ہمارے غریبوں کو بیماری بھی مہنگی پڑ تی ہے
کروڑوں عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو سب سے پہلے بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہیں تا کہ ان کے عوام کی زندگی پرسکون ہو اور وہ سکھ چین سے زندگی کے ہر معاملے میں نبرد آزمائی کر سکیں لیکن بدقسمتی سے آج 70برس گزار جانے کے بعد بھی پاکستانی عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ ایک طرف تو علاج معالجے کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام اپنی حالت زار پر آنسو ہی بہا رہے ہیں تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کروڑوں عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ۔نہ رہنے کے لئے ہی کوئی محفوظ جگہ ہے او رنہ ہی ان کے سروں پرکوئی چھت ہے لیکن اس کے برعکس جب ہم اپنے صاحبان اختیار کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک شاید غریبوں کے لئے بنا ہی نہیں تھا بلکہ یہ تو اشرافیہ کے لئے بنا تھا ۔اس ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر دکھائی دیتی ہے اور رہا غریب تووہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں لیکن اشرافیہ کو ملک میں آٹے اور چاول کا بھاﺅبھی پتہ نہیںہوتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں خوشحالی اور ترقی اس وقت آتی ہے جب بہترین نظام قائم ہو ،صرف افسران کے تبادلوں سے ملک میں ترقی و خوشحالی کا پہیہ نہیں گھومتا بلکہ عوام کو ہر طرح کی سہولت میسرتو اسے ترقی و خوشحالی کہا جا سکتا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کو پینے کے لئے صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ صحت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ہر جگہ ایک شرمناک سی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ جگہ جگہ اسپتال تو کھڑے نظرآتے ہیں مگر ان میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں جس کے باعث مریضوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اسی صورتحال میں کئی مریض اپنی جانوں کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔وطن عزیز میں اربوں روپے کی لاگت سے میٹرو منصوبے تو تیار کئے جا سکتے ہیں مگر صحت کی طرف توجہ دینا مشکل ہے ،آخر ایسا کیوںہے؟
اگر ہم سرکاری اسپتالوں کا جائزہ لیں تو بنیادی سہولتوں کا فقداد دکھائی دے گا۔ ملک بھر میں شاید ہی ایسا کوئی سرکاری اسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل عزت و احترام کے ساتھ علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ ہمارے ملک میں اسپتالوں کا جو حال ہے اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ علاج معالجے کے لئے ایک غریب کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے۔ سرکاری اسپتال میں مریضوں کی خواری روز کا معمول ہے ۔ وہاں لمبی لمبی قطاروں میں مریضوں کو کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لوگ علاج معالجے کے لئے طویل انتظار کرتے ہیں اور ان میں سے کتنے ہی درد اورتکلیف سے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیںمگر ان کی باری نہیں آپاتی۔اسی لئے سرکاری اسپتالوں کے گارڈز اور ڈاکٹروں کا آئے دن مریضوں کے ساتھ بُرا رویہ اور یہاں تک کہ مار پیٹ کے واقعات معمول بن چکے ہیں اور اکثر لوگ تو اب ان گارڈز کو بطور رشوت پیسے وغیرہ دیتے ہیں تا کہ ان کی باری جلد آئے جب اتنے سارے مریض ہوں گے تو ڈاکٹرز بھی مریضوں پر کم ہی توجہ دے پاتے ہیں۔
صحت کی سہولتیں بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں چنانچہ ہر شہری کو صحت کی سہولتوں کی مفت فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ انتہائی بدترین حالت میں موجودہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت تو ہم سب کے سامنے ہے لہٰذا ہمارے ملک کے 60فیصد لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور نجی اسپتال بھی خدمت کے نام پر صرف اور صرف ہم سے لوٹ مار کرتے ہیں۔ کبھی فالو اپ کے نام پر ہرہفتے چکر لگوا کر ہماری جیبیں خالی کرواتے ہیں تو کبھی کسی نہ کسی ٹیسٹ کے نام پر ہم سے پیسے اینٹھ لیتے ہیں لیکن انسان مرتا کیا نہ کرتاکے مصداق سب کچھ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب سرکاری اسپتالوں میں کوئی شنوائی نہیںہوتی تو وہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں راولپنڈی کے سرکاری اسپتال بی بی ایچ کا او پی ڈی دکھایاگیا ہے جہاں مریضوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ ایسے مناظر ہمیں اکثر و بیشتر ملک کے مختلف اسپتالوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نجانے ہمارے عوام صحت کی سہولتوں کو کب تک ترستے رہیں گے ۔ دیکھا جائے تو عوام کو تحفظ دینے کے بعد صحت عامہ اور تعلیم ریاست کی بنیادی ذمہ داری شمار کی جاتی ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہمارے صاحبان اختیار ان معاملات میں کامیاب نہیں ہوپا ر ہے۔ آج کا پاکستان ماضی کے پاکستان سے کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ جب نیا نیا ملک وجود میں آیا تھا ، اس وقت بھی لوگوں کے پاس نہ صحت کی سہولتیں تھیں اور نہ ہی تعلیم کی سہولتیں دستیاب تھیں۔ غریبوں کے سر پربھی کوئی چھت نہیں تھی مگر افسوس آج بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں،غریب نے چارہ غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اسپتالوں میں غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، بے چاروں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ذرا سی تکلیف کے لئے بھی لمبی لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا ہے اور ہفتوں اسپتال کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں ، اس کے بعد ہی ان کی باری آتی ہے۔ دوا بھی ان کو اسپتال سے میسر نہیں آتی بلکہ انہیں خود خریدنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاںغریبوں کو بیماری بھی بہت مہنگی پڑ جاتی ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کیلئے بیماری ایک عذاب بن جاتی ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر آتی ہو۔ اس ملک میں اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتے ہیں، نجانے وہ رقم کہاں جاتی ہے۔ ہر علاقے کے منتخب نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز کے طور پر رقوم ملتی ہوں گی ۔ نجانے وہ پیسے کہاں چلے جاتے ہیں۔ ترقی تو کسی بھی علاقے میں دکھائی نہیں دیتی ۔ ہر شہر ، ہر گاوں ، ہر قصبہ، سب جگہ وہی حال ،نہ کوئی ڈھنگ کا اسکول ہے ،نہ کوئی اسپتال ہے او رنہ رہنے کے لئے چہار دیواری۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈ ز ملتے توہیں مگر وہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں اس لئے ایک ہزار میں سے 70تا 75بچے 5سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صفائی اور صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان اور تعلیم سے آگاہی نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے او رپھر پسماندہ علاقوں میں غریب لوگوںکا علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہ رکھنا او رنومولود بچوں کی بیماریوں کا نیم حکیم سے علاج کروانے کا رجحان پاکستان میں چھوٹے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہونے کی بڑی وجوہ میں شامل ہے ۔ غریبوں کے لئے جو سہولتیں ہونی چاہئے تھیں وہ ان کو نہیں مل رہیں۔ مثال کے طور پر غریبوں کے علاقوں میں ا کثر کوئی کلینک ہوتا ہے نہ اسپتال۔ جن کے پاس دولت ہے وہ ملک میں اپنا علاج کروانا پسند نہیں کرتے بلکہ انہیں چھینک بھی آجائے تو بیرون ملک چلے جا تے ہیں لیکن غریب بے چارے جائیں تو جائیں کہاں؟ کس کے در پر اپنی فریاد لے کر جائیں۔ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کردنیا سے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ حکومت ان فضول قسم کے ترقیاتی منصوبوں کوچھوڑ کر غریبوں کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا کرتی جن میں پینے کا صاف پانی ہو او رہر علاقے میں بڑے بڑے سرکاری اسپتال جہاں غریب اپنا علاج مفت کروا سکیں جہاں دوا وغیرہ مفت مہیا کی جاتی ہوں۔ حکومت کویہ کام ہنگامی بنیادوں پر کرنے چاہئیں اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی تو غریبوں کا پرسان حال کون ہو گا؟ایسا نہ ہوا تو غریب اٹھ کھڑے ہوں گے او راپنے حق کے لئے آواز اٹھانا شروع کردیں گے ۔ صاحبان کو سمجھنا چاہئے۔