Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عقل کے خوشے

***جاوید اقبال***
کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی ملک نے یروشلم پر ان کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ میں لائی جانے والی قرار داد کے حق میں رائے دی تو وہ اس ملک کی امداد بند کردیں گے۔تبھی مجھے شکاگو کی ایک سہ پہر یاد آگئی۔ میں وہاں اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لیے گیا تھا۔ اس کا باپ نائیجیریا کا تھا۔ ماں چینی تھی۔ دونوں کی ملاقات ہانگ کانگ میں ہوئی اور وہیں رشتہء ازدواج میں بندھ گئے۔ پہلے بچے کا نام ڈیوڈ رکھا اور پھر دونوں کراچی آگئے۔ زیادہ دیر نبھ نہ سکی ، چنانچہ علیحدگی ہوئی۔ ماں بچے کو کراچی میں باپ کے حوالے کرکے ہانگ کانگ لوٹ گئی۔ ڈیوڈ کراچی اور کوئٹہ کے تعلیمی اداروں میں تنہائی کا عذاب کاٹتا رہا۔ بالغ ہوا تو باپ اسے حالات کے حوالے کرکے نائیجیریا لوٹ گیا۔ بچہ ساحلوں کی ریت چھانتا پھرا اور بالاخر شکاگو جا پہنچا۔ میری اس سے ملاقات کبھی کینیا میں ہوئی تھی اور اس سیاہ فام کی اردو مجھے بھا گئی تھی۔ کئی برسوں کے بعد ہماری شکاگو میں ملاقات ہوئی تھی اور گاہے گاہے بازخواں این قصہ پارینہ را کے دلچسپ ماحول میں گفتگو تھی۔ تبھی اس نے کہا کہ ایک کمپنی نے معروف ترین مکہ بازوں کو ایک پروگرام میں اکٹھا کرکے ان کی گفتگو پر مشتمل فلم بنائی جو ویڈیو شاپس پر برائے فروخت موجود تھی۔ اب ایک گھنٹے کے پروگرام میں محمد علی کلے ، جوفریزیر ، جارج فورمین ، کن نارٹن او ر میری ہومز اکٹھے بٹھائے گئے ہوں اور وہ ایک دوسرے سے چہلیں کررہے ہوں، آپس میں ہونے والے مقابلوںکی یادیں تازہ کررہے ہوں تو کون اس تاریخی پروگرام سے لطف اندوز نہ ہوگا۔ میں نے اپنے میزبان سے اس خواہش کا اظہار کردیا۔ وہ مصروف تھا چنانچہ میں خود ہی اس سے دکان کا پتہ پوچھ کر چل دیا۔ لیکن میں آج تک وہ دو نصیحتیںنہیں بھول سکا جو اس نے مجھے دی تھیں۔ پہلی یہ کہ راستہ مختصر کرنے کے لیے کسی پارک کے درمیان میں سے نہ گزرنا۔ وہاں ہر روز رات کو سیاہ فام نشئی آ بیٹھتے ہیں اور منشیات کے ٹیکے لگا کر سوئیاں ادھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔ کئی راہگیر یہ سوئیاں پاؤں میں چبھنے سے ایڈز کا شکار  ہوچکے ہیں۔ اور دوسری بات ! جیب میں کم از کم5 ڈالر کی نقدی ضرور رکھ کر جاؤ۔ کسی نکڑ پر کوئی سیاہ فام تمہارے سینے پر چاقو رکھے گا اور رقم کا طلب گار ہوگا۔ 5 ڈالر وصول کرکے تمہیں درازی عمر کی دعا دیتا چلا جائے گا۔ اگر تمہاری جیب خالی ہوئی تو یقنا تمہیں گزند پہنچائے گا۔ اس کا وقت انتہائی قیمتی ہوتا ہے۔
احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا سبب پوچھا گیا تو ڈیوڈ نے اندوہناک حقائق کا انکشاف کیا۔ 17 ویںاور 18 ویں صدیوں میں مغربی افریقہ سے بحری جہازوں میں جانوروں کی طرح پابہ زنجیر لائے جانے اور جنوبی امریکی ساحلوں پر مقامی سفید فام وڈیروں کو نیلامی میں فروخت کیے جانے والے سیاہ فاموں کی نسلیں بھوک ، بیروزگاری اور تعصب کے ہاتھوں مجبور ہوکر جرائم میں زندگی کی بقا ڈھونڈ رہی تھیں۔ سفید فام حکومتی اہلکاروں کے خیال میں ہر سیاہ فام امریکی مجرم تھا۔ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اس پر کوئی بھی الزام لگایا جاسکتا تھا۔ اس کے اجداد غلام تھے سو وہ بھی غلام تھا۔ نائیجیریا کا ہونے کے باوجود میرا دوست سیاہ فام تھا۔ یہ حقائق بتاتے وقت اس کی آواز میں آزردگی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے عظیم امریکہ میں توہین انسان کی تاریخ بھی بڑی المناک ہے۔ جنوبی امریکی ریاستوں میں کپاس کے کھیتوں میں بیگار کے لیے مغربی افریقی ریاستوں سے غلام لائے جاتے۔ ان کی ثقافت اور خاندانی اقدار کو تباہ کردیا جاتا۔ سفید فام تاجر نیلامی میں اپنے من پسند غلام خریدتے اور انہیں ہمراہ لے جاتے۔ ایک ہی خاندان کے افراد ، شوہر ، بیوی ، بچے ایک دوسرے سے جدا کردیے جاتے۔ مختلف آقاؤں کے دبیل بن کر گمنام ہوجاتے۔ نئی زندگیاں ، نئے شریک سفر منتظر ملتے۔ نیلامی میں ایک ہزار ڈالر تک قیمت لگتی۔ ولیم جیفرسن کی صدارت کے دوران 1808ء میں یکایک سفید فاموں پر احترام آدمیت کا دورہ پڑا اور غلاموں کی درآمد پر پابندی لگادی گئی۔ اندرون ملک خرید و فروخت تاہم جاری رہی جنوبی ریاستوں کے شمالی علاقے سے جنوب کو ہجرت کرائی گئی۔آزادی سے قبل وہاں 40 لاکھ غلام لائے جاچکے تھے۔ 1860ء میں ابراہام لنکن نے صدارتی انتخاب جیتا تو اس نے انسانی آزادی کے ایجنڈے پر کام شروع کیا۔ اسے 1865ء میں اپنے مقصد میں اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب امریکی آئین میں 13ویں ترمیم کے ذریعے غلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ انسانی تجارت ممنوع تو ہوگئی لیکن کپاس کے کھیتوں میں بدن کی مشقت بدستور جاری رہی۔ ایک آقا اپنے لیے نیا ملازم رکھنے سے پہلے اس کی برہنہ پشت کا معائنہ کرتا، یہ دیکھتا کہ اس پر کوڑوں کے کتنے نشان ہیں۔ زیادہ نشان اس بات کی گواہی دیتے کہ ملازم یا تو ایک کاہل آدمی ہے یا ایک باغی ہے۔ چنانچہ اس کی ’’نقل کفالت‘‘ ناممکن ہوجاتی۔
غلامی کو ممنوع ہوئے آج اڑھائی سو برس ہوچکے ہیں لیکن امریکی سفید فام سے آج بھی خوئے آقا نہیں گئی۔ سیاہ فاموں کے لیے آج بھی بھوک ہے، اہانت ہے ، بیروزگاری ہے ، مدہوشی میں پناہ ہے۔ سیاہ فام امریکی ملک میں ہونے والی کل منشیات کا 23فیصد استعمال کرتے ہیں لیکن منشیات  رکھنے کے جرم میں گرفتار ہونے والوں کا 35 فیصد ہوتے ہیں۔ ان میں سے 55 فیصد پرمقدمہ چلتا ہے اور 74 فیصد کو سزا سنائی جاتی ہے۔23 فیڈرل بیورو آف پرزنر کے اعداد و شمار کے مطابق جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں 98 فیصد مرد ہوتے ہیں جن میں سے 26 فیصد سیاہ فام ہوتے ہیں۔ ملک میں سیاہ فام آبادی کی شرح کو مدنظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ 26 فیصد مختصر سیاہ فام آبادی کے لیے بہت زیادہ ہے۔ تو 18ویں اور 19ویں صدی میں امریکی سیاہ فام کی جو زندگی تھی وہ آج بھی ہے۔ آج بھی سفید فام امریکی اپنے ابرو و انگشت کے اشارے پر افریقی غلاموں کی نسلوں کی زندگی عذاب کررہے ہیں۔اپنے آپ کو ان کا رازق سمجھ رہے ہیں۔ اور یہی احساس تفاخر صدر ڈونالڈ ٹرمپ سارے کرہ ارض پر بھی ظاہر کرہے ہیں۔ امریکہ کے خلاف رائے دینے والے کی امداد بند کردی جائے گی! اسے پابہ زنجیر کیا جائے گا ، بھوکا رکھا جائے گا! قید تنہائی دی جائے گی! نمونہ عبرت بنایا جائے گا!
درست ہے! آج سے نصف صدی قبل کا امریکہ یہ نعرے لگاتا ’’سوبھتا‘‘ بھی تھا۔ آج کے ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکہ ؟ 22 کھرب کا مقروض جس کا 11 فیصد اس نے چین جیسے قرض خواہ کا دینا ہے!عقل کے خوشے درختوں پر نہیں اُگتے لیکن یروشلم جیسے خونریز تجربے بھی کسی کو دانا نہیں بناتے۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں