Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں نوجوان کے قتل میں ملوث 3پولیس اہلکار گرفتار

    قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی پر اتر آئیں تو پرسان حال کون ہوگا؟ تجزیہ
کراچی (صلاح الدین حیدر بیورو چیف) 7سالہ زینب پر جسمانی تشدد اور قتل کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہفتہ کی رات کو 4باوردی پولیس اہلکاروں نے کراچی میں ایک نوجوان کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ قصور کیا تھا معلوم نہیں لیکن جس کار میں وہ سوار تھا اسکے ہلاک ہوتے ہی ایک لڑکی رکشہ میں نکل کر بھاگی۔ دونوں میں کیا رشتہ تھا یہ اہم نہیں ہے جس سوال کا جواب معاشرہ ڈھونڈنا چاہ رہا ہے وہ ہے کہ آخر پاکستان جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا تاکہ وہاں انصاف کا بول بالا رہے وہ درندگی آجکل اپنے پورے عروج پر ہے۔ واقعہ کراچی کے پررونق ، فیشن ایبل علاقے ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک سنسنان سڑک پر پیش آیا۔ پولیس کے ڈی آئی جی کا کہناہے کہ قتل کرنے والے 3پولیس اہلکار تحویل میں لے لئے گئے ہیں۔ تفتیش جاری ہے لیکن واقعہ اتنا سنگین ہے کہ لوگ ابھی تک حواس باختہ ہیں کہ آخر انکی جان و مال عزت وغیرہ محفوظ ہے کہ نہیں۔ جب قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی پر اتر آئیں۔ بھیڑیوں کا روپ اختیار کرلیں تو پھر انکا پرسان حال کون ہوگا۔ پاکستان مسائلستان بلکہ جرائمستان بنتا جارہا ہے جس نے نت نئے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ اب کیا کوئی باعزت عورت یا لڑکی رات کے 10بجے کے بعد شادی یا دوسری تقریبات میں جانے کی ہمت کریگی؟ یہ بہت اہم سوال ہے جسکا جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔ ایس ایس پی جتوئی جاوید اکبر ریاض نے بتایا کہ نوجوان کے قتل میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے 2ہیڈ کانسٹیبل اور ایک پولیس کانسٹیبل ملوث ہیں جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مقتول کے والد اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ انکا بیٹا ملائیشیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد گزشتہ سال 29نومبر کو پاکستان آیا تھا اور چند روز قبل اسکا 2بااثر شخصیات کے بیٹوں سے جھگڑا بھی ہوا تھا جنہوں نے سنگین نائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ انتظار حسین کے والد نے کہا کہ مجھے پولیس سے کوئی توقع نہیں۔ پولیس میرے بیٹے کے قتل میں ملوث اپنے پیٹی بند بھائی پولیس اہلکاروں کو بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کررہی ہے۔ کراچی میں اپنی رہائش پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے جوان بیٹے کی موت سے نڈھال والدہ نے کہا کہ مجھے میرے بیٹے کے قاتل چاہئیں ، میرے بیٹے کی نہ تو کسی سے دشمنی تھی اور نہ ہی کوئی سیاسی وابستگی تھی۔
 

شیئر: