اﷲ کرے نواز شریف کو کچھ عقل آجائے
لگتا تو نہیں کہ نواز شریف کچھ ہوش کے ناخن لیں گے، جو چال بے ڈھنگی پہلے تھی سو اب بھی ہے بلکہ اُس سے کہیں زیادہ خطرناک۔ پہلے صرف ایک نعرہ تھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ لیکن اب تو ایسا لگتا ہے وہ خودکشی پر آمادہ ہیں۔ چند روز پہلے ایبٹ آباد کے پُرفضا مقام پر ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے سپریم کورٹ کے 5 ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جو کہ کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا۔ یہ کہنا کہ5 لوگ 5 کروڑ کے نمائندے کو نہیں نکال سکتے، سپریم کورٹ کی کھلی توہین تھی۔
ادب و آداب، تمیز و تہذیب سے ہی معاشرے پہچانے جاتے ہیں۔ جس ملک یا معاشرے میں ادب و آداب ختم ہوجائے وہ سماج زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور وقت کے ساتھ مسمار ہوجاتا ہے۔ کوئی معمولی غیر پڑھا لکھا شخص یہ کہتا تو اُسے دیوانہ یا نفسیاتی مریض کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے، لیکن جہاں ایک تعلیم یافتہ شخص جو ملک کے ایک نہیں 3 بار حکمران رہ چکے ہوں، اُن کی زبان سے نکلے ہوئے ایسے الفاظ سم ِقاتل ہوتے ہیں، معاشرے کو لے بیٹھتے ہیں بلکہ اسے صفحۂ ہستی سے مٹا تک دینے کی مثالیں موجود ہیں۔
روم کی ایک مشہور مثال ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا، ہوا کیا؟ سلطنت روم جو اپنے وقت کی نہ صرف سب سے بڑی سلطنت بلکہ ہزاروں سال کی تہذیب کا خزانہ تھا، تاریکیوں میں ڈوب گئی۔
معذرت کے ساتھ نواز شریف پر لگتا ہے ایک جنون سوار ہے۔ وہ خود کو نظریہ کہتے ہیں۔ کاش کوئی اُنہیں یاد دلا دے کہ نظریے معاشرے کیلئے ہوتے ہیں، کسی شخص یا فرد کیلئے نہیں۔ فلسفیوں نے نظریے پیش کیے ہیں، اُن کی تعداد اَن گنت ہے۔ قائداعظم کو لے لیں، ارسطو کو دیکھ لیں، لینن اور مائوزے تُنگ کی مثال لے لیں۔ ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے یا تو دُنیا کو بنایا، نت نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا یا پھر اُسے غرقِ دریا کردیا۔ نظریات میں جان ہوتی ہے تو معاشرے کو بلندیوں تک پہنچادیتا ہے اور نظریات کے پیش کیے جانے والوں کے نام قیامت تک امر ہوجاتے ہیں، لیکن جو نظریے وحشت اور درندگی پر بنائے گئے ہوں وہ قوموں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔
کاش ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بات سمجھ آجاتی۔ وہ تو اب خود کو ایک نظریے کا بانی کہتے ہیں، مجبوراً اور دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، اُن کے ساتھ اُن کی صاحبزادی مریم نواز تو اُن سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ سپریم کورٹ کیخلاف زہر افشانی اُن کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ کوئی نہ کوئی ٹوئٹ کوئی نہ کوئی پیغام سوشل میڈیا پر والد کی حمایت میں ہونا لازمی ہے، لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے ہیںلیکن کوئی کرے بھی تو کیا کرے۔ چاقو، چھریوں سے لڑنا تو عرصہ دراز ہوا متروک ہوچکا، اب تو توپ و تفنگ، مشین گنز اور بزوکا کا زمانہ ہے، ایسے میں کس کی ہمت ہوسکتی ہے کہ زندگی کو ہتھیلی پر رکھ کر تنگ آمد بجنگ آمد پر آمادہ ہو۔
ایک اور بات جو آج ہی میری نظروں سے گزری، وہ تھی نواز شریف کا انتہائی غیر مہذب الفاظ میں تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں مخالفانہ بیان… عمران نے یہ کرادیا، عمران نے وہ کردیا، عمران کو سیاست نہیں آتی، عمران نے سیاست کو بدتمیزی کا جامہ پہنادیا، تہذیب و تمدن دفنا دی گئی۔ سن لیا لیکن بہت دیر تک سوچتا رہا کہ نواز شریف اگر یہ بات نہیں کہتے تو کوئی اور کہتا۔ دودھ کا جلا تو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ نواز شریف عمران خان کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ چیئرمین تحریکِ انصاف نے تن تنہا اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی جنگ لڑی ہے۔ سپریم کورٹ سے لڑائی، افواج پاکستان سے لڑائی اور اب مخالفین سے پنجہ آزمائی، بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے۔
زندگی میں کچھ پانے کیلئے، کچھ حاصل کر نے کیلئے آپ کو ایک لائحہ عمل تیار کرنا پڑتا ہے،پھر عدلیہ کا فیصلہ عوام کیسے پلٹ سکتے ہیں، پھر یہ کہ اگر آپ الیکشن میں پوری قوت سے اُترتے ہیں اور اوپر سے کسی منچلے نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دیدی کہ یہ تو سیاست سے نااہل ہیں تو پھر کیا ہوگا۔ الیکشن ریفارمز بل بھی ردّی کی ٹوکری کی نذر ہوجائے گا، پھر آپ کیا کریں گے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منہ دیکھا کیا کریں گے یا اپنی کم عقلی کا رونا روئیں گے۔
ہوگا یہی۔ زندگی یا قدرت کے اصول کبھی نہیں بدلتے۔ آج میاں صاحب کو معاہدۂ امن و دوستی بھی یاد آرہا ہے جو5 سال پہلے وہ خود دفن کرچکے۔ یہ ساری کی ساری علامات ذہنی پریشانیوں کی نشانیاں ہیں۔ جمہوریت پسند نواز شریف کو پرانے حلیفوں کی یاد کیوں ستانے لگی ہے۔ میاں صاحب ایک غریب ملک کے سربراہِ حکومت رہے ہیں، جہاں بے شمار افراد 2وقت کی روٹی اپنے بچوں کو نہیں کھلا سکتے، لیکن افسوس حکمرانوں کو عیش و عشرت کی زندگی گزارتے شرم نہیں آتی۔ غریبوں کے ہمدرد بنتے ہیں۔ظاہر ہے عوام کو بے وقوف بنانا مقصود ہوتا ہے، ووٹ جو چاہئیں اور پھر اقتدار دَرکار ہوتا ہے، اس کے بعد عوام کو کون پوچھتا ہے۔