کراچی وہ شہر ہے جس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی راز دفن ہیں۔ دن کے اُجالے میں اپنی روشن عمارتوں، مصروف شاہراہوں اور بے ہنگم ٹریفک کے شور میں لپٹا یہ شہر رات کی تاریکی میں ایک الگ ہی کہانی بیان کرتا ہے۔
کہیں روشنیوں کی جھلک تو کہیں ماضی کے نشانات، یہ شہر ہر لمحہ ایک نئی تصویر پیش کرتا ہے۔
لیکن کراچی کے کچھ راز سرِدست زیرِزمین پوشیدہ ہیں۔ شہر کے کچھ بازار ایسے بھی ہیں جو کئی دہائیوں سے سینکڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، مگر بہت سے لوگ ان کے وجود سے بھی بے خبر ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کراچی کی ’حلیم بریانی جو صرف رمضان میں ملتی ہے‘Node ID: 887305
یہ ہیں کراچی کے زیرِ زمین بازار، جو کسی زمانے میں ترقی اور جدت کی علامت سمجھے جاتے تھے مگر آج اپنے وجود کی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔
سب وے مارکیٹ، لیاقت آباد
لیاقت آباد کے بازاروں میں کبھی گاہکوں کا بے پناہ رش ہوتا تھا، یہاں کی مارکیٹیں آج بھی اپنی تاریخی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں کی سب وے مارکیٹ جو لیاقت آباد کے مرکزی بازار کے نیچے آباد ہے، ایک ایسی دنیا ہے جو زمین کے اوپر چلنے والے ہنگام سے بالکل مختلف ہے۔
لیاقت آباد مینار کے قریب ایک چھتری نما گنبد کے نیچے اترتی سیڑھیاں ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتی ہیں۔ باہر گاڑیوں کا شور، دکانداروں کی آوازیں اور بھاگتے دوڑتے لوگ، مگر جیسے ہی آپ زیر زمین مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو ایک الگ ہی منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔
یہاں کپڑوں، جوتوں، بچوں کے کھلونوں، جیولری اور دیگر اشیا کی دکانیں موجود ہیں۔
چار دہائیوں سے اس مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے شاہد لطیف بتاتے ہیں کہ ’یہاں کا کاروبار کبھی بہت چمکتا تھا۔ لوگ یہاں نہ صرف خریداری کے لیے آتے تھے بلکہ سڑک پار کرنے کے بہانے بھی مارکیٹ میں چکر لگا لیتے تھے۔ اب ویسے حالات نہیں رہے، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ گزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مارکیٹ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنائی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ ابتدا میں یہ ایک عام گزرگاہ تھی مگر بعد میں یہاں دکانیں بنا دی گئیں۔ اب یہاں روشنی، ہوا کے نکاس، اور صفائی کے مسائل نمایاں ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں کے دکاندار ہمت نہیں ہارے۔‘
ایک اور تاجر عابد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لیاقت آباد کی یہ زیرِ زمین مارکیٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیرِانتظام ہے، لیکن انتظامیہ اس مارکیٹ پر توجہ نہیں دے رہی۔ اس مارکیٹ کی حالت کو اگر بہتر کرنے پر توجہ دی جائے تو اس سے نہ صرف عوام کو فائدہ پہنچے گا بلکہ شہری حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
سب وے مارکیٹ، رضویہ گولیمار
اگر آپ گولیمار کے قدیم بازاروں کے قریب جائیں تو آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ نیچے ایک الگ ہی دنیا بسی ہوئی ہے۔ یہاں کی سب وے مارکیٹ کا حال لیاقت آباد سے کچھ مختلف ہے۔ جہاں لیاقت آباد کی مارکیٹ اب بھی کسی حد تک متحرک ہے، وہیں گولیمار کی زیر زمین مارکیٹ وقت کے ساتھ ویران ہو چکی ہے۔

یہاں ایک وقت میں کیسٹوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں، جن کا زمانہ ختم ہوا تو ان کی جگہ دیگر کاروباری سرگرمیوں نے لے لی، مگر آج یہاں ویرانی کے سوا کچھ نہیں۔ برتن، پتھر اور درزیوں کی چند دکانیں باقی ہیں، جن کے مالکان دن بھر گاہکوں کے منتظر رہتے ہیں۔
بشیر احمد، جو یہاں پلاسٹک کے برتنوں کا کاروبار کرتے ہیں، تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’یہ بازار ایک زمانے میں بہت مصروف ہوا کرتا تھا مگر اب لوگ اس کا استعمال سڑک پار کرنے کے لیے بھی نہیں کرتے۔ دن میں بھی یہ جگہ سنسان رہتی ہے۔‘
سب وے مارکیٹ، صدر
کراچی میں صدر کا علاقہ جو کبھی شہر کی کاروباری سرگرمیوں کا مرکز تھا، آج بھی اپنی رونق کا کچھ حصہ برقرار رکھے ہوئے ہے مگر اس کے نیچے جی پی او کے قریب ایک ایسی مارکیٹ ہے جو وقت کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکی۔
کہتے ہیں کہ یہ کراچی کی پہلی زیرِ زمین مارکیٹ تھی جو عوام کی سہولت کے لیے بنائی گئی تھی مگر لوگ اسے استعمال کرنے سے کتراتے رہے۔ آہستہ آہستہ یہاں کی رونق بھی ماند پڑ گئی اور اب صرف چند دکانیں باقی رہ گئی ہیں جن میں تحائف اور یادگاری اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔
ارباب خان جو گزشتہ دس سال سے یہاں مہریں اور نیم پلیٹس بنانے کا کام کر رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’یہ مارکیٹ کبھی کراچی کی شان ہوا کرتی تھی، مگر اب لوگ یہاں نہیں آتے۔ جو بھی یہاں آتا ہے، وہ یا تو کسی خاص چیز کی تلاش میں آتا ہے یا پھر محض تجسس میں۔‘

کراچی میں انڈر گراؤنڈ بازار بنانے کا خواب شاید ایک جدید شہر کے تصور کے تحت دیکھا گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خواب ادھورا رہ گیا۔ روشنیوں کے اس شہر میں جہاں نئی بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہیں، وہیں یہ زیرِ زمین مارکیٹیں اپنی شناخت کھوتی جا رہی ہیں۔
آپ اگر کراچی کی قدیم گلیوں سے گزریں، تو وہاں کی دیواروں پر ماضی کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ کبھی یہاں ٹرام چلا کرتی تھی، ان بازاروں میں زندگی ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اگر کوئی ان بازاروں میں جائے تو اس کے ذہن میں ماضی کی جھلک ابھرے گی مگر حقیقت میں وہ سب کہیں کھو چکا ہے۔
اگر کبھی لیاقت آباد، گولیمار یا صدر کے قریب ہوں تو ایک بار ان مارکیٹوں کا رُخ ضرور کریں۔ شاید آپ کو کراچی کا ایک ایسا چہرہ نظر آئے، جو آج کی تیز رفتار زندگی میں کہیں کھو گیا ہے۔