ایک بدعنوانی سے جڑی دوسری بدعنوانی.....سعودی اخبار کا کالم
سعودی اخبار ”مکہ “ میں شائع ہونے والا کالم جس میں بدعنوانی اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے حوالے سے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
لوگوں کی تنخواہیںاور حقوق کہاں ہیں؟
عبداللہ المزھر۔ مکہ
ایک بدعنوانی سے دوسری بدعنوانی جڑی ہوئی ہے۔ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنا بڑا جرم ہے۔کمزور لوگوں کی جیبیں صاف کردینا اس سے کم درجے کا جرم نہیں بلکہ زیادہ بڑا اور زیادہ بھیانک جرم ہے۔
کہہ سکتے ہیں کہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرتے وقت انسان کے ذہن پر بہت زیادہ بوجھ نہیں آتا ۔ سرکاری خزانہ لوٹنے کے لئے صرف ضمیر کو سلانا پڑتا ہے۔ سرکاری خزانہ سامنے پڑا ہوتا ہے، اسے لینے میں کوئی خاص روک ٹوک نہیں ہوتی۔
جہاں تک سادہ لوح کمزور ملازمین کی دولت لوٹنے کا معاملہ ہے تو اس میں تجوری توڑنے اور دروازوں پر لگے تالے اکھاڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اتنا کافی ہوتا ہے کہ بڑی کمپنی اربوں ریال کے بجٹ تیار کرتی ہے ۔ 500ریال کے نوٹوں کی گڈیاں 200میٹر تک تہہ در تہہ کھڑی ہوتی چلی جاتی ہیں اور ملازمین کو ایک برس تک تنخواہیں نہ دینے کی صورت میں یہ ساری گڈیاں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ ملازمین کو تنخواہ اور حقوق نہ دینا ایک طرح کی چوری بلکہ کسی بھی بدعنوانی سے بھیانک بدعنوانی ہے۔ تنخواہ اور حقوق نہ دیکر آپ صرف یہ کہ ملازمین پر ظلم کرتے ہیں بلکہ آپ امن پسند اور خیر پسند سادہ لوح لوگوں کو مجرم ، چور اور ڈاکو بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس کارکن کو تنخواہ نہیں ملے گی وہ اپنا اور زیر کفالت افراد کا پیٹ پالنے کیلئے کیا کچھ کرنے پر مجبور نہیں ہوگا، میں نے اسکا ذاتی تجربہ کیا ہے۔ میرا ایک بھائی ٹھیکیداری کرنے والی ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ اسے مکمل 10ماہ تک تنخواہ نہیں ملی۔ اس وجہ سے اس پر قرضوں اور قسطوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔ بعض اوقا ت ملازم کو جیل بھی جانا پڑتا ہے کیونکہ اس نے قسطیں ادانہیں کی ہوتیں۔ اسے ایسے جرم کی سزا ملتی ہے جو اس نے نہیں کیا ہوگا۔
میں جانتا ہوں کہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی کہانیاں ایسی ہی ہیںاور کوئی شخص بھی ملازمین کی تنخواہیں اور حقوق نہ دینے والی ان کمپنیوں پر کوئی دباﺅ نہیں ڈال رہا ۔
مکتب العمل وہ پناہ گاہ ہے جہاں لوگ بڑی کمپنیوں او راداروں کے خلاف شکایات درج کرانے کیلئے متوجہ ہوتے ہیں مگر مکتب العمل کے عہدیدار بڑی کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداروں سے ایسی خط و کتابت کرتے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
جن لوگوں کے حقوق مارے گئے ہوتے ہیں انکا مسئلہ وعدوں سے حل نہیں ہوتا۔ اگر کسی ملازم کو ایک سال سے تنخواہ نہ ملی ہو اور آپ اسے یہ کہہ کر ٹرخانے کی کوشش کریں کہ تمہارا مسئلہ جلد حل ہوجائیگا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک انسان پیاس سے مر رہا ہو، آخری سانس لے رہا ہو اور آپ اس سے یہ کہیں کہ فکر مت کرو تمہیں ایک ماہ بعد پانی مل جائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭