جدہ.... مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرے ۔ اس حوالے سے اس کے کسی بھی اقدام کو پوری قوت سے مسترد کردیا جائے گا۔ مقبوضہ بیت المقدس کی قانونی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہوگی، غیرقانونی ہوگی، بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہوگی۔ او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ نے ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی ان اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا جن میں عندیہ دیا جارہا ہے کہ امریکی انتظامیہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے والی ہے۔ او آئی سی نے توجہ دلائی کہ یہ رجحان سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 478 کے منافی ہے جس میں القدس اپنے سفارتخانے منتقل کرنے والے ممالک سے کہا گیاہے کہ وہ وہاں سے اپنے سفارتخانے ہٹا لیں ۔ او آئی سی نے توجہ دلائی کہ القدس سفارتخانہ منتقل کرنے کے سنگین نتائج خطہ ہی نہیں پوری دنیا بھگتے گی۔ القدس 1967 ءسے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ تمام بین الاقوامی قراردادیں اس بات کی صراحت کئے ہوئے ہیں ، اس حوالے سے 30 دسمبر 2016 ءکو سلامتی کونسل کی آخری قرارداد 2334 جاری کی گئی تھی اور اس میں تمام ممالک سے پرزور اپیل کی گئی تھی کہ وہ 1967 ءسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول القدس اور اسرائیل کے درمیان معاملات میں امتیاز برتیں۔ او آئی سی نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور عرب امن فارمولے کی بنیاد پر دو ریاستی حل فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عالمی مساعی کی تائید و حمایت کرے گی۔ دریں اثناء عرب لیگ نے خبردار کیا ہے کہ تل ابیب سے القدس امریکی سفارتخانے کی منتقلی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔ عرب لیگ نے یہ بیان ان اطلاعات کے تناظر میں جاری کیاہے جن میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ بدھ کے اپنے خطاب میں القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ معاون سیکریٹری جنرل سعید ابو علی نے اتوار کو اعلامیہ جاری کرکے واضح کیا کہ اگر مذکورہ اقدام کیاگیا تو اسے امریکہ کے تاریخی موقف میں بنیادی تبدیلی شمار کیا جائے گا۔ اسے اسرائیل کی مکمل جانبداری ، بین لاقوامی دستاویزات اور قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ، عالمی قانونی قراردادوں کی مسلسل پامالی کی حوصلہ افزائی اور مشرقی القدس سمیت 1967 ء کے فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ جاری رکھنے کیلئے پیٹھ تھپتھپانے کے مترادف مانا جائے گا۔ امریکہ مسئلہ فلسطین کے تصفیہ کا سرپرست ملک ہے ، اس کے اس اقدام کے اثرات خطے کے امن استحکام پر پڑیں گے۔ اس سے نفرت ، دہشت گردی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لہر مضبوط ہوگی۔