نئی دہلی۔۔۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے منگل کو بابری مسجد تنازع پر اپنی سماعت شروع کی جس کے دوران عدالت میں کافی گہماگہمی دیکھی گئی۔ سنی وقف بورڈ کے وکیل کپل سبل نے اس معاملے کی سماعت جولائی 2019 ء میں کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2019 ء میں پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی اس معاملے کی شنوائی کی جانی چاہیئے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کی3 رکنی بنچ جس کی صدارت چیف جسٹس دیپک کمار مشرا کررہے تھے میں دلیل دی کہ ابھی تک کاغذی کارروائی بھی پوری نہیں ہوئی ۔ کورٹ کے فیصلے کا ملک میں بڑا اثر پڑے گا اور معاملے میں عجلت سے کام لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ چیف جسٹس نے کپیل سبل کی اس بات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریق جنوری میں سماعت کیلئے تیار ہوگئے تھے اور اب کہا جارہا ہے کہ جولائی 2019 ء کے بعد شنوائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس دلیل سے عدالت کو دھچکا لگا ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر کی بنچ کے سامنے سنی وقف بورڈ نے دلیل دی کہ موجودہ بنچ 7 ججوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔ کپیل سبل نے کہا کہ حکمراں جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اجودھیا تنازع کو قانون کے اعتبار سے حل کرے گی۔ اگر اس وقت اس مسئلے پر سماعت شروع کی جاتی ہے تو اس کا سیاسی مستقبل پر اثر پڑے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باہر کیا چل رہا ہے اس سے عدالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عدالت میں دونوں فریقوں کے وکلاء کے درمیان تقریباً پونے 2گھنٹے تک زوردار بحث ہوتی رہی ۔مسلم تنظیموں کے وکلاء کا کہنا تھا کہ آخر مقدمے میں عجلت کیوں دکھائی جارہی ہے جبکہ ابھی بہت سی دستاویزات تیار بھی نہیں ہوئیں۔ اسکے بعد بنچ نے واضح کردیا کہ مستقبل میں یہی بنچ مقدمہ کی سماعت کریگی اور ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جائیگا۔ کورٹ نے اگلی سماعت کیلئے 8 فروری 2018 ء کی تاریخ مقرر کردی اور اس مقدمہ سے وابستہ تمام وکلاء سے کہا کہ وہ اس تاریخ کو سماعت کے دوران سبھی دستاویزات پوری کرکے عدالت میں پیش کریں۔