Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عابدوں کے سردار ، سیدنا زین العابدینؒ

حضرت علی بن حسین ؒ بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہاء میں سے تھے، کبار صحابہ کرامؓ وتابعین عظامؒ سے کسب فیض کیا
* * * *  مفتی ابوعبید الرحمن عارف محمود۔کراچی* * * *
     جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو اعتدال والا دین قرار دیا ہے ، ایسے ہی امت محمدیہ ،صلوات اللہ وسلامہ علیٰ صاحبہاکو امتِ وسط بنایا ہے او راس کا صحیح اور حقیقی مصداق ہر زمانہ میں اہل سنت ہی رہے ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔
          عقائد، عبادات، معاملات، افکار ونظریات، عصمتِ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، مقام ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، احترامِ سلف صالحین، مجتہدین، محدثین او رعلمائے امت پراعتماد، غرض دین ودنیا کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اہل سنت کو اعتدال کے اعلیٰ مرتبے سے نوازا ہے ۔دوسرا کوئی گروہ اور فرقہ اس صفت میں ان کا شریک نہیں۔ اگرچہ اہل بدعت، زیغ وضلال کے داعی، اسلام کے نام پر اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلانے والے کتنے ہی بناوٹی دعوے اور پروپیگنڈے کرتے رہیں، لیکن یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہے او رخود اہل باطل بھی اس کے معترف ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیروکار اور ’’ما اَنا علیہ واصحابی‘‘ کا یقینی مصداق ہمیشہ اہل سنت ہی رہے ہیں۔
          اسی وسطیت او راعتدال کا نتیجہ ہے کہ اہل سنت فرق مراتب کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ عملی طور سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ، مزید برآں فرق مراتب کا لحاظ نہ رکھنے اور کسی بھی شخصیت کو اس کے مقام سے بڑھا کر پیش کرنے یا اس کی شان میں ادنیٰ درجے کی گستاخی کو علمائے اہل سنت نے زندیقیت سے تعبیر کیا ہے۔
          اہل سنت حضور اکرم    کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اوررسول سمجھتے ہیں۔ آپ کے بعد کسی طرح کے دعوائے نبوت، چاہے ظلی ہو یا بروزی ، یا امامت اہل بیت کے نام سے نبوی صفات سے متصف ائمہ کاا عتقاد رکھنے کو علی الاعلان کفر وزندقہ گردانتے ہیں ، اسی طرح حضور اکرم سے تعلق اور نسبت رکھنے والی ہر شخصیت، چاہے وہ حضراتِ اہل بیت ہوں ، یا صحابہ کی مقدس جماعت، سب کی عزت وعظمت، ان کی محبت واتباع او ران سے تعلق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔
    اہل بیت کے نام  پر گم راہی وزندقہ :
          حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں دشمنان اسلام کا ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جس نے اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے اوراسلامی تعلیمات او رحاملینِ دعوت ِاسلام او ران کی دعوت کو مشکوک بنانے کے لئے ’’ اہل بیت‘‘ کی محبت او ران سے موالات کے خوشنما نعرے کا سہارا لے کر اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف اپنے گھناؤنے منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا، جس کی پھیلائی ہوئی فتنہ انگیزی کی لپیٹ میں آج بھی سارا عالمِ اسلام گھر ہوا نظر آتا ہے۔
          اسلام کے مقابلے میں اہل بیت کے ان مقدس نفوس کی طرف منسوب کرکے ایک نیا دین گھڑا گیا ، سیکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں جعلی روایات واحادیث وضع کرکے ان لوگوں نے ان ائمۂ ہدیٰ کی طرف منسوب کیں حالانکہ اہلِ بیت کے یہ پاک طینت لوگ عقائد وعبادات او رتمام تر دینی ودنیوی معاملات میں ظاہری وباطنی طور سے اہل سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے بلکہ ان جھوٹے او ردجال لوگوں پر واضح نکیر بھی فرمایا کرتے تھے۔
    حضرت زین العابدینؒ  بن سدنا حسین رضی اللہ عنہما:
          اہل بیت کے ان باصفا ائمہ میں سے ایک شخصیت حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ہے، جن کی طرف روافض نے بے انتہا جھوٹی باتیں منسوب کی ہیں اور ان کو اپنے من گھڑت او رمزعومہ نظریے کے مطابق معصوم، مفترض الطاعہ، امام منصوص، محلل ومحرم ، نہ جانے کن کن خدائی، نبوی صفات کے ساتھ متصف کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان سب باتوں سے بری اور اہل سنت کے دیگر ائمۂ ہدیٰ کی طرح ایک جلیل القدر او رعالی مرتبت بزرگ ہیں۔
          آج کی اس تحریر کا مقصد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس جلیل القدر صاحبزادے کا صحیح تعارف او ران کی زندگی کا حقیقی روپ پیش کرنا ہے، جو اہل باطل کے بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔اس مختصر سی یادداشت میں ان شاء اللہ اس کی کوشش ہو گی کہ ان کا تعارف ، مقام و مرتبہ ، طرززندگی ، علمی انتساب ، ان کی نصیحتیں او رخاص کروہ اقوال ذکر کیے جائیں گے جن سے نہ صرف روافض کی تردید ہوتی ہے بلکہ اہل سنت کے معتدل مسلک کی واضح تائید بھی ہوتی ہے۔
    نام ونسب اور تعلیم وتربیت :
           زین العابدین کے لقب سے معروف اس بزرگ کی نسبت خاندانِ نبوت کی طرف ہے۔ یہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ۔علی بن حسین ان کا نام ہے ۔ قرشی اور ہاشمی ہیں ۔ابوالحسن ان کی کنیت ہے۔ ابو الحسن ، ابو محمد اور ابو عبداللہ بھی کہا جاتا ہے(تہذیب الکمال،تہذیب التہذیب ،التاریخ الکبیروغیرہم)۔
          علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ تاریخ اسلام‘‘ میں یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن ’’ سیر اَعلام النبلاء‘‘میں علامہ موصوف نے لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے۔ علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تہذیب الکمال میں یعقوب بن سفیان سے سن پیدائش33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔
          علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے، جو اُس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھیں(سیر اَعلام النبلاء،تہذیب الکمال)۔
     ابن سعد نے’’طبقات‘‘میں ان کا نام ’’ غزالہ‘‘ نقل کیا ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ انکی والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبدالملک کی پھوپی تھیں(سیراعلام النبلاء)لیکن یہ ضعیف قول ہے۔
          اُن کو علی اصغر کہا جاتا ہے۔ ان کے دوسرے بھائی جواُن سے عمر میں بڑے تھے، ان کو علی اکبر کہا جاتا تھا ، جو معرکۂ کربلا میں اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے(تاریخ الاسلام،الطبقات الکبری)۔
    علی اصغر یعنی علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے والد گرامی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ معرکۂ کربلا میں شریک تھے ۔اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی۔ اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو ۔ شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان اللہ! کیا تم ایسے جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمر بن سعد بن ابی وقاص آئے او رانھوں نے کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی اصغر سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا اورعزت کے ساتھ ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا(الطبقات،تاریخ الاسلام،سیر اعلام النبلاء)۔
    تحصیل علم اور علمی مقام:
         حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے کبار صحابہ کرامؓ وتابعین عظامؒ سے کسب فیض کیا۔ آپؒ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہن ، اپنے والد حضرت حسین اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور ابو رافع ، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ ، مروان بن حکم، ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبیداللہ بن ابی رافع رحمہم اللہ وغیرہ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں(تہذیب الکمال،تہذیب التہذیب،المراسیل)۔
          تاریخ ابن عساکرمیں ہے کہ نافع بن جبیر نے حضرت علی بن حسینؒ سے کہا: آپ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ حضرت علی بن حسینؒ نے جواباً فرمایا: میں اُن لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے۔
          ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی بن حسینؒ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم کے لئے ) بیٹھا کرتے تھے۔ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو چھوڑ کربنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔
          ابو نعیم نے ’’ حلیۃ‘‘ میں عبدالرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی بن حسینؒ  مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے تھے۔نافع بن جبیر نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسینؒ نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لئے آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔
          ابن سعد نے ’’ طبقات‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسینؒ او رسلیمان بن یاسرؒ  کو منبر اور روضہ شریف کے درمیان چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے دیکھا۔جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا توحضرت عبداللہ بن ابی سلمہ قرآن پاک کی کوئی سورت تلاوت کرتے ، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔
          علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ سے بہت سارے تابعینِ عظام نے فیض حاصل کیا ہے ۔آپؒ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں ان کے4 بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین ، زید بن علی بن حسین ، عبداللہ بن علی بن حسین ، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری ، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم ، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبیداللہ بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں(تہذیب الکمال، سیر اَعلام النبلاء وغیرہم)۔
     آپ رحمۃ اللہ علیہ سفید رنگ کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب لٹکا دیتے تھے(الطبقات)۔
       ان سب تصریحات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت کے بڑے اور سادات حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاص کر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے علم ِدین حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عام مسلمانوں کا معمول تھا۔ اس سے روافض کے اس زعمِ باطل کی بھی تردید ہوتی ہے کہ اہل بیت کے یہ پاک باز نفوس تحصیل علم میں دوسروں کے محتاج نہیں او ران کے پاس مخصوص علم ہے ، ان کے سوا تمام لوگ انکے محتاج ہیں اور وہ کسی کے محتاج نہیں۔ اس عالمی جھوٹ کی حضرت باقر اور حضرت زین العابدین رحمہم اللہ وغیرہ، علمائے اہل بیت نے نہ صرف زبانی تردید کی ہے بلکہ ان کا عمل بھی ان کی تردید کی واضح دلیل ہے، جیسا کہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے۔
    عبادت گزا روں کی زینت :
          حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے۔ وہ بنی ہاشم کے فقہاء وعابدین میں سے تھے۔ اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں ’’ سید العابدین‘‘ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا۔ان کی اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ’’ زین العابدین‘‘ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا(الثقات)۔
          امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرتِ عبادت کی وجہ سے ’’زین العابدین‘‘ کہا جاتا تھا(تہذیب الکمال،تہذیب التہذیب) ۔
    امام زہری رحمۃ اللہ علیہ علی بن حسینؒ  کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے (حلیۃ الاولیاء)۔
    ابو نعیم نے ’’ حلیۃ ‘‘ میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق تھے۔
          ابن عیینہ نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسینؒ  کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا لیکن وہ بہت کم گو تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں حالانکہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے(تہذیب الکمال، سیر اَعلام النبلاء)۔
          حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ جب نماز کے لئے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ جاتا اور وضو واقامت کے درمیان ان کے بدن پر ایک کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جارہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی اللہ تعالیٰ سے)(الطبقات،تہذیب الکمال)۔
          کسی نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پرہیز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پرہیز گار نہیں پایا(حلیۃ الاولیاء،تہذیب الکمال)۔
    طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے علی بن حسین ؒ  کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ فرمارہے تھے :
    ’’عَبِیْدُکَ بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ بِفِنَائِکَ‘‘(تہذیب الکمال،سیر اَعلام النبلاء )۔
       حضرت طاوسؒ کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے میری مشکل کو آسان فرما دیا(حوالۂ سابق)۔
           ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسینؒ  کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی ، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول اللہ کے فرزند! آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی۔ ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا(تاریخ ابن عساکر،تہذیب الکمال، سیر اعلام النبلاء)۔
          حضرت علی بن حسین ؒ کے فرزندحضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میرے والد ایک رات اور ایک دن میںایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ۔ ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے۔میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ میں نے آپ کی طرح کسی کو اللہ کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں۔ انھوں نے کہا: اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک اللہ کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا ،جس کو چاہیں عذاب دینگے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے(تاریخ ابن عساکر ،تہذیب الکمال)۔
(جاری ہے)

 
 

شیئر: