Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عالمی موسیقی کے گاڈ فادر‘ روی شنکر جن کے دی بیٹلز کے جارج ہیریسن بھی مداح تھے

سال 1999 میں روی شنکر کو انڈیا کے سب سے بڑے شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اُن کو یہ شہرت راتوں رات نہیں ملی تھی بلکہ اس کی وجہ اُن کی طویل تپسیا تھی۔ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز  لڑکپن میں صرف 14 برس کی عمر میں کر دیا تھا جب وہ بڑے بھائی اُدے کے ساتھ رقص کی محفلوں میں شریک ہوا کرتے۔
چار برس یوں ہی گزر گئے مگر وہ مطمئن نہیں تھے، وہ تو ستار بجانا چاہتے تھے چناںچہ وہ ایک پسماندہ گاؤں میں گوشہ نشین ہو کر اپنے گرو سے ستار سیکھنے لگے۔
وہ اگلے سات سال تک روزانہ 14 گھنٹے ستار بجانے کی تربیت لیا کرتے۔ یوں انہوں نے اس عرصہ کے دوران 35 ہزار گھنٹوں سے زیادہ تربیت حاصل کی۔ یہ کسی بھی ہنر میں ماہر ہونے کے لیے درکار 10 ہزار گھنٹوں کی تربیت سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔
یہ کہانی ہے عظیم ستار نواز اور میوزک کمپوزر پنڈت روی شنکر کی جو آج ہی کے روز 7 اپریل 1920 کو دریائے گنگا کے کنارے آباد شہر بنارس (وارانسی) میں ایک بنگالی ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد شیام شنکر چوہدری قانون دان اور سیاست دان تھے جو راجھستان کی شاہی ریاست جھالاواڑ کے دیوان یعنی وزیراعظم رہے۔
روی شنکر کا پیدائشی نام تو رویندر تھا مگر انہوں نے نام کو مختصر کر کے روی کر لیا۔
اُدے شنکر کا گروپ یورپ اور امریکہ میں بھی پرفارم کرتا رہا تو اس وجہ سے نوجوان روی شنکر کے لیے کلاسیکی مغربی موسیقی اور ساز اجنبی نہیں تھے۔ اُن دنوں ہی سال 1934 میں کلکتہ میں موسیقی کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں لیجنڈ اُستاد علاؤالدین خان نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ وہ بنیادی طور پر سرود نواز تھے مگر دیگر ساز بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ لیجنڈ موسیقار استاد علی اکبر خان انہی کے فرزند تھے جنہوں نے اور بہت سی فلموں کے علاوہ بے مثل ہدایت کار ستیہ جیت رے کی شاہکار فلم ’دیوی‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی اور استاد بسم اللہ خان اور روی شنکر کی طرح انڈین کلاسیکی موسیقی کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں اُن کا بھی اہم کردار ہے۔
اُستاد علی اکبر خان اور روی شنکر ابتدا میں ایک ساتھ جگل بندی کیا کرتے۔ بعد ازاں روی شنکر نے لیجنڈ طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کے ساتھ بھی جگل بندی کی جو استاد ذاکر حسین کے والد تھے۔

روی شنکر کی اناپُورنا سے شادی ختم ہوئی تو اُن کی زندگی میں معروف رقاصہ کملا شاستری آئیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ذکر کلکتہ میں ہوئی یادگار میوزک کانفرنس کا ہو رہا تھا، اُن دنوں استاد علاؤ الدین شاہی ریاست مائیہار کے دربار سے وابستہ تھے۔ یہ اب مدھیہ پردیش کا حصہ ہے۔ اُدے یورپ کے دورے کے لیے موسیقار کے طور پر استاد کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے مائیہار کے مہاراجہ سے بات کی۔ وہ رضامند ہو گئے۔ اس سفر کے دوران استاد نوجوان روی کو کلاسیکی موسیقی کی تربیت دیتے رہے۔
یہ دورہ تو مکمل ہو گیا مگر نوجوان روی اب ستار بجانا چاہتے تھے تو وہ مائیہار آ گئے۔ انہوں نے اس دوران مختلف راگوں میں مہارت حاصل کی، موسیقی کے مختلف انداز جیسا کہ دھرپد اور خیال سیکھے اور مختلف کلاسیکی سازوں کے بارے میں گہرائی سے جانا۔ وہ اکثر استاد علاؤالدین خان کے بچوں استاد علی اکبر خان اور اناپُورنا دیوی کے ساتھ ریاضت کیا کرتے تھے۔
اس کہانی میں ڈرامائی موڑ اُس وقت آیا جب روی شنکر نے اپنے استاد کی صاحب زادی انا پُورنا دیوی سے سال 1941 میں شادی کر لی۔ اناپُورنا سوربہار (ستار کی ایک قسم) بجانے میں مہارت رکھتی تھیں مگر انہوں نے روی شنکر کے ساتھ اپنا رشتہ بچانے کے لیے سال 1955 میں پرفارم کرنا چھوڑ دیا۔
انڈین ڈیجیٹل اخبار ’دی پرنٹ‘ کے ایک مضمون کے مطابق’31 دسمبر 1955 کو دنیا نے ایک ایسی فنکارہ کو کھو دیا جو ہندوستانی موسیقی کے منظرنامے میں ’عظیم ترین‘ بن سکتی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے شوہر کو یہ حقیقت برداشت نہیں تھی کہ وہ اُن سے بہتر تھیں۔ اناپُورنا دیوی نے اپنے شوہر ستار نواز پنڈت روی شنکر سے شادی بچانے کے لیے عوامی محفلوں میں پرفارم کرنا چھوڑ دیا۔‘
کہا جاتا ہے کہ سال 1973 میں ریلیز ہونے والی امیتابھ بچن اور جیا بچن کی فلم ’ابھیمان‘ میں اسی موسیقار جوڑے کی ناکام پریم کہانی بیان کی گئی ہے جب کہ فلم کے مصنف نے یہ کہا تھا کہ انہوں نے فلم کی کہانی گلوکار کشور کمار کی حقیقی زندگی سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔

سال 1973 میں ریلیز ہونے والی امیتابھ بچن اور جیا بچن کی فلم ’ابھیمان‘ میں روی شنکر اور اناپورنا کی ناکام پریم کہانی بیان کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے پی)

یہ شادی مگر چل نہیں سکی اور دونوں سال 1967 میں الگ ہو گئے۔ ’دی پرنٹ‘ لکھتا ہے کہ ’روی شنکر اپنی بیوی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے موسیقی میں آگے بڑھنے کے لیے اُن کا استعمال کیا۔ وہ (اناپُورنا) استاد علاؤالدین خان کی بیٹی تھیں جو موسیقی کے بہت سے آلات بجا لیتے تھے (وہ شادی سے قبل روشن آرا خان کے نام سے جانی جاتی تھیں، اور انہوں نے اپنی شادی کے دن ہندو مذہب اختیار کیا) مگر روی شنکر یہ حقیقت برداشت نہ کر پائے کہ وہ ان سے زیادہ سراہی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ استاد (علائوالدین خان) بھی کہا کرتے تھے کہ اناپُورنا دیوی ان کی سب سے قابل شاگرد تھیں، اور یہ دعویٰ ان کے بھائی سرود نواز علی اکبر خان نے بھی بارہا دہرایا۔‘
چناںچہ یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ روی شنکر کو پہلی بار کب ایسا محسوس ہوا کہ اناپُورنا دیوی کو اُن سے زیادہ سراہا جا رہا ہے تو اس کا جواب موسیقارہ پر 2018 میں ریلیز ہوئی دستاویزی فلم ’6-A آکاش گنگا‘ سے مل جاتا ہے۔ دستاویزی فلم میں موسیقی کی استاد شکنتلا نرسیمہان کا انٹرویو بھی شامل ہے جنہوں نے چنائی کی ایک میوزک اکادمی میں موسیقارہ کے آخری میوزک کنسرٹس میں سے ایک میں شرکت کی تھی۔
انہوں نے اس دستاویزی فلم میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ ان سے بازی لے جا رہی تھیں۔ پنڈت جی کوئی راگ بجاتے، تو وہ فوراً اسی راگ کو زیادہ تیزی اور مہارت سے بجا دیتیں جس پر پنڈت جی کی ناگواری صاف نظر آ رہی تھی۔‘
کہا جاتا ہے کہ روی شنکر کی جانب سے پرفارم کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ایک بار سابق انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے ان سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اناپُورنا دیوی نے صرف ایک بار ’دی بیٹلز‘ بینڈ کے جارج ہیریسن کے لیے پرفارمنس دی جس کی وجہ روی شنکر تھے جنہوں نے اس کے لیے اصرار کیا تھا۔
روی شنکر کی اناپُورنا سے شادی ختم ہوئی تو اُن کی زندگی میں معروف رقاصہ کملا شاستری آئیں مگر یہ رشتہ بھی چند برس ہی چل سکا جس کے بعد نیویارک کی کنسرٹ پروموٹر سو جونز کے ساتھ تعلق استوار ہوا جس سے ان کی بیٹی نورہ جونز کی پیدائش ہوئی اور 1981 میں انوشکا کی پیدائش ہوئی، جن کی والدہ سُکانیا راجن تھیں جو روی شنکر کے کنسرٹس میں تانپورہ بجایا کرتی تھیں۔

روی شنکر کو عالمی موسیقی کا ’گاڈ فادر‘ سمجھا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے سو جونز سے اپنا تعلق ختم کر لیا مگر بعد ازاں ان دونوں میں رابطے بحال ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس دوران سُکانیا راجن سے شادی کر لی اور اپنی فنی وراثت اپنی بیٹی انوشکا کو منتقل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2003 میں نورہ جانز کو پانچ گریمی ایوارڈز ملے تھے تو انوشکا بھی اسی سال گریمی کے لیے نامزد ہوئی تھیں۔
اناپُورنا سے روی شنکر کے اکلوتے صاحب زادے شبھندر شنکر نے ستار بجانے کی تربیت اپنے والد اور پھر والدہ سے حاصل کی مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے ستار بجانا چھوڑ دیا اور ایک شراب خانے میں کلرک کی ملازمت کرنے لگے۔ یہ وہ دن تھے جب اُن کے والد موسیقی کے منظرنامے پر حکومت کر رہے تھے۔ شبھندر سال 1992 میں وفات پا گئے تھے اور وہ اپنے والد کے فنی ورثے کو اس طور آگے نہیں بڑھا سکے جس طرح پنڈت کی بیٹیوں نے آگے بڑھایا۔
بات نورہ جانز کی ہو رہی تھی تو ان کے والد سے تعلقات بھی سردمہری کا شکار رہے۔ انہوں نے اپنے والد کی وفات سے کچھ برس قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آج وہ اور ان کے والد کے درمیان تعلقات بہتر ہیں، حالانکہ برسوں تک ان کے درمیان دوری رہی۔ ‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خود کو جزوی طور پر بھی انڈین نہیں سمجھتیں۔
اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘نے نورہ جانز کے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’نورہ کے مطابق، ان کا رشتہ پیچیدہ تھا اور یہ اس وقت ختم ہو گیا تھا جب وہ ابھی بہت چھوٹی تھیں۔ نورہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اپنے والد کے بارے میں بات کریں۔‘
اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’نورہ جب 18 سال کی ہوئیں تو انہوں نے خود سے اپنے والد کو تلاش کیا، جو اُس وقت کیلی فورنیا میں اپنی دوسری بیوی اور بیٹی (انوشکا شنکر) کے ساتھ رہ رہے تھے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے والد سے ناراض تھیں یا ان سے معافی کی توقع رکھتی تھیں تو نورہ نے جواب دیا تھا کہ ’ہو سکتا ہے۔ شاید میں چاہتی تھی کہ وہ معذرت کریں۔‘

سال 1956 روی شنکر کے فنی کیریئر میں فیصلہ کن ثابت ہوا جب انہوں نے آل انڈیا ریڈیو سے استعفیٰ دیا۔ (فوٹو: ویکی پیڈیا) 

روی شنکر کی ذاتی زندگی ڈرامائی رنگ لیے ہوئے تھی تو اُن کی پیشہ ورانہ زندگی بھی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔ وہ استاد علاؤ الدین خان سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ممبئی (اُس وقت بمبئی) منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن میں بطور میوزک کمپوزر شمولیت اختیار کر لی۔
یہ سال 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دھرتی کے لال‘ تھی جس کے گیت ’سارے جہاں سے اچھا‘ کی موسیقی روی شنکر نے کمپوز کی تھی اور اُس وقت وہ صرف 25 برس کے تھے۔ علامہ اقبال کا یہ کلام پہلی بار ہفت روزہ جریدے ’اتحاد‘ میں شائع ہوا تھا جسے علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا بھی تھا جو جلد ہی برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کا نغمہ بن گیا۔
یہ اقبال کے مجموعۂ کلام ’بانگِ درا‘ میں شامل ہے۔
روی شنکر نے کچھ عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا اور مغربی اور کلاسیکی انڈین سازوں کے فیوژن سے جادو تخلیق کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ انہوں نے اس دوران ستیہ جیت رے کی ’آپو ٹرائیولوجی’ کے علاوہ بہت سی ہندی فلموں کی موسیقی بھی کمپوز کی۔
سال 1956 روی شنکر کے فنی کیریئر میں فیصلہ کن ثابت ہوا جب انہوں نے آل انڈیا ریڈیو سے استعفیٰ دیا اور امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وہ اس دوران سامعین کی مختصر تعداد کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ اُن کو انڈیا کی کلاسیکی موسیقی کے بارے میں تعلیم بھی دیتے رہے۔ اس دور میں ہی ان کی پہلی البم ریلیز ہوئی۔
امریکی جریدے ’ٹائم‘ نے اپریل 2016 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’سال 1957 میں جب ٹائم میگزین نے ان کی موسیقی پر امریکی سامعین کے ابتدائی ردعمل پر ایک رپورٹ شائع کی تو وہ پہلے ہی ہندوستان کے سب سے مشہور موسیقار کا مقام حاصل کر چکے تھے۔ جریدے نے ستار کو ایک ایسا کنفیوز کر دینے والا ساز قرار دیا تھا جو ایک بڑے سائز کے گٹار جیسا دِکھتا ہے، اور راگ کی نغمگی کو یوں سمجھانے کی کوشش کی کہ موسیقی کے نوٹس کی انفرادی ترتیب ایک موسیقار سے دوسرے موسیقار تک زبانی طور پر منتقل ہوتی ہے۔‘ ان میں سے ہر راگ کسی انفرادی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے مثلاً سکون، تنہائی، محبت، بہادری اور اسے دن کے ایک مخصوص وقت پر بجانے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔‘
اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ روی شنکر سال 1956 تک عالمی سطح پر غیرمعمولی شہرت حاصل کر چکے تھے۔

روی شنکر 60 کی دہائی کے اختتام تک دنیا کی سب سے مشہور انڈین شخصیت بن چکے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ٹائم‘ مزید لکھتا ہے کہ’ (گٹار اور ستار کی) یہ ’ہلکی سی مشابہت‘ وہ وجہ بنی جس نے شنکر اور ان کے ستار کو جلد ہی امریکہ کے  گھر گھر میں پہچان دلوا دی۔ 1960 کی دہائی کے وسط میں، انہوں نے جدید جاز موسیقاروں میں اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ہندوستانی موسیقی پر چھ ہفتے کا کورس شروع کیا۔ ٹائم میگزین نے سال 1964 میں لکھا کہ ’مقامی جاز موسیقار داخلہ لینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے،‘ اور یہ کہ ’شنکر کی ستار پر مہارت نے پیانو نواز ڈیو بروبیک اور سیکسوفون بجانے والے جان کالٹرین اور بڈ شینک جیسے جاز کے انقلابی فنکاروں کو متاثر کیا۔‘
بڈ شینک نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی شنکر سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ ’سب کہتے ہیں کہ ہماری موسیقی (بندشوں سے) آزاد ہے، لیکن جب اس کا ہندوستانی موسیقی سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت محدود محسوس ہوتی ہے۔ روی جیسے موسیقار کے لیے تو امکانات لامتناہی ہیں۔‘
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ روی شنکر 60 کی دہائی کے اختتام تک دنیا کی سب سے مشہور انڈین  شخصیت بن چکے تھے جس کی ایک وجہ ان کا ’دی بیٹلز‘ بینڈ کے جارج ہیریسن کے ساتھ اشتراک بھی تھا۔ روی شنکر نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بھی مغرب اور مغربی موسیقی کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھی اور امریکی موسیقار فلپ گلاس کے ساتھ اشتراک کیا۔
وہ1986  سے 1992 تک انڈین پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ سال 1999 میں روی شنکر کو انڈیا کے سب سے بڑے شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا۔
روی شنکر اپنی آخری عمر تک اپنے فن سے منسلک رہے۔ انہوں نے چار گریمی ایوارڈ حاصل کیے مگر موسیقی کے لیے ان کی جستجو کا سفر رُکا نہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی 90 ویں سالگرہ پر ’ایسٹ مِیٹس ویسٹ میوزک' کے نام سے اپنا ذاتی میوزک لیبل شروع کیا، جو ان کے ذاتی آرکائیوز میں موجود ریکارڈنگز پر مبنی ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے جب میں ہماری موسیقی کے ساتھ منشیات کی وابستگی دیکھتا ہوں۔ موسیقی ہمارے لیے ایک مذہب کی طرح ہے۔ خدا تک پہنچنے کا سب سے تیز ترین ذریعہ موسیقی ہی تو ہے۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ کسی بری چیز کو موسیقی کے ساتھ جوڑا جائے۔‘
یہ 9 دسمبر 2012 کی ایک سرد شام تھی جب موسیقی کے اس دیوتا کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی تو فوری طور پر سان ڈیاگو کے ایک ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا مگر وہ دو دن بعد 11 دسمبر کو چل بسے۔ یہ اُس موسیقار کی موت تھی جسے جارج ہیریسن نے ’عالمی موسیقی کا گاڈ فادر‘ قرار دیا تھا جن کی انگلیاں جب ستار کی تاروں کو چھوتیں تو ایسی دھن پیدا ہوتی جو سامعین کو سحر زدہ کر دیتی تھی کیوں کہ روی شنکر اور ستار کا ساز ہم معنی ہی تو تھے۔

شیئر: