ڈاکٹر شملان یوسف العیسیٰ۔ الشرق الاوسط
دنیا کے بیشتر ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ووٹنگ کے ذریعے القدس پر امریکی موقف کو مسترد کردیا۔ اکثر ممالک نے بین الاقوامی قانونی نظام کی پرزور حمایت کی۔ اس طرح اب مسئلہ فلسطین عربوں اور دنیا بھر کے ملکوںکی فہرست میں سب سے اوپر آگیا ہے۔ تمام عرب اور انکے دوست یورپی و ایشیائی و لاطینی امریکہ کے ممالک کو اس بات کا احساس ہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں امریکی پالیسی میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔
مسئلہ فلسطین کے عرب حامی اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ القدس سے متعلق امریکی فیصلوں کو کالعدم کرانے اور پورے فلسطین کو یہودی رنگ میں رنگنے کی کوششوں سے اسرائیل کو باز رکھنے کیلئے فلسطینی قائدین کے سامنے ممکنہ راستہ کیا ہے؟نیشنل کونسل کے رکن اور عرب دانشور ڈاکٹر اسد عبدالرحمان نے فلسطینی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ پہلی فرصت میں تنظیم آزادی فلسطین کی بحالی کا اعلان کردے۔ جدوجہد آزادی کو اپنانے کا مظاہرہ کرے۔ فلسطینی قائدین پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ فلسطینی جدوجہد کا واحد طریقہ یہی ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان قائم تعلق کو ختم کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا جائے۔ فلسطینی مرکزی کونسل کے اجلاس بلائے جائیں جن میں جدوجہد آزادی سے تعلق رکھنے والے تمام گروپ شریک ہوں اور یہ سب مل جل کر خطے میں امریکی پالیسی کے خلاف آواز بلندکریں۔ عالمی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ فلسطین کا مسئلہ مبنی بر انصاف ہے۔امریکہ کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی مہم چلائیں۔ فلسطینی تنظیمیں صف بند ہوں۔ قابض اسرائیلی حکام کے جرائم کو طشت از بام کرنے کیلئے فوجداری کی عالمی عدالت کے توسط سے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی تدابیر موثر کرنے پر توجہ دیں۔امریکی پالیسی سے کوئی تبدیلی نہیں آئیگی اور کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ بات یقینی ہے کہ امریکہ القدس سے متعلق اپنے فیصلوں سے دستبردار نہیں ہوگا۔ امریکہ سارے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے کنٹرول کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ دو ریاستی حل جس کا خواب عرب دیکھ رہے ہیں وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ہم عرب ٹوٹی پھوٹی قوم ہیں۔ تمدنی پسماندگی اسکی جڑیں کھوکھلی کئے ہوئے ہے۔ عربوں میں فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کا بازار گرم ہے۔ عراق اور شام اس آفت میں مبتلا ہیں۔ بعض عرب ممالک میں قبائلی بنیادوں پر خانہ جنگی چل رہی ہے۔ لیبیا اور سوڈان اسکی مثال ہیں۔
ہمیں جس بات کا حقیقی خدشہ ہے، وہ یہ ہے کہ عربوں کی مسلسل شکست و ریخت اور عربوں مسلمانوں کے ضمیر جگانے کیلئے ہر جمعہ کو ہونے والے فلسطینی باشندوں کے مظاہرے اور ان میں انکے بچوں کی شہادتیں اپنی جگہ اہم تاہم سیاسی اسلام کی علمبردار جماعتیں حالات کے انحطاط ، حکومتوں کی درماندگی ،القدس کو یہودی تشخص دینے کی کارروائی اور دو ریاستی حل کو مسترد کرنے والی صورتحال کو بنیاد بناکر القدس کے دفاع کےلئے جہاد کی بات کریں تو یہ پہلو قابل فہم ہوگا لیکن سیاسی اسلام کی علمبردار جماعتوں کا منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ القدس نہیں بلکہ خطے کے بعض فرقہ پرست ممالک کی طاقتوں کی زبردست پشت پناہی سے اعتدال پسند عرب حکام کے خلاف عوام کو برگشتہ کرنے کیلئے پر تول رہی ہیں۔ فرقہ پرست ممالک خطے کے اعتدال پسند ممالک کے تاروپود بکھیرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔
بنیاد پرست جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ فلسطین اور القدس کے مسئلے کے گھوڑے پر سوارہوکر عرب ممالک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کےلئے کوشاں ہیں۔القدس سے متعلق امریکی پالیسی کاسب سے پہلا نقصان یہی ہوا کہ سیاسی اسلام کی علمبردار جماعتیں خطے کے اعتدال پسند عناصر پر پوری قوت کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ مایوسی جہاد پسندوں کو عرب ممالک یا خطے میں امریکی مفادات کے خلاف خود کش حملوں پر بھی آمادہ کرسکتی ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی امریکی سیاستدانوں کا مقابلہ محال نہیں، اسکے لئے عربو ںکو روایتی اسلوب سے ہٹ کر مختلف طریقے سے سوچنا ہوگا۔ یہ بات پیش نظر رکھنا ہوگی کہ اسرائیل اسلحہ کا گودام بنا ہوا ہے۔
ہمیں جدید ذرائع ابلاغ کی مدد سے صہیونیوں کے یومیہ جرائم کو طشت از بام کرکے پرامن معرکہ لڑنا ہوگا۔ فلسطینی بچے کی صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کا منظر انسانیت پسندوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں موثر ثابت ہوگا۔ عربوں اور مسلمانوں کو اس وقت سب سے زیادہ مشکل اُن جھوٹی سفارشات سے ہے جن میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ خطے میں قیام امن کیلئے کوشاں ہے۔ امریکہ میں موجود صہیونیوں کے پریشر گروپ بیشتر عرب و مسلم ممالک پر بھاری ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگی جب تک کہ خطے میں امریکہ کے مفادات نہیں بدلیں گے او ریہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک عرب حکمراں عرب ممالک کے انجام کو مغربی دنیا سے جوڑے رہیںگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭