صلاح الدین حیدر
مدتوں بعد پاکستان نے ایک آزاد مملکت کی طرح دُنیا کے سامنے، بلکہ واحد سپرپاور کے آگے بے خوفی سے بات کی۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ایک روزہ دورے پر پاکستان آئے۔انہوں نے وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، آرمی چیف اور دوسرے فوجی اور سویلین رہنماو¿ں سے ملاقات کی۔
خوش کُن امر یہ ہے کہ پہلے کی طرح ہم نے سر جھکا کر بات نہیں کی بلکہ قومی وقار اور حمیت کو شروع سے آخر تک پیش نظر رکھا۔ امریکہ سے جب بھی بات چیت ہوتی ہے تو سرد و گرم ماحول یا پس منظر میں ہی ہوتی ہے۔ ہمارے دو طرفہ تعلقات 1947 سے لے کر آج تک اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں۔ کبھی اچھے، کبھی بُرے، یا یوں کہیے کہ تلخ و شیریں کا عجیب سا ملغوبہ۔
بیرونی تعلقات میں ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی بات کرتا ہے، ہونا بھی چاہیے۔ اگر امریکہ سے ایسا ہوتا رہا ہے تو کوئی انوکھی بات نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1965 کی پاک ہند جنگ کے فوری بعد اُس وقت کے صدر مملکت ایوب خان، واشنگٹن تشریف لے گئے۔اپنے امریکی ہم منصب جانسن سے ملاقات ہوئی۔امریکہ کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ منہ پر کچھ پیٹھ پیچھے کچھ۔ صدر جانسن نے ایوب خان سے پاکستان کی حفاظت کا ذمہ لیا جس پر ایوب خان نے واپسی پر کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اُنہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ آپ ہماری حفاظت کریں گے، ویسے ہی جیسا کہ حالیہ جنگ میں ہوا۔
اُن کے الفاظ میں ہی بتادیتا ہوں جو مجھے اب تک یاد ہیں۔ ”Like you did in the past?“۔ ایوب خان نے جب اس جواب کے متعلق صحافیوں کو بتایا، گورنر ہاﺅس (جو اُس وقت پریذےڈنٹ ہاﺅس تھا) لوگوں کے قہقہوں سے گونج اُٹھا، ایوب خان بھی مسکرا دئیے لیکن ایوب خان نے نہ صرف حاضر جوابی بلکہ حوصلہ اور ہمت سے قومی فکر کی بھرپور نمائندگی کی تھی۔ پاکستانی قوم بھی امریکی پالیسیوں سے دل برداشتہ نظر آتی تھی۔
پاکستانیوں کی یہ تشویش بلاوجہ نہیں تھی۔ 1962 میں جب پاکستان نے چین سے بارڈر ایگریمنٹ یا سرحدوں کی حد بندی کا معاہدہ کیا تو امریکہ نے ہماری امداد بند کردی۔ پھر 1965 کی جنگ میں دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں ہونے کے باوجود پاکستان پر امریکی اسلحہ ہند کے خلاف استعمال کرنے کی پاداش میں پابندی لگادی گئی۔ بعد میں بھی کئی ایسے ہی واقعات و حالات سے ہمیں گزرنا پڑا۔ Pressler amendment ہم پر مسلط کردی گئی کہ ہم ایٹم بم کیوں بنارہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق، بےنظیر، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف سب نے ہی ان گیدڑ بھبکیوں کو سرے سے ہی نظرانداز کردیا۔
اگر امریکہ یا کوئی بھی ملک اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتا ہے تو ہم آخر اس اصول سے کیوں پیچھے ہٹیں؟ ہمیں اپنے ملک کے بارے میں سوچنا ہے، اس کی حفاظت اور سلامتی کی فکر ہر وقت نظر میں رکھنی ہوگی، اس سے مفر نہیں ۔جو قومیں ایسا نہیں کرتیں اور اپنی سلامتی پر سودا کرلیتی ہیں، وہ یا تو پستی کی گہرائیوں میں گر جاتی ہیں، یا پھر صفحہ¿ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔پاکستان تو اﷲ وحدہ لاشریک کا بیش بہا انعام ہے۔ اس کی بے قدری کرنا تو دُور کی بات، سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی انڈر سیکریٹری کوئی پےغام لے کر اسلام آباد آئے، لیکن اُنہیں منہ کی کھانی پڑی۔ نواز شریف نے بھی ایسا جواب دیا کہ اُنہیں فوراً ہی ہندکا رُخ کرنا پڑا کہ وہاں کی قیادت کو سمجھا سکیں، پاکستان سے برابری کی بنیاد پر رشتے اُستوار کرے۔ نتیجہ تو خیر کیا ہونا تھا، لیکن پاکستان نے اپنے موقف سے ہٹنے سے صاف انکار کردیا۔ اسی میں ہماری توقیر تھی۔
پچھلے کئی برسوں سے پاک امریکی تعلقات ناہمواری کا شکار ہیں۔ مسئلہ صرف افغانستان کا ہے، جس کا اظہار امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں کیا کہ پاکستان دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے، ساتھ میں دھمکی بھی دی کہ اسلام آباد کی حکومت اپنے اطوار بدلے ورنہ امریکہ خود یہ ذمے داری پوری کرے گا۔ 20/22 کروڑ لوگوں کا یہ ملک جس میں اکثریت کے دل کلمہ¿ طیبہ کی گونج کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ایسی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ ہم کوئی صومالیہ یا سوڈان نہیں، یہاں کے عوام باشعور ہیں۔ اُنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں نام کمایا ہے۔ ہمیں الحمدللہ اپنی حفاظت کرنی آتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان سفارتی آداب کی صرےحاً خلاف ورزی تھا، اُسے کیسے قبول کیا جاسکتا تھا۔ پھر بھی امریکہ ایک سپرپاور ہے، ہم اُس سے بگاڑ نہیں چاہتے اسی لئے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے واشنگٹن کا دورہ کیا اور بغیر کسی تکلف یا ہچکچاہٹ کے صاف طور پر قبول کرلیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو سمجھنے میں دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے، جسے تھوڑی سی محنت سے دُور کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور بات جو یہاں اہم ہے، وہ یہ کہ اب 1965 یا 1971 والی صورتحال نہیں۔ ہم اب امریکہ یا کسی بھی ملک کے زیر اثر نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم اسلحہ، گولا بارود کےلئے امریکہ کے محتاج تھے، بالکل اُسی طرح امریکہ گویا اب بھی پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ لگانے والا ملک ہے، لیکن 2017 کی دُنیا یکسر مختلف ہے۔ہم آج اسلحہ کی تیاری میں خاصی حد تک خودکفیل ہوچکے ہیں۔
پاکستانی بحریہ اپنی آبدوزیںو میزائل بوٹس بنارہی ہے۔ فضائیہ نے جے ایف تھنڈر طیارے خود بنانے شروع کردیے ہیں جو F-16 کے مقابلے میں لڑائی میںبفضل تعالیٰ ہماری حفاظت بھرپور طریقے سے کرسکتے ہیں۔ہماری آرمی سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کے زمانے سے ٹینکس بنا رہی ہے۔ ہم طیارے اور دوسرے چھوٹے ہتھیار دوسرے ممالک کو برآمد کررہے ہیں۔
پھر یورپ سے لےکر جاپان، چین اور کوریا تک ہماری تجارت کافی پھیل چکی ہے۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، جاپان، چین، کوریا پاکستان میں سرمایہ لگانے کےلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ امریکہ کو اب یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان وہ پُرانا پاکستان نہیں ۔ ہم ایک آزاد، خودمختار ملک ہیں، الحمدللہ کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر ٹرمپ صاحب کی دھمکیوں سے فائدہ....؟
جہاں تک افغانستان سے تعلقات کا معاملہ ہے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہوں یا جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں ہی کابل کا کئی بار دورہ کرچکے ہیں۔ افغانی ہم منصب اور صدر اشرف غنی کو باور کراچکے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، تو افغانستان کو بے سر کی نہیں الاپنا چاہیے۔
اُسے اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغانستان کی حکومت خود نااہل ہے۔آج بھی افغانستان کا 40 فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے، امریکی فوج صرف صدارتی محل تک ہی محدود ہے تو پھر امریکہ خود ہی اس بات کا انتظام کرے کہ افغانستان میں امن کیسے قائم کیا جائے گا۔ پاکستان پر الزام دھرنے سے کام نہیں چلے گا۔
ریکس ٹلرسن پاکستان تشریف لائے۔شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل گفتگو کی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان نے اپنا موقف بھرپور طریقے سے امریکہ پر واضح کردیا کہ ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری شہید ہوچکے ہیں اُن دہشتگردوں کے ہاتھوں جو افغانستان سے آکر ہمارے ملک میں افراتفری پھیلاتے رہتے ہیں۔
کراچی کے ایک علاقے میں5 گھنٹے کی لڑائی کے بعدانصار الشریعہ کے 8 دہشتگرد مارے گئے ۔ وہ سارے کے سارے افغانستان سے تربیت لے کر آئے تھے۔ اُن میں سے ایک زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، لیکن انصار الشریعہ کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس پر پاکستان رینجرز اور اُسکے کمانڈر میجر جنرل محمد سعید مبارک باد کے مستحق ہیں۔ رینجرز کا ایک سپاہی بھی شہید ہوا۔
دورے کے فوراً بعد ہی ریکس ٹلرسن ہند گئے۔ وہاں کیا کھچڑی پکتی ہے، نہیں معلوم، لیکن پاکستانی قوم اور افواج سینہ سپر ہیں ملک کی حفاظت کےلئے۔ وزیر خارجہ نے بعد میں کہاکہ مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا پڑے گا، اب دھمکیوں سے کام نہیں چلے گا ۔وہ وقت گزر گیا جب ہمیں ڈکٹیشن دی جاتی تھی۔ اُمید تو ہے کہ ریکس ٹلرسن کو بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر پاکستان بھی بے بس نہیں۔