Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیرت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام

   
 لڑکیاں مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف نہیں کی جاتی تھیں ،یہ پہلا موقع تھا کہ لڑکے کے بجائے لڑکی کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا
* * *عبدالمنان معاویہ ۔لیاقت پور،پاکستان* * *
سید ہ مریم علیہا السلام کے شجرہ نسب کے بارے میں ابوالقاسم ابن عساکر فرماتے ہیں :
    مریم بنت عمران بن ماثان بن العازر بن الیود بن اخنز بن صادق بن عیازوز بن الیاقیم بن ایبودبن زریابیل بن شالتال بن یو حینا بن برشابن امون بن میشا بن حزقیا بن احاز بن موثام بن عزریا بن یورام بن یوشافاط بن ایشابن ایبا بن رجسعام بن سلیمان بن دائود علیہم السلام ‘‘۔
    محمد بن اسحاق فرماتے ہیں :
    ’’مریم بنت عمران بن ہاشم بن امون میشا بن حزقیا بن احریق بن موثم بن عزاز با بن امصیا بن یاوش بن احریہو بن یازم بن یہفاشاط بن اشیا بن ایان بن رجسعام بن دائود ‘‘(قصص الانبیاء ،ازامام ابوالفداء ابن کثیر الدمشقی) ۔
    حضرت عمران سلیمان علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اُن کی اہلیہ بی بی حنّہ دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔حضرت عمران بنی اسرائیل میں بڑے عابد وزاہد مشہور تھے ،اسی لئے مسجد اقصیٰ کی امامت لوگوں نے آپ کے سپرد کی ہوئی تھی اور بی بی حنّہ بھی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون تھیں ،اس لئے یہ میاں بیوی بنی اسرائیل میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے لیکن بی بی حنّہ کے کوئی اولاد نہ تھی ۔فطری تقاضے کی تحت انہیں اولاد کی خواہش بہت زیادہ تھی ۔وہ اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دُعا اکثر وبیشتر کرتی رہتی تھیں ۔مولانا عبدالرحمن مظاہری ؒ لکھتے ہیں:کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حنّہ اپنے مکان کے صحن میں چہل قدمی کررہی تھیں ،دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچے کو بَھرَّا رہا ہے اور محبت وپیار سے اس کو چوم رہا ہے ۔پیار ومحبت کے اس منظر نے حضرت حنّہ کو بہت ہی متاثر کیا اولاد کی تمنا نے دل کو مزید بیقرار کردیا ۔حالتِ اضطراب میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے ،عرض کیا: پروردِگار ! اسی طرح مجھ کو بھی اولاد عطا کر جو ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنے۔بیقراروں کی دُعا نے قبولیت کا جامہ پہنا اور حضرت حنّہ نے چند روز بعد محسوس کیا کہ وہ پُر امید ہیں ۔حضرت حنّہ کو اس احساس سے اس درجہ مسّرت ہوئی کہ انہوں نے نذر مان لی کہ جو بچہ پیدا ہوگا ،اس کو ہیکل (مسجد اقصیٰ ) کی خدمت کے لئے وقف کردوں گی ۔
    بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران کی بیوی حضرت حنّہ کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور وہ مسرت وشادمانی کے ساتھ امید بَر آنے کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔حضرت حنّہ کی مدت ِحمل جب پوری ہوگئی تو ولادت کا وقت آپہنچا ۔ولادت کے بعد حضرت حنّہ کو اطلاع دی گئی کہ ان کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی ہے ۔ جہاں تک اولاد کا تعلق ہے حضرت حنّہ کے لئے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر اُن کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ پوری نہ ہوسکے گی ،کیونکہ لڑکی مسجد اقصیٰ کی خدمت کیونکر انجام دے گی ،یہ کام تو مرد ہی انجام دے سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بطور الہام یا ہاتف ِ غیبی ،اُن کے افسوس کو مسرت سے یہ کہہ کر بدل دیا کہ :ہم نے تیری لڑکی ہی کو قبول کرلیا ہے اور اسکی وجہ سے تیرا خاندان اور بھی معزز اور مبارک قرار پائے گا ۔
     حضرت حنّہ نے لڑکی کا نام مریم رکھا اور دُعا کی :اے پروردِگار !اِس کو اور اس کی اولاد کو شیطان کے ہر فتنہ سے محفوظ فرما۔
    سریانی زبان میں مریم کے معنیٰ ’’خادم‘‘ کے ہیں ۔چونکہ یہ مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کردی گئی تھیں اس لئے یہ نام موزوں سمجھا گیا ۔بعض کہتے ہیں کہ مریم کے معنیٰ ’’بلند ‘‘ اور ’’عبادت گزار‘‘ کے ہیں ۔بشر بن اسحٰق کہتے ہیں کہ سیّدہ حنّہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ اُن کے شوہر حضرت عمران کا انتقال ہوگیا تھا (فتح الباری) ۔
    بعض دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ سیدہ مریم ابھی شیر خوار ہی تھیں کہ باپ کا انتقال ہوگیا (سیرت انبیائے کرام) ۔
    اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل ہی اس خاندان کو قدرت الہٰیہ نے ایسے خصائص سے نوازا جودیگر خاندانوں میں مفقود تھے ،جیسا کہ مسجد کی خدمت مرد کرتے تھے ،لیکن اس خاندان سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو مسجد کی خدمت کے لئے چن لیا ۔ علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ ان کی ماںنے جب اُن کو جنم دیا تو انہیں کپڑوں میں لپیٹ کر مسجد بیت المقدس لے گئیں،اور بندوں کے حوالے کردیا جووہاں عبادت الہٰی اور خدمت مسجد وغیرہ کیلئے ہمیشہ وقف ومقیم رہتے تھے ۔ یہ بچی چونکہ اُن کے امام وپیشواکی بیٹی تھی لہٰذا اسکے متعلق سب جھگڑے کہ میں اس کاکفیل بنوں گا ،تو اگرچہ مفسرین نے اسی طرح ذکر کیا ہے ،مگر ظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ اُم مریم نے مریم کو دودھ پلانے کے زمانے کے بعد اور بچپن کی پرورش کے بعد اُ ن لوگوں کے حوالے کیا ہوگا۔ خیر اُم مریم نے مریم کو اُن کے حوالے کردیا تو اس بات پر جھگڑا ہوا کہ کون اس کی پرورش وکفالت کرے ،ہر کوئی حریص تھاکہ میں تنہا اس کی کفالت وپرورش کی ذمہ داری اٹھائوں۔حضرت زکریا  ؑ اُس زمانے میں پیغمبر بھی تھے،اور مزید برآں وہ بچی کے بہنوئی یا خالو بھی تھے ،تو اس لئے ان کی خواہش وکوشش تھی کہ میں اس کا حقدار بنوں ،مگر لوگ آپؑ پر مصر ہوئے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں ،اور آپ بھی قرعہ اندازی میں شریک ہوں ،تو آخر کار سب قرعہ اندازی پر متفق ہوئے اور تقدیر وقسمت نے حضرت زکریا  ؑکی یاوری کی اور ان کے نام سے قرعہ نکل گیا اور چونکہ خالہ’’ ماں‘‘ کی طرح ہوتی ہے اس لئے بہتر ہوا ،اللہ عزّ وجل فرماتے ہیں اور زکریا اسکے کفیل بنے(قصص الانبیاء)۔
    محقق عالم دین حضرت مولانا محمد عبدالرحمن ؒ لکھتے ہیں کہ :حضرت زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم کے لئے مسجد کا ایک محراب (حجرہ ) منتخب کیا اور اس میں ان کا قیا م طے پایا ۔گزشتہ زمانے میں گرجائوں اور کلیسائوں میں عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطح زمین سے کچھ بلندی پر حُجرے بنائے جاتے تھے ،جن میں عبادت گاہ کے منتظمین خدام اور معتکف حضرات رہا کرتے تھے ،انہیں محراب کہا جاتا تھا اسی قسم کے کمروں میں سے ایک میں سیدہ مریم بھی معتکف تھیں۔وہ تمام دن عبادت الہٰی میں مشغول رہتیں ،رات کو حضرت زکریا علیہ السلام انہیں اپنے گھر لاتے اور وہ اپنی خالہ کے گھر رات بسر کرتیں (روح المعانی، سیرت انبیائے کرام )۔  
    علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :جب بھی سیدنازکریا  ؑ سیدہ مریم کے محراب میں داخل ہوتے تو ان کے پاس رزق پاتے ،تو پوچھتے: اے مریم ! یہ کہاں سے آیا ؟تو وہ کہتیں: اللہ کی طرف سے ہے ،بے شک اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت زکریا  ؑ نے مسجد کی ایک اچھی جگہ ان کے لئے بنادی تھی ،جس میں کوئی اور مریم کے سوا داخل نہ ہوسکتا تھا۔آپ اس میں خدا کی عبادت میں مصروف رہتیں اور باقی جب مکان کی دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی تو اس کو درست کرتیں ،بقیہ اوقات عبادت الہٰی میں مشغول رہتیں ،حتیٰ کہ لوگوں میں آپ کی کثرت ِعبادت مشہور ہوگئی ،اور آپ کے احوال اور عمدہ صفات وکرامتوں کا بھی لوگوں میں چرچا ہونے لگا ۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت زکریا  ؑ جب بھی ان کے حجرے میں تشریف لے جاتے تو وہاں عجیب وغریب میوے اور دوسرے رزق پاتے ،سردیوں میں گرمی کے پھل اور گرمیوں میں سردی کے پھل پاتے ،تو آپ پوچھتے اے مریم ! یہ کہاں سے آیا؟تو وہ کہتیں: اللہ کی طرف سے ،بے شک اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے ،تو ایسے موقعے پر حضرت زکریا  ؑ کے دل میں اپنی صلبی اولا د کی خواہش نے جنم لیا اگرچہ آپؑ انتہائی بوڑھے اور ضعیف ہوچکے تھے ،توتب فرمان الہٰی ہے کہ زکریا ؑ نے کہا : اے پروردِگار مجھے بھی اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد دے ،بے شک آپ دعا قبول کرنے والے ہیں ۔بعض مفسرین فرماتے ہیں :آپ ؑ نے یوں دعا کی :اے وہ ذا ت جو مریم کو غیر موسمی پھل و رزق عطا کرتی ہے !تو مجھے بھی اولادسے نواز اگرچہ اس کا زمانہ نہیں (قصص الانبیاء)۔
    سیدنا زکریاؑ کے بارے میں انجیل کے بیانات :
    انجیل لوقا باب 1 میں ہے : ایک دن بیت المقدس میں ابیاہ کے گروہ کی باری تھی اور زکریا خدا کے حضور اپنی خدمت سرنجام دے رہے تھا ۔دستور کے مطابق انہوںنے قرعہ ڈالا تاکہ معلوم کریں کہ رب کے مقدس میں جاکر بخور کی قربانی کون جلائے ،زکریاہ کو چنا گیا ،جب وہ مقررہ وقت پر بخور جلانے کیلئے بیت المقدس میں داخل ہوا تو جمع ہونے والے تمام پرستار صحن میں دُعا کررہے تھے ،اچانک رب کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا جو بخور جلانے کی قربان گاہ کے داہنی طرف کھڑا تھا ،اُسے دیکھ کر زکریا گھبرا یا اور بہت ڈر گیا ،فرشتے نے اس سے کہا :زکریا ،مت ڈر ! خدا نے تیری دُعا سن لی ،تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہوگا ،اُس کا نام یحییٰ رکھنا ،وہ نہ صرف تیرے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہوگا، بلکہ بہت سے لوگ اُس کی پیدائش پر خوشی منائینگے کیونکہ وہ رب کے نزدیک عظیم ہوگا ،لازم ہے کہ وہ مے اور شراب سے پرہیز کرے ۔وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی روح القدس سے معمور ہوگا اور اسرائیلی قوم میں سے بہتوں کو رب اُن کے خدا کے پاس واپس لائیگا۔
    آگے لکھا ہے : زکریانے فرشتے سے پوچھا :مَیں کس طرح جانوں کہ یہ بات سچ ہے ،مَیں خود بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی عمر رسیدہ ہے ۔فرشتے نے جواب دیا:میں جبرائیل ہوں، خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں ۔مجھے اسی مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تجھے یہ خوش خبری سنائوں۔
سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں انجیل کے بیانات:
    انجیل لوقاباب1 میں ہے : الیشبع(حضرت زکریا  ؑ کی بیوی)6 ماہ سے امید سے تھی ،جب خدا نے جبرائیل فرشتے کو ایک کنواری کے پاس بھیجا جو ناصرت میں رہتی تھی(ناصرت گلیل کاایک شہر ہے اور کنواری کانام مریم تھا )اُسکی منگنی ایک مرد کے ساتھ ہوچکی تھی جو دائود بادشاہ کی نسل سے تھا اور جس کانام یوسف تھا ۔فرشتے نے اسکے پاس آکر کہا :اے خاتون جس پر رب کا خاص فضل ہوا ،سلام ! رب تیرے ساتھ ہے ۔مریم یہ سن کر گھبرا گئی اور سوچا :یہ کس طرح کاسلام ہے ؟لیکن فرشتے نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا:اے مریم !مت ڈر ،کیونکہ تجھ پر خدا کا فضل ہو اہے ،تُوامید سے ہوکر ایک بیٹے کو جنم دیگی ،تجھے اُس کا نام عیسیٰ (نجات دینے والا) رکھنا ہے (آیت:26تا 31 )۔
    آگے انجیل میں مرقوم ہے :مریم نے فرشتے سے کہا :یہ کیونکر ہوسکتا ہے ؟ابھی تومَیں کنواری ہوں۔
    فرشتے نے جواب دیا :روح القدس تجھ پر نازل ہوگا ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر چھا جائے گا اس لئے یہ بچہ قدوس ہوگا اور دیکھ تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بیٹا ہوگا حالانکہ وہ عمر رسیدہ ہے ،گو اُسے بانجھ قرار دیا گیا تھا ، لیکن وہ6 ماہ سے امید سے ہے ،کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی کام ناممکن نہیں ۔مریم نے جواب دیا:میں رب کی خدمت کے لئے حاضر ہوں ،میرے ساتھ ویسا ہی ہو جیسا آپ نے کہا ۔اس پر فرشتہ چلاگیا۔
  یدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں قادیانی نظریات:
    قرآن حکیم کی آیاتِ مقدسہ میں آپ نے ملاحظہ فرمالیا اور آپ یہ جان چکے ہونگے کہ دین اسلام میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کوبلند مرتبت خاتون صرف سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ بات اسلامی عقائد میں شامل ہے۔جہاں تک بات ہے انجیل کی تو انجیل میں چونکہ تحریف در تحریف واقع ہوئی ہے اس لئے انجیل پر 100فیصد اعتماد نہیں کیا جاسکتا ،لیکن انجیل کی وہ عبارات جو اسلامی عقائد کے موافق ہیں اور اسلامی عقائد سے متصادم نہیں ہم نے صرف وہی درج کیے ہیں لیکن اگر کوئی ایسی بات جو اسلامی عقائد سے منافی ہے تو وہ ’’نقل کفر کفر نباشد ‘‘کے تحت پڑھیے گا ۔ایک بات ذہن نشین رہے کہ انجیل میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں وہ ادب واحترا م مفقودہے جس کی تعلیمات دین اسلام دیتا ہے ۔
     سیدہ مریم کے بارے میں دورِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ’’مرزائیت‘‘ کے نظریات بھی ملاحظہ فرمالیجئے ،جوکہ خود کو صحیح وسچے اسلام (Real True Islam ) کے وارث قرار دیتے ہیں،تاکہ ایک مذہبی مصلح موعود؍مسیح موعود،مہدیت اور کرشن اوتار ہونے کے مدعی کی بدزبانی کے شہ کار آپ کے سامنے آئیں۔مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں،یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی(حاشیہ کشتی نوح:20،مندرجہ روحانی خزائن :19,18)۔
    مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے:پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں ۔
    مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلاتکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتیں ہیں،حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں یہ مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حدسے زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے حمل بھی ہوجاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہوجاتا ہے ‘‘۔(ایام الصلح ،مندرج روحانی خزائن )
    مرزا قادیانی نے درج بالا عبارات سے بڑھ کر گستاخانہ عبارت لکھی وہ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر ملاحظہ فرمائیے:۔’’ مریم کو ہیکل کی نذر کردیا گیا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو ،اورتمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایا ں ہوگیا،تب حمل ہی کی حالت میں قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کردیا ،اس کے گھرجاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا ،وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا‘‘۔(چشمہ مسیحی ،مندرج روحانی خزائن)
       یہاں تک آپ نے سیدہ مریم علیہاالسلام کے حالات پڑھے جن سے چند نکات معلوم ہوئے کہ:۔
    ٭  سیدہ مریم علیہا السلام کی ولادت سے قبل اُن کی والدہ نے بیٹے کی نذر مانی ،تاکہ بیٹے کے پیدائش کے بعد اُسے مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کیا جائے ۔ بیٹے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹی عطافرما کر الہٰام کیا کہ اسے ہی مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کردو ،جب کہ اس سے قبل لڑکیاں مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف نہیں کی جاتی تھی ،یہ پہلا موقع تھا کہ لڑکے کے بجائے لڑکی کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا اور بنی اسرائیل کے راہبوں نے اسے قبول کیا ۔اور صرف قبول ہی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری نبھانے کے لئے آپس میں جھگڑا کیا ،قرعہ اندازی کی گئی اور قرعہ فال حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا ۔
    ٭  حضرت زکریا علیہ السلام جب بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے پاس جاتے ،تو غیر موسمی وتازہ پھل پڑے ہوتے ،حضرت زکریا  ؑ کے استفسارپر سیدہ مریم علیہا السلام نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں عطاکیے جاتے ہیں۔اِن غیر موسمی پھلوں کے دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام نے سنِ کہولت کے باوجود اپنے لئے حق تعالیٰ سے اولاد کی دُعا کی ،جسے بارگاہِ ایزدی سے شرفِ قبولیت سے نوازا گیا۔
    ٭دین اسلام میں سیدنا عیسیٰؑ کی والدہ محترمہ کو ’’صدیقہ ،ولیہ سیدۃ نساء العالمین‘‘وغیرہ جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔
    ٭  جبکہ ایسا مقام ومرتبہ عیسائیت جو ان کا نام لیتی ہے اُن کے ہاں بھی نہیں ۔
    ٭  مرزا غلام احمد قادیانی نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا پر ’’حمل قبل ازنکاح۔ان کے لئے منسوب تراشنااور منسوب کے ساتھ گھومنا،پھرنا ۔حمل قبل از نکاح کی وجہ سے ہی بزرگوں نے یوسف نجازسیدہ مریم سلام اللہ علیہا کی شادی کردی‘‘۔اس قسم کی ہفوات بکی ہے جو کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ۔اور نہایت گستاخانہ عبارات ہیں ۔
    ٭ اہل اسلام کے ہاں جس طرح نبی کریم کی گستاخی ناقابل معافی جرم ہے اسی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات اور قرآنی شخصیات کی گستاخی بھی ناقابل معافی جرم ہے ۔
    درج بالا سارے واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا اللہ تبارک وتعالیٰ کی برگزیدہ خاتون تھیں اور پاکدامن تھیں ،اُن کو خدا وند قدوس نے اپنے رسول سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بنانے کے لئے چن لیا تھا اور قرآن کریم واحادیث صحیحہ کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ہی اُن کے خاندان سے مافوق الفطرت واقعات ظہورپذیر ہونے شروع ہوگئے تھے ۔جو قوانین الہٰیہ کے برعکس تھے اوران واقعات میں قدرت ِالہٰیہ کا ظہور تھا۔

شیئر: