کہاں وہ عالی شان، کہاں یہ بے امان زندگی
کسی کو دولت کے ترازو میں نہیں تولنا چاہئے ، اخلاق پر نظر رہنی چاہئے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
طوفان انسان کے اندر کا ہویا باہر کا، دونوں ہی تباہ کاری کا باعث بنتے ہیں۔ رات بھر برسنے والی بارش صرف وجود کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی جل تھل کر دیتی ہے ۔اس روز بھی بارش تورکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ نایاب نے جب کھڑکی کھول کر باہر گلی میں جھانکا تو ہر طرف کچرا اور گندگی کے سوا اسے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ گلی میں مٹی اور جگہ جگہ پڑے کوڑے کے ڈھیر کی وجہ سے بہت غلیظ بدبو اٹھ رہی تھی۔ اس کی رہائش ایک پسماندہ علاقے میں تھی۔ گو کہ نایاب بہت امیر کبیر باپ کی بیٹی تھی۔ اسٹیٹس کا فرق بھی بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ نایاب اور محسن کا کوئی جوڑا نہیں تھا مگر کہاں نایاب،متمول گھرانے کی ناز و نعم میں پلی لڑکی اور کہاں گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارنے کی کوششوں میں مصروف ایک ادنیٰ سا انسان، محسن ۔ وہ نایاب کے باپ کی کمپنی میں ایماندار ملازم تھا جسے نایاب کے جوہر شناس باپ نے اس کی خوبیاں دیکھتے ہوئے بطور داماد پسند کر لیا لیکن اگر یوںدیکھا جائے تو نایاب اور محسن کے رہن سہن ، اسٹیٹس ، مزاج ، رکھ رکھا¶، برتا¶ سب میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ویسے بھی نایاب کے بارے میں یہ باتیں سننے میں آتی تھیں کہ وہ نہ صرف حسین تھی بلکہ نازک مزاج بھی تھی۔ ایسی باتیں سن کر محسن دبے لفظوں میں اپنی ماں اور بہنوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ طبقاتی فرق بہت اہم ہوتا ہے۔ کیا پتہ وہ ہمارے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال پائے گی یا نہیں مگر اس کی ماں اور بہنوں کو نایاب کے حسن نے اتنا متاثر کر دیا تھا کہ اس کی ایک نہ سنی گئی اور محض چند مہینوں کے اندر اندر ان دونوں کی شادی کر دی گئی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ نایاب سسرال آ کر دل ہی دل میں میکے سے ایک ایک چیز کا موازنہ کیا کرتی تھی، اگرچہ اس نے زبان سے کبھی ا سکا اظہار نہیں کیا۔
وہ زیادہ تر خاموش رہتی مگر اس خاموشی کاکیا فائدہ ہوتا؟کہاں اس کی وہ عالی شان زندگی اور کہاں یہ اس کی بے امان زندگی، کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچتی کہ پتہ نہیں میرے والد کو محسن میں کیا نظر آیا تھا جو انہوں نے اسے اپنی فرزندی میں ہی لے لیا ۔ وہ شاید خود بھی اس بوجھل ، گھٹن زدہ زندگی سے تنگ آ چکی تھی مگر واپسی کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ جب بھی وہ کچھ سوچتی تو اسے اپنے والد کے الفاظ یاد آنے لگتے کہ بیٹیوں کا کام ہوتا ہے والدین کی لاج رکھنا، کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ لوگوں کو تمہارے والدین کی تربیت پر انگلی اٹھانے کا موقع مل جائے ۔ سسرال والے کچھ کہیں تو جواب اور سوال کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ایک چپ میں ہزار سکھ ہیں۔ خاوند کچھ بھی کہے، پلٹ کر جواب کبھی مت دینا۔
نایاب نے اپنے والد کے ہر قول کو اس طرح گرہ میںباندھ لیا کہ ان کو ذہن سے نکلنے ہی نہیں دیا۔ ا سے اچھی طرح علم تھا کہ اس کی ماں اور بہنوں کو محسن بالکل پسند نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ نایاب اپنے میکے میں محض کچن ہی کیا ، ہر طرح کے جھنجٹوں سے آزاد تھی۔ گھر میں نوکروں کی فوج ِ ظفرموج تھی ایسے میں اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی کام کو ہاتھ لگائے مگر سسرال پہنچ کر اس کی یہ آزادی سلب ہو گئی۔ نایاب کے والد نے جب محسن کو اس کے شریک سفر کی حیثیت سے چنا تواس فیصلے سے گھر کا کوئی بھی فردخوش نہیں تھا بلکہ اس کی ماں اور بہنوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مڈل کلاس کے لوگ تو بڑے گھرانوں میں شادی اسی لئے کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں ایک اسٹیٹس حاصل کر سکیں لیکن ا سکے والد نے کہا کہ مجھے جو خوبیاں محسن میں دکھائی دے رہی ہیں، وہ تم لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہیں۔ میں نے اپنی بچی کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ ہر ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لے گی تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔
شادی کے ابتدائی دنوں میں اس کے خوب ناز نخرے اٹھائے گئے مگر پھر آہستہ آہستہ سارے گھر کی ذمہ داری اس کے سر آگئی۔ وہ صبح سے شام تک گھر کے کاموں میں جتی رہتی پھر بھی اس کی ساس کو ہمیشہ اس سے شکایت ہی رہتی اور وہ اپنے بیٹے کو اکثر یہ جتایا کرتیں کہ اتنے برس ہو گئے ہیں تمہاری شادی کو مگر تمہاری بیوی کو ابھی تک کھانا پکانا نہیں آیا۔ ہم چینی کی مورت تو اٹھا لائے مگر اسے نہ سینا پرونا آتا ہے اورنہ گھر گرہستی آتی ہے۔ بہو رانی کو میں اپنے پورے خاندان کی لڑکیوں کو مسترد کر کے بیاہ کر لائی تھی مگر یہ ہماری غلط فہمی تھی کہ یہ ہمارے گھر کے لئے اچھی بہو ثابت ہو گی۔
شادی کے بعد اس کے میکے سے کبھی کبھار ہی کوئی آ تا تھا یہاں تک کہ اس کی والدہ بھی شاذو نادر ہی اس کے سسرال کا رخ کرتی تھیں پھر آہستہ آہستہ نایاب کا میکے جانا بھی بند ہو گیا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ جب بھی وہ وہاں جاتی ہے تو اس کے شوہر کا موڈ کئی کئی دنوں تک خراب رہتاہے ۔ ا س کی والدہ کا رویہ دیگر دامادوں کی نسبت محسن کے ساتھ ٹھیک نہیں رہتاتھا۔ نایاب نے یہ سوچ لیا کہ جہاں میرے شوہر کی عزت نہیں ہوتی، وہاں مجھے نہیں جانا چاہئے۔ اس کی بہنیں تو آنا پسند نہیں کرتیں کیونکہ تنگ گلیوں میں ان کی گاڑیاں خراب ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے او رویسے بھی ان کا کہنا تھا کہ متوسط طبقے کے لوگوں کو دبا کر ہی رکھنا چاہئے۔
ایسے میںدھوپ چھا¶ں جیسے دن گزررہے تھے کہ اچانک اس کی والدہ اس سے ملنے کے لئے آگئیں مگر ان کے رویے میں خاصی تبدیلی نظر آرہی تھی ۔ پہلے جیسا غرور بھی نہیں تھا۔ نہ ہی وہ پسماندہ کالونی میں آکر اپنی توہین محسوس کررہی تھیں بلکہ آس پڑوس کے مکانات کو دیکھ کر خاصی حیران ہو رہی تھیں ۔ ا نہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے گھر کو بھی کافی اچھا کر لیا ہے۔ وہ اپنے داماد کو چپکے چپکے دیکھ رہی تھی۔ ان کی دھیمی دھیمی مسکراہٹ یہ بتانے کیلئے کافی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو سکھی دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔ تمیز دار شوہر، مہذب بچے اور پھر سادہ سا گھرانہ۔ انہوں نے دل ہی دل میں اپنے بڑے دامادوں کا موازنہ کیا جن کے پاس تو اتنی فرصت بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے تھوڑا سا وقت ہی نکال لیتے مگر محسن اپنے بچوں کے لئے وقت ضرور نکالتاتھا۔ وہ ان کی پڑھائی پر توجہ دیتا اور انہیں باہر گھمانے پھرانے کے لئے بھی لے جاتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر انہیں بہت اچھا لگا ۔انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ تمہارے پاپا واقعی کوئی جوہری تھے ۔ انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی تمہاری شادی محسن سے کی ورنہ ہم سب تو اسے کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ایک نایاب ہیرا ہے جسے ہم سب سمجھ نہیں سکے۔ ہمیں معاف کر دینا بیٹی ۔
سچ ہے کسی کو دولت کے ترازو میں نہیں تولنا چاہئے بلکہ اس کے علم و ہنر اور سے بڑی بات، اس کے اخلاق و کردار پر نظر رہنی چاہئے۔ اگر کسی انسان کے پاس دولت بے انتہا ہے مگر وہ اخلاق و کردار سے عاری ہے تو حقیقتاً ایک کوڑی کا نہیں کیونکہ دولت تو آنی جانی چیز ہوتی ہے۔ یہ تو رب کریم کی عطا ہے، جس کو چاہے بے انتہا دولت عطا فرما دے اور جس کو چاہے دو وقت کی روٹی کا محتاج کر دے ۔