منگل 21نومبر 2017ءکو سعودی اخبارات میں شائع ہونے والے اداریئے جومملکت کے آنے والے بجٹ اور ریاض میں حوثیوں کے حملے کے حوالے سے ہیں
بامقصد بجٹ۔ الریاض
سعودی وزارت خزانہ نے 2017ءکے قومی بجٹ کے ابتدائی 9ماہ کی رپورٹ جاری کرکے واضح کیا کہ آمدنی 450.1ارب ریال ہوئی ہے ۔ 2016ءکے ابتدائی 9ماہ کے مقابلے میں 23فیصد زیادہ ہے۔ اخراجات 571.6ارب ریال ہوئے ہیں۔ 0.4فیصد زیادہ ہیں ۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہر مد میں بہتری آئی ہے آمدنی بہتر ہوئی ہے۔ تیل کے ماسوائے ذرائع سے ہونے والی آمدنی میں ا ضافہ 80فیصد ہوا ہے۔
ایک عرصے سے سعودی عرب مختلف اقتصادی اقدامات و اصلاحات کررہا ہے۔ ان میں سرفہرست مالیاتی توازن پروگرام ہے جو سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے۔ آمدنی میں بہتری اور سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری کے غماز اعدادوشمار اور بجٹ خسارے میں کمی ظاہر کرتی ہے کہ اقتصادی اصلاحات نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں۔ تیل کے ماسوا ذرائع سے آمدنی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا ہدف تھا۔ حکومت چاہتی ہے کہ تیل آمدنی پر انحصار کم سے کم ہو۔
2017ءکے قومی بجٹ کی تیسری سہ ماہی کے اعدادوشمار میں اس امر پر زوردیا گیا ہے کہ حکومت عوام کی ترجیحات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔تعلیم، صحت، بلدیاتی خدمات اور سماجی فروغ جیسی بنیادی خدمات کو بہتر سے بہتر طر بنانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس مد میں قومی بجٹ کا44فیصد حصہ لگایا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے مستقبل قریب میں شرح نمو بہتر ہونے کی توقعات ظاہر کی ہیں۔ وزیر خزانہ نے اسے بنیاد بناکر کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی حکومت درست جہت میں پُراعتماد شکل میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار سعودی عرب میں دلچسپی لے رہے ہیں اور سعودی اقتصادی نظام پر انکا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اعترافِ شکست کی دستاویز کس کو مطلوب؟۔ الحیاہ
ریاض پر حوثیوں کے میزائل حملے کے بعد خطے کی صورتحال خوفزدہ سے کم اور تشویش ناک زیادہ نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ حوثی باغی خودکشی پر آمادہ ہیں اور ایران عرب دنیا کی آئینی حکومتوں کو چیلنج کرنے والی تمام تنظیموں کی سرپرستی پر بضد ہے۔
سوال یہ ہے کہ داعش کی دہشتگردی کے المناک دور کی بساط لپیٹے جانے کے بعد ایران اس قسم کی حرکتیں کیوں کررہا ہے۔
لبنان سے لیکر خلیج تک ایک ہی سوال ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے کہ ایرانی حکمراں کیا چاہتے ہیں؟ آیا وہ ایسی جنگوں اورایسے المیوں کا سلسلہ دراز کرنے کے درپے ہیںجنکا خمیازہ ایرانیو ںکو نہیں بلکہ عرب عوام کو بھگتنا پڑیگا۔ عرب عوام ”عرب بہار کی آگ “، داعش کے دوزخ اور اسکے خلافتی نظام کی تباہ کاریوں کے خطرناک نتائج جھیل چکے ہیں۔
اگر بفرض محال یہ بات مان بھی لی جائے کہ ایرانی حکام کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ لبنان اور یمن کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کررہے اور نہ ہی وہاں برسر پیکار لوگوں کو مشتعل کرنے میں مصروف ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حوثی کس کی شہ پر سعودی دارالحکومت ریاض کو حملے کا ہدف بنا رہے تھے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ حوثیوں نے ایک طرف سعودی دارالحکومت ریاض پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا اور اسی دوران ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنے مشیر علی اکبر ولایتی کو استعفے سے قبل لبنانی وزیراعظم سعد الحریری کے نام یہ پیغام بھیجا کہ مزاحمتی محاذ فتح یاب ہوگیا ہے، گویا وہ اپنے میزبان (سعد الحریری) سے اعتراف شکست کی دستاویزکا مطالبہ کررہے ہوں۔
خلیجی ممالک ایرانی نظام کے عزائم سے تشویش کا شکار نہیں بلکہ انکے تصرفات سے برآمد ہونے والے خطرناک حالات سے الجھے ہوئے ہیں۔ عرب رہنما شیعہ سنی کشمکش کے نئے بھنور میں جانے سے گریز کررہے ہیں۔ ایران بظاہر فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کے الزام سے دامن بچا رہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ریاض پر حوثیوں کا میزائل حملہ حوثیوں کیلئے خودکشی کا منصوبہ اور سعودی عرب اور امارات کو حوثیوں کے ذریعے دھمکانے والوں کی جانب سے جنگ کے اعلان کے مترادف ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭