Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سادہ لوح

جاوید اقبال
تو اب قدموں کے سمیٹنے کا آغاز ہوچکا ، سعودی عرب میں موجود 28 لاکھ ، متحدہ عرب امارات میں بیٹھے 12 لاکھ ، عمان میں مصروف کار 2 لاکھ 35 ہزار اور کویت میں موجود تقریبا سوا لاکھ جن میں سے اکثر گزشتہ صدی کی 7ویں دہائی میں اپنے وطن کو پشت پر چھوڑ خلیجی صحراؤں میں تعمیر کے پھول کھلانے بڑھے آئے تھے ،اب واپس ہورہے ہیں۔ رخت سفر باندھے ہیں لیکن بہت تشویش میں ہیں۔ تمنا کے گلستانوں میں جس وطن کے تصور کی آبیاری کرتے رہے ، وہ ایک اجنبی منزل بن چکا ہے ۔جس وطن جمیل کے خواب دیکھتے رہے تھے وہاں مسائل منتظر ہیں۔ مجھے 2 مناظر کبھی نہ بھولیں گے۔
زیورخ کے ہوائی اڈے پر میرا ٹرانزٹ تھا، لاؤنج میں شیشے کی دیوار سے ہوائی جہاز نظر آرہے تھے۔ دسمبر تھا اور باہر برف کی چادر نے تاحد نظر سفیدی پھیلا رکھی تھی۔ ناگاہ میری نظر 2 آدمیوں پر پڑی جو دیوار کے باہر بالکونی میں سے برف ہٹارہے تھے۔ تب مجھے ان کی بلند آواز بھی سنائی دی اور ان کی قومیت کا اندازہ لگ گیا۔ دونوں انتہائی بے تکلفی سے ایک دوسرے کو پنجابی میں موٹی موٹی بھاری گالیاں دے رہے تھے ۔منہ بھر کر ادائیگی کرتے ہوقت لطف اٹھارہے تھے ۔میں شفاف دیوار کے ساتھ جا کھڑا ہوا اور ان دونوں کو بغور دیکھنے لگا۔ زیورخ کا برف سے اٹا ہوائی اڈہ اندر ٹرانزٹ لاؤنج میں مسافروں کی بات چیت کی بھنبھناہٹ، یورپی زبانوں میں سرگوشیاں اور باہر بالکونی پر سے بیلچوں کے ذریعے برف ہٹاتے 2 پاکستانی مزدور ، جسمانی مشقت کو ذرا خفیف کرنے کے لیے لچھے دار گالیوں کا تبادلہ۔ پھر ایک نے مجھے اتنی توجہ سے گفتگو سنتے دیکھا تو کچھ بولا اور دونوں ٹھٹھک گئے ۔خاموش ہوگئے۔ چلتے ہوئے شیشے کی دیوار سے آلگے۔ ’’ آپ پاکستانی ہیں ؟ ‘‘ ان میں سے ایک نے سوال کیا۔ ’’ہاں‘‘ میرا جواب تھا۔ تو جیسے مجھے گھورنے والی آنکھوں میں چراغوں میں چمک اتری ’’ کیا حال ہے پاکستان کا؟‘‘ دونوں نے بیک وقت سوال کیا۔ میں خاموش رہا۔ وطن عزیز سے ہزاروں میل دور ایک اجنبی سرزمین پر ان کا لچھے دار گفتگو روک کر اچانک ایک اجنبی سے پہلا سوال ہی پاکستان کی سلامتی کے بارے میں کرنا بہت دلکش لگا۔ تو پھر کیا ہے کہ برسوں سے پردیسی ہوئے پاکستانی کے خیمۂ قلب میں سے اپنی سرزمین کی یاد محو نہیں ہو پاتی؟ 
پھر ایک اور واقعہ بھی ہے جو میں فراموش نہیں کرپارہا۔ ریاض میں شارع وزیر پر ایک تنازعہ تھا۔ ایک بنگلہ دیشی ٹیکسی ڈرائیور 4 پٹھان مسافروں سے جھگڑ رہا تھا۔ ڈرائیور کسی دوسری جگہ سے انہیں لایا تھا اور اب اصرار کررہا تھا کہ وہ زیادہ رقم ادا کریں کیونکہ اژدھام کی وجہ سے اس کا بہت وقت ضائع ہوا تھا۔ پٹھان انکار کررہے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ سفر کے آغاز میں جتنے کرائے کا فیصلہ ہوا تھا وہ اتنا ہی ادا کریں گے۔ پٹھانوں کے میلے لباس ان کے مزدور ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ یقینا ٹیکسی کا کرایہ انہوں نے مشترکہ طور پر ادا کرنا تھا۔ بنگلہ دیشی کی آواز خاصی اونچی تھی اور اپنی ناقص اردو میں بار بار زیادہ کرائے کا مطالبہ کررہا تھا۔ چاروں مزدور اسے نرمی سے سمجھارہے تھے کہ وہ اصول کی بات کرے، تکرار بڑھتی گئی اور پھر ڈرائیور نے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس نے پٹھان مزدوروں کے بدنوں کو آگ لگادی ۔ بنگلہ دیشی چیخا تھا’’تم پاکستانی دھوکے باز لوگ ہو!‘‘ یہ سن کر اسکے قریب کھڑے پٹھان کا بدن تن گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈرائیور کی گردن کو گرفت میں لیا اور اسے دھکا دے کر ٹیکسی کے ساتھ جا لگایا اور بو لا ’’تم پاکستان کو گالی دے گا تو ہم تمہیں نہیں چھوڑے گا۔‘‘پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کچھ کہا اور باقی تینوں نے اپنی جیبوں سے کچھ رقم نکال کر اپنے ساتھی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ڈرائیور سہما کھڑا تھا۔ پلک جھپکنے میں مطلوبہ رقم اکٹھی کی گئی۔ ڈرائیور کو مطلوبہ رقم کی ادائیگی کرتے وقت پٹھان بولا ’’یہ لو اپنا کرایہ! اور پاکستان کو گالی مت دو۔ ہمارا وطن ہمارا جان ہے۔ اب فورا ًچلے جاؤ ادھر سے!‘‘ 
ان محنت کشوں نے اپنے وطن سے بے انتہا پیار کیا ہے۔ بے حد باقاعدگی سے اپنی سرزمین کے شب و روز پر نظر رکھتے رہے ہیں۔ ملک سنوارنے کے لیے قرض اتارنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے استخوان شکن مشقت کرتے رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ دبیل سمجھا گیا۔ ان کے بیرون ملک اور اندرون وطن پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے جولائی 1979ء میں اوور سیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کا قیام امن میں لایا گیا او ر اسے بیورو کریٹس کے قبضے میں دیدیا گیا۔ باقاعدگی سے اجلاس منعقد کئے جاتے۔ کثیر النقاطی ایجنڈا زیر بحث لایا جاتا اور منظور کرلیا جاتا لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانی بے صداؤں سے متعلق ایک آدھ نقطہ ہی ہوتا۔ باقی سب نقاط او پی ایف کے افسران کے مشاہرے یا مختلف الاؤنسز میں اضافے کے بارے میں ہوتے۔ تنظیم کے لیے مختصر بجٹ کا بیشتر حصہ اہلکاروں اور افسران کی تنخواہوں اور اللوں تللوں پر صرف ہوتا رہا ہے۔ بندہ ہے کوچہ گرد ابھی!
یہ محنت کش ، اپنے پسینے کی کشیدسے اپنے وطن کے خزانے کو حیات نو دیتے رہے ہیں اور انہیں اسکے عوض کیا ملا ہے؟ رہائشی اسکیمیں نامکمل ، بیرون ملک قائم پاکستانی مدارس سر چھپانے کے لیے اپنی عمارات کے بغیر ، ملک میں قائم او پی ایف کے مدارس ناکام ، وطن میں ان بے وطنوں کی اراضی پر قبضے ، اور گزشتہ 28 برس سے او پی ایف کا وطیرہ نشتند و گفتند و برخاستند ہی رہا ہے۔ قومی خزانے کو ہر برس 20 ارب ڈالر کی ترسیل زر کرنے والے دعائے نیم شب میں کیا کیانہ مانگتے ہوں گے؟ ناتمام آرزوؤں پر کتنا گریہ کرتے ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کی تحقیق کے مطابق یہ بے نوا پردیسی سالانہ تقریبا ً30 ارب ڈالر اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بچا لیتے ہیں۔ تو اب حکومت نے یہ حکمنامہ جاری کیا ہے کہ یہ اندوختہ بھی ان سے چھین لیا جائے۔ ہر بیرون ملک مقیم پاکستانی کے لیے یہ لازمی قرار دیا جائے گا کہ وہ وطن عزیز کے کسی بینک میں خصوصی کھاتہ کھولے اور ہر ماہ باقاعدگی سے اس میں زر مبادلہ ارسال کرے۔ اس حساب میں صرف بیرون ملک سے ترسیل زر کی جائیگی۔ محنت کش اور اس کے خاندان کا پیٹ کاٹ کر کیا گیا اندوختہ بھی اب چھین لیاجائے گا۔
او پی ایف جیسے اداروں کا کاغذی وجود! بیوروکریسی کی چھری تلے آیا مرغا! سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اربوں کے کھاتے! دبئی میں بلند بام عمارتیں! ہر ایک جگہ ان غریب الدیار وطن پرستوں کا لہو ہی تو ہے!
خداوند ا تیرے یہ سادہ لوح بندے کدھر جائیں؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں