صلاح الدین حیدر
سانحۂ کارساز کی یاد تو ہر سال منائی جاتی ہے۔ اس بار بھی بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے حیدرآباد میں شاندار جلسۂ عام کیا لیکن جب ایک مرینہ محترمہ پر حملہ ہوگیا اور وہ خوش قسمتی سے معجزاتی طور پر بچ گئیں تو پھر اتنے بڑے واقعے کی تفتیش کیوں نہیں کی گئی، حفاظتی اقدامات ہوئے یا نہیں، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن خود جس پیپلز پارٹی کی وہ سربراہ تھیں، وہ کیوں خاموش رہیں، نتیجہ ظاہر ہے وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا، یعنی محترمہ صرف سوا 2ماہ بعد 27 دسمبر 2007 کو شہید کردی گئیں، اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ انگلیاں تو بہت سارے لوگوں پر اُٹھائی جاسکتی ہیں، لیکن حقائق جاننے کی کوشش تو کہیں نظر آئے۔
8 سالہ جلاوطنی کے بعد بھٹو کی بیٹی، جنہوں نے خود کو ’’Daughter of the East‘‘ کے نام سے منوایا، جب 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس پہنچیں تو اُن کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ہوائی جہاز کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اُنہوں نے رُک کر دعا کے لئے ہا تھ اُٹھائے کہ خالقِ حقیقی کا شکر ادا کیا جائے۔ اُن کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور آنکھوں میں شکرانے کے آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ وہ واپس اُس سرزمین پر جہاں وہ پیدا ہوئیں اور پرورش پائیں، اپنے والدِ محترم کو پھانسی چڑھتے دیکھا، جہاں انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ مصیبت کے دن گزارے، وزیراعظم بنیں تو بھائی کو شہید ہوتے دیکھا اور کچھ بھی نہ کرسکیں۔ وہی مٹی 18 اکتوبر 2007 کو اُنہیں خوش آمدید کہنے کے لئے بے چین نظر آرہی تھی۔
لوگوں کا ایک جم غفیر کراچی ایئرپورٹ کے باہر اُن کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے قرار تھا اور پھر جب وہ ایئرپورٹ سے ایک ٹرک میں سوار ہوکرخیر مقدمی جلوس کی قیادت کررہی تھیں، لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہزاروں لاکھوں پیپلز پارٹی کے جیالے اور اُن کے چاہنے والے ٹرک کے آگے پیچھے، دائیں بائیں، چہار اطراف منڈلاتے پھر رہے تھے۔ اس قافلے نے کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد شاہراہ فیصل سے ہوتے ہوئے کارساز روڈ کا رُخ کیا۔ سورج اُنہیں خوش آمدید کہہ کر، دِن کا سفر طے کرچکنے کے بعد، شام کی دھیمی روشنی کے حوالے کرکے جاچکا تھا۔ رات اپنی تمام تر تاریکیوں کے باوجود، چہار سُو روشنی پھیلانے میں محو تھی۔
اچانک رات گئے ایک زوردار دھماکا ہوا،مداحوں کے اجسام سڑک پر تڑپنے لگے اور پھر دوسرا دھماکا ہواجس میں ایک نجی ٹی وی چینل کے کیمرا مین عارف (انتہائی خوش اخلاق جوان) نے بھی جام شہادت نوش کیا۔شہدا کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی، 500 سے زیادہ بھٹو کے شیدائی، زخموں سے چُور لیکن بے نظیر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہسپتالوں میں بے قرار نظر آئے اور جب دوسری صبح، آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوا تو یہی شہزادی ہسپتالوں کے چکر لگا رہی تھیں کہ اپنے متوالوں کی تیمارداری کرسکیں۔
دیکھنے والے منتظر تھے، لوگوں کے ہاتھ پیر ٹوٹے ہوئے، شدّتِ درد سے نڈھال لیکن بینظیر کو دیکھتے ہی، رو رو کر کہہ رہے تھے کہ ہم کیوں بچ گئے، ہماری جان آپ پر کیوں آخر فدا نہیں ہونے دی گئی،رب کی منشا میں کس کی مجال کہ مداخلت کرسکے، اﷲ تعالیٰ نے ہر ا یک کی زندگی کے دن چُنے ہوئے ہیں۔ بینظیر اُنہیں تسلیاں دیتی ہوئی آگے بڑھتی رہیں، لیکن اُنکی آنکھیں نم اور وہ صدمے سے دوچار تھیں۔
اس واقعے کی تحقیقات کیوں نہیں ہوئی، یہ آج تک معمّہ ہے۔ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے ایک کمیٹی بنادی کہ وہ سانحے کی تہہ تک پہنچیں، بینظیر پر حملہ کرنے والوں کو بے نقاب کیا جاسکے، اُسکے بعد بھی 3,2 کمیٹیاں بنیں، لیکن جہاں کمیٹیاں بن جائیں تو سمجھ لیں کہ معاملات سردخانے کی نذر ہوگئے۔ شاید وقت کے حکمرانوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ وہ حقیقت تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ طالبان کمانڈر بیت اﷲ محسود (جس پر بینظیر اکثر شبہ کرتی تھیں کہ وہ اُن کو مروا دینا چاہتا ہے) نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ یا اُس کے حمایتی عورتوں اور بچوں کی جان لینے کیدخلاف ہیں۔
تحقیقات نہ ہونی تھیں نہ ہوئیں۔ دشمنانِ پاکستان اپنے مقصد میں کامیابی پر خوش تھے۔ اُن کے شیطانی ارادوں کو جلا ملی اور بالآخر صرف سوا 2مہینے کے بعد اُنہیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی مل ہی گئی۔ بے نظیر ملتِ اسلامیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کو لیاقت باغ کے باہر ہی شہید کردیا گیا۔ اُس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر ذمے داری ڈال دی گئی لیکن ایسا کرنے والے یہ بھول گئے کہ دخترِ مشرق کی شہادت کا فائدہ کس کو پہنچا۔
ہمدردی کے ووٹوں کے ذریعے پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور اُسکے شریک چیئرمین اور بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری منصبِ صدارت پر براجمان ہوئے۔’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ تو ضرور لگایا گیا لیکن5 سال تک پی پی پی کا دورِ حکومت ملک کی تباہی اور بربادی کی وجہ بنا، جس کا محاصل ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
مشرف نے دبئی سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف طور پر زرداری کو ذمے دار ٹھہرایا اور یہ بھی سوال اُٹھادیا کہ آخر وہ فون جس پر آصفہ بھٹو کی کال آئی تھی دبئی سے کہ بابا کہہ رہے ہیں کہ مجمع کو گاڑی سے نکل کر نعروں کا جواب دو، بینظیر نے ایسا ہی کیا اور دوسرے ہی لمحے وہ اپنی سیکریٹری یا سب سے گہری دوست ناہید خان کی گود میں خون میں نہائی ہوئی، اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں۔ مشرف نے ہی یہ سوال اُٹھایا کہ آخر وہ فون کہاں گیا، کیوں اُس کی چھان بین نہیں کی گئی۔ کچھ تو معلوم ہوتا۔ یہی سوالات آج بھی پوچھے جارہے ہیں، لیکن جواب کون دے؟؟
حواکی بیٹی جس نے ملک کی بیحد خدمت کی، وہ آج ہم میں موجود نہیں، لیکن وہ ایک شاندار ماضی کی رکھوالی تھیں۔ دُنیا کی بہترین جامعہ آکسفورڈ، ہارورڈ کی پڑھی ہوئی، باپ کے سائے میں پلنے والی جو پٹرولیم منسٹر، وزیر خارجہ، وزیراعظم، کچھ عرصے صدر مملکت بھی رہے۔یہ دختر نیک اختر اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اُن کے صحیح جانشین ثابت ہوتے ہیں یا نہیں۔