مصری ٹی وی چینلز پر ”قبرستان برائے فروخت“کے اشتہارپر سعودی اخبار کے کالم
کئی مصری ٹی وی چینلز پر ”قبرستان برائے فروخت“کے اشتہار اور ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرنےوالوں کیلئے عبرتناک سزا پر سعودی اخبارات کے کالم
قبرستان برائے فروخت!!
عبدالعزیز حسین الصویغ۔ المدینہ
کئی مصری ٹی وی چینلز پر ”قبرستان برائے فروخت“کے اشتہار دیکھ کر ہر کس و ناکس کو اچنبھا ہوتا ہے ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اشتہار میں امیدواروں کو یہ اختیار بھی دیا جاتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو قبرستان کی مطلوبہ رقم نقد ادا کردیں اور چاہیں قسطیں کروالیں۔اشتہار اس قدر دلچسپ پیرائے میں دیئے جارہے ہیں کہ مکان سے محروم ہر انسان کے دل میں یہ گدگدی ہونے لگتی ہے کہ اس سے بہتر موقع اور کیا ہوگا ،کیوں نہ ایک شاندار گھر کے مالک بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کرلیا جائے۔ انسان کے ذہن میں مذکورہ اشتہار دیکھ کر یہ خواہش بھی پیدا ہونے لگتی ہے کہ اس سے بہتر اسکیم اور کیا ہوگی کہ آپ ایک ایسا مکان حاصل کریں جہاں اپنی زندگی گزاریں اور مرنے کے بعد بھی آپ کی رہائش اسی جگہ ہو جہاں آپ زندگی میں رہا کرتے تھے۔
قبرستان برائے فروخت کے اشتہارات میں جن قبرستانوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں وہ متعدد علاقوں کے ان مکانات سے کہیں زیادہ خوبصورت اور شاندار ہوتے ہیں جہاں جیتے جاگتے لوگ اپنی زندگی بسرکررہے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں ان اشتہارات کا بنیادی ہدف صرف منافع کمانا ہے یا موت کے کلچر کی مارکیٹنگ کرنا ہے۔ بعض قبرستانوں کی قیمت عوامی محلوں کے مکانات کے آس پاس ہوتی ہے۔ بعض قبرستانوں کی قیمتیں عام گھروں کی قیمتوں سے زیادہ بھی ہوتی ہیں۔حقیقت حال سے آشنا لوگوں کا کہنا ہے کہ ضمیر فروشوں نے 25جنوری 2011کے انقلاب کے بعد مصر میں آنے والی بدامنی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مختلف مقامات پر بلا اجازت قبرستان بنا لئے تھے۔ انہوں نے بھاری قیمتوں پر انہیں فروخت کردیا۔ قبرستانوں کی ضرورت کے حوالے سے عوام کا استحصال کیا۔ اب یہ قبرستان اس لئے بھی فروخت کررہے ہیں تاکہ حکومت مستقبل میں انہیں غیر قانونی قراردیکر ضبط نہ کرلے۔
آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ مقام ِشکر ہے کہ سعودی وزارت بلدیات و دیہی امور نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس اطلاع کی تردید کردی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی حکومت قبرستانوں پر ٹیکس لگانے جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرنے والوں کیلئے عبرتناک سزا
فہد عریشی ۔ الوطن
ابھی تک ٹریفک اہلکار ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرنے والوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے سلسلے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں۔
جب سے ٹرانسپورٹ کے وسیلے کے طور پر گاڑیاں مارکیٹ میں آئی ہیں تب سے اس سلسلے میں بہت سارے خطرات سر ابھار چکے ہیں۔ ٹریفک اہلکار اور ٹریفک سلامتی سے دلچسپی لینے والے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنے میں قاصر ہی نظر آرہے ہیں۔ حالیہ ایام میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل کے بڑے پیمانے پر استعمال نے جان لیوا خطرات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
سرکاری اور نجی اداروں نے ڈرائیونگ کے دوران موبائل کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے خطرات سے خبردار کرنے کیلئے وسیع البنیاد آگہی مہم چلائی لیکن آگہی مہم کے انتباہ صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ان کا حال بھی وہی ہوا جو سگریٹ کے ڈبوں پر تحریر اس انتباہ کا ہوتا رہا کہ ”سگریٹ نوشی کینسر کا سب سے بڑا سبب ہے“۔
کئی عشروں تک سگریٹ نوش اس انتباہ کو نہ صرف یہ کہ نظر انداز کرتے رہے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑاتے رہے۔
آگے چل کر حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانے اور سگنل توڑنے کے سنگین نتائج سے لوگوں کو خبردار کیا جاتا رہا۔ بھیانک حادثات کی تصاویر اخبارات میں شائع کی جاتی رہیں۔ ٹی وی چینلز پر دل ہلادینے والے مناظر دکھائے جاتے رہے۔ تیز رفتار ڈرائیونگ کے باعث ہونیوالے خوفناک حادثات میں معذور اور مفلوج ہوجانے والے نوجوانوں کے انٹرویوز سنائے دکھائے اور پڑھائے گئے۔ کوئی فرق نہیں آیا۔ حادثات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔حادثات کو قابو کرنے کیلئے ساہر کیمرے نصب کئے گئے، اس کے بعد حادثات میں کمی تو واقع ہوئی لیکن حد سے زیادہ تیز رفتار ڈرائیونگ کو کنٹرول کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔کنگ عبداللہ میڈیکل ریسرچ سینٹر کے جائزے کے مطابق ساھر کی بدولت اموات میں 37.8فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
اس جائزے سے یہ بات بیشک ثابت ہوئی کہ ساہر کیمروں کی تنصیب ٹریفک حادثات میں تخفیف کا موثر ذریعہ ہے۔ ان جیسے حل مہم جو ڈرائیوروں کو لگام لگا سکتے ہیں۔
ایک جائزے سے پتہ چلا ہے کہ 80فیصد ٹریفک حادثات کا بنیادی سبب حادثے سے قبل ڈرائیور کی غفلت شعاری ہے۔ اس کے متعدد اسباب معلوم ہوئے ہیں۔ نشہ آور اشیاءکا اثر اور موبائل کا استعمال سرفہرست ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈرائیور بیدار ہو اور سڑک پر اس کی نظر ہو ایسی صورت میں غیر متوقع ٹریفک میں پیدا ہونیوالے خطرات سے بچاﺅکا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد کا اچھا خاصا موقع حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ڈرائیور 65سے 80کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گاڑی چلا رہا ہواور اچانک اس کے سامنے بس، ٹرک یا گاڑی یا جانور آجائے تو ایسی حالت میں وہ متوازن انداز میں بریک لگا کر یا گاڑی کا رخ تبدیل کرکے حادثے سے بچ سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ موبائل پر گفتگو کررہا ہو تو ایسے عالم میں اس کیلئے بچاﺅ کی کارروائی کا وقت نہ ملنے کے باعث حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔
فی الوقت ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ ٹریفک اہلکارموبائل استعمال کرنیوالوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ۔ جس طرح انہوں نے سگنل توڑنے اور حد سے تیز رفتار گاڑی چلانے والوں کی طرف سے لا پروائی برتی ،اسی طرح ڈرائیونگ کے دوران موبائل کے استعمال کرنے والے ڈرائیوروں کے حوالے سے بھی چشم پوشی کی جارہی ہے۔ہمیں اس حوالے سے چین جیسے ممالک سے سبق لینا چاہئے جہاں ڈرائیونگ کے دوران موبائل کے استعمال کو کنٹرول کرنے کیلئے خصوصی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭