جبلی طور پر انسان غول پسند ہے ۔ جولوگ’’غول‘‘ کے معنیٰ و یعنی سے نابلد ہوں، ان کیلئے ہم واضح کرتے چلیں کہ دو یا دو سے زائد،درجنوں، سیکڑوں، ہزاروں ، لاکھوں یا کروڑوں افراد کے اجتماع کو ’’غول‘‘کہا جا سکتا ہے ۔یہ غول اس وقت ’’انمول‘‘ قرار پاتا ہے جب اس میں ایسے لوگ شامل ہوں جو اپنے ہوں یا اپنے جیسے ہوں۔ اسکے برخلاف اگر یہ لوگ غیر ہوں یا غیر جیسے ہوں تو یہ غول ، غول نہیں رہتا بلکہ انسان کیلئے ’’ہول‘‘ بن جاتا ہے۔اگر غول میں شامل افراد کی تعداد 2سے کم ہو تو اس کیفیت کا حامل انسان مجرد، چھڑا، تنہاء، اکیلا، اَعزب، سنگل یا اَلون‘‘کہلاتا ہے۔ ’’بظاہر جیتے جاگتے ‘‘ انسانوں کی یہ قسم پردیس کی گلیوں ، سڑکوں، بازاروں اور ویرانوں میں جا بجا دکھائی دیتی ہے۔بازاروںمیں دکھائی دینے والے ان لوگوں کے چہروں کی بھی 3اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ چہرہ کہ جس پر حسرت و یاس کے بادل چھائے ہوتے ہیں، ابروئوںکے مابین پائے جانے والے2 عمودی ابھارواضح ہو تے ہیں۔ حد نگاہ 2گز سے زیادہ نہیں ہوتی۔ان کی آنکھیں چہار جوانب کی بجائے صرف اپنے سامنے قدموں تلے آنے والی زمین پر ہوتی ہیں۔ اگر ایسے میں آپ انہیں سلام کریں تو یہ چہرے پرلمحہ بھر کیلئے مصنوعی ہنسی سجا کر آپ کو حال احوال پر مبنی سوالوں کے مختصر ترین جواب دیں گے اور پھر اپنی راہ لے لیں گے۔یہ اُن لوگوں کے چہرے ہوتے ہیں جو ماضی میں رہ کر اپنے حال کو سوچتے ہیں،انہیں وطن سے واپس آئے ہوئے چند روزہی گزرے ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کی تمام رنگینیاں اپنے اہل و عیال کے سپرد کر کے لوٹتے ہیں اورنئے سرے سے پردیس کی بے رنگ تنہائیوں کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔
دوسری قسم کے چہرے وہ ہیں جن کے ابرویں کمان کی طرح تنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی حد نگاہ ایک کوس تک ہوتی ہے اور آنکھیں چاروں طرف کا باقاعدہ جائزہ لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کا چہرہ ہوتا ہے جوچند ہفتوں کے بعد چھٹی پر وطن روانہ ہونے کی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ لوگ حال میں رہ کر حال سے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں چنانچہ وہ اپنے بچوں اور ان بچوں کی ماں کیلئے کچھ ایسی خریداری کرنے کی جستجومیں ہوتے ہیں کہ جوان کی جیب کیلئے ’’بے بار‘‘ اورشریک حیات کیلئے یادگار ہو، بچوں کے لئے شاہکار ہو۔انہیں سلام کیاجائے تو یہ چہچہاتے ہوئے جواب دیتے ہیں اور حال احول سے متعلق کسی بھی استفسار کا تفصیلی جواب دیتے ہیں۔
تیسری قسم کے چہرے وہ ہوتے ہیں جن کی حدنگاہ لامحدود ہوتی ہے۔ان کی آنکھیں تمام اطراف گھومتی ہیں اسکے باوجود وہ کسی کو نہیں دیکھ پاتیںکیونکہ وہ تو حال میں رہ کر مستقبل کے نظارے کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے فضائی سفر کا ٹکٹ ، پاسپورٹ اور خروج و عودہ، سب کچھ موجود ہوتا ہے ۔ ان کی آنکھ ، آنکھ نہیں رہتی ،’’چشمِ آہو‘‘ دکھائی دینے لگتی ہے ۔ ابرو، خضاب کے باعث نہ صرف سیاہ بلکہ چمکدار دکھائی دیتے ہیں۔اگر آپ ان لوگوں کے قریب جا کر کھڑے ہوجائیں تو بالی یا لالی وڈ کی کسی پرانی فلم کے نغمے کی گنگناہٹ آپ کو واضح سنائی دے گی جو عموماً اس قسم کے اشعار پر مبنی ہوتی ہے :
’’بڑی دور سے آئے ہیں
پیار کا تحفہ لائے ہیں‘‘
یا
پیار مل جائے تو ہر بات حسیں لگتی ہے
وہ لوگ جنہیں چھٹی گزار کر وطن سے لوٹے ہوئے مہینہ یا زائد عرصہ گزر چکا ہوتا ہے ، وہ سپاٹ چہروں کے ساتھ بقالوں یا سپر مارکیٹ کے راستوں میں آتے جاتے مل جاتے ہیں۔ ان پر عجب قسم کی پژمردگی چھائی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ آئندہ چھٹی پر وطن جانے کیلئے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں جس کیلئے وہ عموماًدہی روٹی ، رز بخاری یا طعمیہ سینڈوچ لینے کیلئے گھر سے نکلتے ہیں اوراسے ظہرانے یا عشائیے کے زیر عنوان حلق سے اتار لیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ کچھ بھی کر گزرنے کے عزم سے معمور ہوکر ہانڈی پکانے کے لئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور گھر سے باہر نکل کر سڑکوں اور گلیوں میں مٹر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کا خالص مقصد دال دلیے کی خریداری یا پھر کوئی سبزی ترکاری لینا ہو تا ہے ۔ہم چونکہ’’طعام سریع‘‘ یعنی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ سے اجتناب کرنے کے عادی ہیں چنانچہ ہم اپنے ’’ماکولات‘‘ میں ’’نامعقولات‘‘کو شامل کرنے سے گریزاں ہی رہتے ہیں،اس لئے ہم ہر روزیا کم از کم دوسرے روز ’’بقالات‘‘کے دورے پر رہتے ہیں۔ اس دوران ہمیں مذکورہ تینوں چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان سے علیک سلیک بھی رہتی ہے ۔ طویل عرصہ گزرجانے کے باعث یہ آمنا سامنا پہلے دوستی اور اب بھائی چارگی میں بدل چکا ہے ۔ ان ہموطنوں میں ایک چھڑا تو نہایت ہی ذہین و فطین ہے ۔ اس بے چارے کے والد فوت ہوگئے تھے چنانچہ وہ تعلیم کاسلسلہ جاری نہیں رکھ سکا۔ اگر وہ پڑھ لکھ جاتا تو نجانے کون کون سے ریکارڈ چکنا چور کر کے رکھ دیتا۔ہم آج سے 10ماہ قبل اس کی ذہانت سے اُس وقت متاثر ہوئے تھے جب ہم نے اس سے نام دریافت کیا تو اس نے کہا ’’چھڑیلا‘‘ میرا نام ہے ۔ ہم نے کہا یہ کیسا نام ہے ؟ اس نے کہا جیسا ہمارا کام ہے ۔ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں، لوگ مجھے چھڑا کہتے ہیں۔ میں نے ایک روز ’’چھڑاِ اور ا کیلا ‘‘ دونوں کو باہم ملایا تو ’’چھڑیلا‘‘ سامنے آیا ۔ ایک روز قبل ہم نے ’’چھڑیلا‘‘ سے کہا کہ یہ فرمائیے جب آپ، ہم اور ہمارے جیسے اس محلے کے دیگر لوگ جن کی تعداد 2درجن سے زائد ہے ، یکجاہوں تو انہیں کیا کہا جائے گا؟ اس نے فوراً جواب دیا ’’مجردانِ وطن‘‘۔یہ کہہ کر وہ کسی استفسار کے بغیر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ہم لوگ بڑے قیمتی ہیں، پتا ہے کسی بھی وقت ہم وطن عزیز کی کسی بھی وزارت کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ مڈل پاس ہو کر خود سنبھل جائیں تو بڑی بات ہے ، وزارت کیسے سنبھالیں گے؟ ’’چھڑیلا‘‘ نے ایسا جواب دیا کہ ہماری بولتی بند ہو گئی۔ اس نے کہا کہ ’’بڑے صاب! میرے پاس اقامہ ہے اور محترم یہ بات ہمارے ہاں ثابت ہو چکی ہے کہ وزارت کی کرسی پر براجمان ہستی کواقامہ ملے نہ ملے، اقامہ بردار کو وزارت کی کرسی مل سکتی ہے۔ میں تو وطن جاتا ہوں تو کسی بڑے سے بڑے سرکاری افسر سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔جب وہ کہتا ہے کہ ’’اوئے! یہ اکڑفوں کس لئے ،کیا تو کہیں کا گورنر لگا ہوا ہے؟ ‘‘ میں جواباً کہتا ہوں کہ ’’ادب سے بات کرو! میں اقامہ بردار ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور کوکیں مار کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’سر جی! مجھے معاف کر دینامگر ہمیشہ یاد رکھنا، کرسی پر بیٹھ کر بھول نہ جانا۔