلی کر دیجئے تو فوراً وہ مصرع خود گا کر بتاتے کہ دھن یوں بنے گی تومصرعے فٹ ہوں گے۔ یہ سن کرموسیقارحیران ہو کر انہیں دیکھتا اور کہتا ہاں بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور مصرعوں کی تبدیلی کے بغیرگانا ریکارڈ ہو جاتا۔ اپنی اِس منفرد اور قابلِ قدر خصوصیت کی وجہ سے فیاض ہاشمی کو”ہز ماسٹرزوائس“ یعنی ”ایچ ایم وی “گرامو فون کمپنی کا ڈائریکٹر بنا دیاگیا۔یہ مشہورِ زمانہ گرامو فون کمپنی تھی جس کے گیت گھر گھر بجتے تھے۔ وہ زمانہ تھا جب ریکارڈ پر گلوکاروں کی بجائے فلم کے کرداروں کے نام ہوتے تھے ۔ مشہور و مقبول فلم ”محل“ کے لازوال گیت ” آئے گا آنے والا“ پر گلوکارہ کا نام کامنی لکھا ہوتا تھا جو کہ فلم کی ہیروئن مدھوبالا کا نام تھا۔بہت عرصے بعد لتا منگیشکرنے ایک انٹرویو میںکسی کو بتایا تھا کہ چونکہ وہ مشہور نہیں ہوئی تھیں اس لئے گراموفون کمپنی نے ریکارڈ پر فلم کی ہیروئن کا نام دے دیا تھا۔
زمانہ طالب علمی ہی میں فیاض ہاشمی کا تعلق گراموفون کمپنی ”ایچ ایم وی “سے ہو چکا تھا۔ اس وقت اس کمپنی کا راج تھا ۔ ہر گلوکار چاہتا تھا کہ اس کا گانا ”ایچ ایم وی “ ہی ریکارڈ کرے۔مجھے یاد ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی جب ریڈیو گرام پر گیت اور غزلیں سننے کا اتفاق ہوا تو ہر ریکارڈ ”ایچ ایم وی “ کاہی ہوتا تھا۔
”ایچ ایم وی “ کمپنی میں فیاض ہاشمی کی ملاقات ایک بہت بڑے موسیقار کمل داس گپتا سے ہوئی ۔ ان دونوں کی جوڑی خوب نبھی اور بڑے لازوال گیت تخلیق ہوئے ۔ فیاض ہاشمی کا نام ہندوستان میں ایک کم عمر گیت نگار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ ہر فلم ساز چاہتا تھا کہ اس کی فلم کے گیت فیاض ہاشمی ہی لکھیں ۔ کمل داس گپتا اور فیاض ہاشمی کی جوڑی نے ہی جگ موہن ، طلعت ، جوتھیکا رائے ، پنکج ملک اور ہیمنت کمار جیسے بڑے گلوکاروں کو موسیقی کی دنیا سے متعارف کروایا اور بے پناہ شہرت کا حامل بنایا۔ ان گلوکاروں کے مشہور گیتوں میںیہ گیت شامل ہیں:
 ٭ تصویر تری دل مرا بہلا نہ سکے گی 
٭ چودھویں منزل پہ آ گیا ظالم
٭ اک نیا انمول جیون مل گیا
٭ یاددلواتے ہیں وہ یوں میرا افسانہ مجھے
 ٭ہونٹوں سے گل فشاں ہیں وہ
ان کے علاوہ طلعت محمود کی آواز میں بے شمار گیت اور غزلیں ہیں۔ اسی طرح پنکج ملک کا ” یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسا ہنسانا“ ہیمنت کمار کا ” بھلا تھا کتنا اپنا بچپن“ ، جگ موہن کا ” یہ چاند تیری آرتی ہے “ ، جوتھیکا رائے کا ” چپکے چپکے یوں ہنسا “ موسیقی کے ہر دلدادہ یاد ہو گا۔ 
1948ءمیں فیاض ہاشمی پاکستان آ گئے ۔ انہوں نے گراموفون کمپنی سے مطالبہ کیا کہ ان کا ٹرانسفر لاہور کر دیا جائے۔ کمپنی انہیں کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر پاکستان کی محبت پر کوئی چیز غالب نہ آ سکی لہٰذا کمپنی نے انہیں ”ایچ ایم وی“ لاہور کا ڈائریکٹر بنا دیا۔ وہ جب لاہور آئے تو یہاں ایک جلے ہوئے اسٹوڈیو اور ایک چوکیدار کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ فیاض صاحب نے اس کمپنی کو نئے سرے سے کھڑا کیا اور بے شمار فنکاروں کو اکٹھا کیا جن میں منور سلطانہ ، فریدہ خانم، زینت بیگم ، سائیں اختر حسین ، سائیں مرنا کے علاوہ اور بہت سے فنکار تھے۔ 1956ءمیں رائلٹی کی ادائیگی پر اختلاف کے باعث وہ کمپنی سے علیحدہ ہو گئے اور کراچی آگئے۔
1960ءمیں ایس ایم یوسف انہیں دوبارہ لاہور لے آئے اور وہ ان کے ادارے سے وابستہ ہو گئے ۔ فیاض ہاشمی اسمِ بامسمیٰ تھے۔ وہ دِ ل کے فیاض تھے۔ اسی لئے جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ استاد حسیب خاں ، استاد فتح علی خاں، استادبڑے غلام علی خان ، استاد مبارک علی خاں، ماسڑغیاث حسین اور استاد شریف خاں پونچھ والے کو بھی گراموفون کمپنی میں ملازمت دلوائی۔ شاعر حزیں قادری اور مشیر کاظمی بھی انہی کے توسط سے کمپنی سے وابستہ ہوئے ۔ ریاض شاہد کو بڑا مکالمہ نگار بنانے میں فیاض ہاشمی کی معاونت شامل ہے ۔
پاکستانی فلمی دنیا”لالی وڈ“ کی روایتی بے حسی تواپنی جگہ ایک مثال ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کیاجاتا ہے لیکن اس سے شکوہ عبث ہے کیونکہ لالی وڈ توخود جاں بہ لب ہے ۔ وہ اپنے آپ کو بھول رہی ہے تو بھلا اپنے محسنوں کو کیایاد رکھے گی۔ 
**فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے مشہور فلمی نغمات اور گلوکار:
**تو جو نہیں ہے توکچھ بھی نہیں ہے (ایس بی جون)
**آج جانے کی ضد نہ کرو ( حبیب ولی محمد)
**تصویر تری دل مرا بہلا نہ سکے گی (طلعت محمود)
**چلو اچھا ہوا تم بھول گئے (نورجہاں)
**گاڑی کو چلانا بابو ( زبیدہ خانم)
**قصہ¿ غم میں ترا نام ،نہ آنے دیں گے ( مہدی حسن)
** یہ کاغذی پھول جیسے چہرے (مہدی حسن)
**نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا ( مہدی حسن)
**لٹ الجھی سلجھا رے بالم ( نورجہاں)
**ساتھی مجھے مل گیا ( ناہید اختر)
**ہمیں کوئی غم نہیں تھا غمِ عاشقی سے پہلے ( مہدی حسن )
**رات سلونی آئی ( ناہید نیازی)
٭٭مشہور ملی نغمات:
٭٭ یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران
 اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان 
٭٭ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
٭٭سورج کرے سلام ، چندا کرے سلام
بطور نغمہ نگارفیاض ہاشمی کی مشہور فلموں میں”سہیلی، آشیانہ، اولاد، دل کے ٹکڑے، سہاگن، لاکھوں میں ایک ، زمانہ کیا کہے گا، عید مبارک، سویرا، ہزار داستان اور ایسا بھی ہوتا ہے، شامل ہیں۔
فیاض ہاشمی نے 3 شادیاں کیں ۔ پہلی بیوی سے ان کے 7بچے ہیں، دوسری شادی اداکارہ کلاوتی سے کی جو مسلمان تھیں، ان سے ایک بیٹااور تیسری بیگم سے چار بچے ہیں جو اپنی والدہ کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں۔یوں فیاض ہاشمی جنہوں نے 12سال کی عمر میں دنیائے فن میں قدم رکھا،79سال تک فلمی نغمے اور ملی ترانے لکھے،متعدد گلوکاروں، موسیقاروں، ہدایتکاروں، اداکاروںاور فنکاروںکے لئے شہرت دوام کا سبب بنے اور 91سال اس ”سرائے ناپائدار“ میں مقیم رہ کربالآخر 29 دسمبر2011ءکو داغِ مفارقت دے گئے۔

شیئر: