نوشتہ تقدیر پر ایمان ، بندے کے عقیدے کو جانچنے کی کسوٹی ہے، امام حرم
مکہ مکرمہ....مسجد الحرام کے امام وخطیب شیخ ڈاکٹر خالد الغامدی نے واضح کیا ہے کہ نوشتہ تقدیر پر ایمان اللہ تعالیٰ پر بندے کے عقیدے اور اخلاص کو جانچنے کی کسوٹی ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ یہ کہہ کر کہ ہم اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو حتمی مانتے ہیں۔ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اچھا برا جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ ہم اس کے فیصلے پر جی جان سے راضی ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگ یہ کہہ کر آزمائشوں سے دوچار ہونے پر رونا دھونا ، واویلا کرنا، ناراضگی اور غمی کا اظہار کرنا اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں۔اس طرح وہ اپنے ایمان کے امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے ذہنوں میں وسوسے ڈال کر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم اور اس کے فضل و انصاف کی بابت شکوک شبہات ڈال دیتا ہے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے کہا کہ تقدیر پر ایمان ہی آلام و مصائب سے نجات کی کلید او رفلاح و سعادت حصول کرنے کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر یقین کامل رکھنے والے کے دل دماغ میں بڑے سے بڑے حادثے اور بڑے سے بڑے المیے پر اللہ کی بابت کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں پہلے ہی اہل ایمان کو خبردار کرچکا ہے کہ اس نے ہر چیز مخصوص مقدار میں پیدا کی ہے۔ امام الغامدی نے توجہ دلائی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بڑوں سے قبل بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں نوشتہ تقدیر پر ایمان کے عقیدے کو راسخ کیا کرتے تھے۔ احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتوں میں سے وہ نصیحت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمسنی کے عالم میں ابن عباس کو کی تھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس بات کا ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے ابن عباس کو تلقین کرتے ہوئے کہا تھا ٰ"یقین جانو کہ اگر پوری قوم تمہیں کوئی فائدہ پہنچانے کا متفقہ فیصلہ کر لے اور اللہ تعالیٰ نے وہ چیز تمہارے نصیب میں نہ لکھی ہو تو وہ سب کے سب مل کر تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتے، اسی طرح اگر تمام لوگ تمہیں کوئی ایسا نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری تقدیر میں نہ لکھا ہو تو وہ سب مل کر بھی تمہیں وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ سب لوگ وہی نفع پہنچا سکتے ہیں جو تمہاری تقدیر میں لکھا ہو گا اور وہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کا فیصلہ رب تعالیٰ نے کر دیا ہو گا"۔ امام حرم نے بتایا کہ نوشتہ تقدیر پر ایمان کا بڑا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے 50ہزار برس قبل ہر مخلوق کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا تھا۔ امام حرم نے بتایا کہ لوح محفوظ میں تحریر تقدیر کسی بھی تبدیلی سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوشتہ تقدیر پر ایمان سے بندہ مومن کے دل میں رضا بہ قضا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی بدولت مومن بندے غمی بے چینی اور خوف سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ تقدیر کا عقیدہ نظام توحید کی روشن علامت ہے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ بعض لوگ اس حوالے سے ایک اور عقیدے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ہر مخلوق کی تقدیر مقرر کر رکھی ہے وہیں اسے تقدیر میں لکھی نعمتوں کو حاصل کرنے کا پابند بھی بنایا ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ کر کہ ہمارے نصیب میں جو لکھا ہے وہ ہمیں مل کر رہے گا۔ خواہ ہم کچھ کریں یا نہ کریں۔ بالکل غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام سے بغاوت کے مترادف ہے۔ ہر بندہ نوشتہ تقدیر کو حاصل کرنے کیلئے محنت کا پابند ہے۔ دوسری طرف مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ صلاح البدیر نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ جوشخص کسی مسلم علاقے میں اجازت لے کر آجائے تو اس کی سلامتی کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض بن جاتا ہے۔ اسی طرح جو مسلمان کسی غیر مسلم ریاست میں ویزہ لے کر چلا جائے اسے اس ریاست کے لوگوں کےساتھ غداری کرنا، ان کا سامان چوری کرنا، ان کے یہاں بدامنی پھیلانا اور ان کی آبرو سے کھیلنا قطعاً حرام ہے۔