قمر کا آپریشن زندگی کا کٹھن دور تھا
جمعرات 18 جنوری 2018 3:00
میں کمرے سے بچوں کے ساتھ نکل کر لفٹ کے ذریعے نیچے آگئی، بچوں کو نیچے لابی میں بٹھا کر خود اوپر آ ئی اور کوریڈور کے آخری سرے سے چپکے سے جھانکا تو گارڈ کو ریڈور میں کھڑا میری طرف ہی دیکھ رہا تھا
زاہد ہ قمر۔ جدہ
قسط نمبر6
میں کوئی مشہور و معروف ہستی نہیں کہ لوگ میری زندگی کو آئیڈیل بنا کر اس کی پیروی کریں یہ احساس مجھے ہمیشہ سے ہے مگر ایک یقین ہر لمحہ مجھے اس بات پر نازاں رکھتا ہے کہ میں نے ہر رشتہ نبھانے کی بھرپور کوشش کی ۔ میں بہت جلد اپنے بچپن کی یادوں سے نکل کر صرف یادوں کی نگری میں پہنچ گئی ہوں بے ربط، نا ہموار اور کسی قدر بے ترتیب حالات۔ بچپن آپ نے پڑھ لئے میں اب بھی اسی بات پر اصرار کرونگی کہ زندگی بھی اسی طرح متنوع احساسات و واقعات کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک جھولے کی طرح ہمیں ہلکورے دیتی ہے کبھی اوپر کبھی نیچے، سانس بے ترتیب اور ذہن ششدر!! مگر نہیں جھولے کے چکر ہمیں معلوم ہوتے ہیں لہٰذا ذہن پہلے سے تھوڑا بہت تیار ہوتا ہے اور زندگی کے چکر؟´؟؟ چکرا دینے والے ہیں ۔ مثلا! میری زندگی کے پرسکون کطیل میں تلاطم تب پیدا ہوا جب قمر اچانک بیمار ہو گئے یہ 2011 کی بات ہے۔ ان کے پتے کی پتھری کا اچا نک پتا چلا اور پھر ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا بے شک آپریشن چھوٹا سا ہی ہونا تھا جو کہ بقول ڈاکٹر کہ بالکل معمولی سی بات ہے اور روزانہ سینکڑوں ایسے آپریشن ہوتے ہیں ، مگر جب آپریشن ہوا تو اُس میں کچھ پیچیدگی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے معمولی سا آپریشن ایک بڑے اور تکلیف دہ آپریشن میں تبدیل ہو گیا۔پھر جراحی کے ٹانکے پک گئے اور پتا نکلنے کے بعد اس جگہ مواد جمع ہو گیا جس نے انفیکشن کی شکل میں قمر کو بخار اور اذیت میں مبتلا کر دیا۔قمر مہینوں بیمار رہے ۔میں بچوں کے ساتھ اسپتال میں رہتی۔ بچے چھوٹے تھے اور اسپتال میں خصوصا اس مردانہ وارڈ میں جہاں قمر ایڈمٹ تھے کسی عورت اور بچوں کا ٹھہرنا انتظامیہ کے اصول کے خلاف تھا۔
قمر کے وارڈ میں ان کے علاوہ کوئی نہ تھا لہٰذا سارا دن میں اور بچے ان کے ساتھ رہتے ۔رات کو 10 بجے سے پہلے اعلان ہونا شروع ہو جاتا کہ وزیٹر ز کا وقت ختم اب باہر جائیں ۔ پہلے دن گارڈ سے میری بحث ہوئی مگر وہ مجھے اور بچوں کو کسی صورت وارڈ میں رہنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھا۔ اسپتال بہت بڑا اور اپنی بہترین سروسز کے لئے مشہور تھا ۔ گویا وہ لوگ قمر کا خیال اچھی طرح رکھ سکتے تھے مگر میرا دل گھر جانے کے لئے آمادہ نہیں تھا اور نہ ہی بچے راضی تھے کہ پپا کو چھوڑ کر جائیں۔ پہلے دِن تو خوب ڈرامہ ہوا یعنی گارڈ سے بحث کے بعد میں نے اسے یہ تاثر دیا کہ میں جا رہی ہوں۔ میں کمرے سے بچوں کے ساتھ نکل کر لفٹ کے ذریعے نیچے آگئی بچوں کو نیچے لابی میں بٹھا کر خود اوپر آ ئی اور کوریڈور کے آخری سرے سے چپکے سے جھانکا تو گارڈ کو ریڈور میں کھڑا میری طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔میں گھوم کر دوسری طرف آئی اور دوسری طرف سے کوریڈور کی دیوار کی اُوٹ سے جھانکا تو اب گارڈ بھی اسی طرف رُخ کئے مجھے پھر گھور رہا تھا گویا اسے پتہ تھا کہ میں دوسری طرف سے آﺅنگی۔ میں نیچے چلی گئی اسپتال کے کیفے ٹیریا، پارکنگ ایریا اور لابی میں تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ بچوں کو لئے گھومتی رہی پھر ڈرتے ڈرتے لفٹ سے اوپر گئی تو گارڈ جا چکا تھا۔میں نے بچوں کو پردے کے پیچھے سُلایا اور خود کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگی ۔ قمر بھی ہمیں دیکھ کر ”موگیمبو خوش ہوا©“ کی تفسیر بن گئے۔
پھر تو قارئین!! ہم جیمز بانڈ 007 بن گئے پہلے تو اسپتال کے رسیپشن سے وزیٹنگ آرز پوچھے پھر گارڈ کے راﺅنڈ کا احوال و اوقات نوٹ کئے اس کے بعد ہم اپنی کارروائی میں لگ گئے۔ پونے 10 بجے سے سوا اور ساڑھے 10 بجے تک گارڈ صاحب تشریف رکھتے اور تمام وزیٹرز کو دیس نکالا دیتے پھر آدھے گھنٹے بعد دوسرا راﺅنڈ لیتے۔ ہم اس عرصے میں مختلف جگہوں پر چُھپ کر وقت گُزارتے اور رات کو پھر سے کمرے میں آ جاتے اور اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لیتے (میں اسپتال کا نام نہیں لکھ رہی) اسپتال کا تمام اسٹاف جو کہ فلپائنی تھا اکا دُکا پاکستانی و انڈین افراد پر مشتمل اسٹاف نظر آ جاتے تھے۔ سب نے میری فیملی کا بہت خیال رکھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہم رات کو یہیں رہتے ہیں مگر انہوں نے کبھی ہماری شکایت نہیں کی ۔میں مغرب کے وقت بچوں کا ہاتھ پکڑ کے باہر جاتی اور آس پاس کے ہوٹلز سے کھانا لے آتی پھر ہم اسپتال آکر کھانا کھاتے اور ساڑھے9 بجے کے بعد 10:30 بجے تک گارڈ کے جانے کا انتظار کرتے۔ قارئین! وہ وقت میرے لئے بڑا کٹھن تھا۔ قمر کی حالت کبھی کبھی تو بہت خراب ہو جاتی۔ ایسے وقت میں اکیلے حالات کو دیکھنا اور سنبھالنا بڑا مشکل ہوتا ۔میں بہت دل گرفتہ بھی ہو جاتی مگر اماں نے پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی میرا حوصلہ بڑھائے رکھا ۔وہ فون پر اپنی اور اپنے جیسی بہت سی خواتین کی مثالیں دیکر مجھے ہمت برقرار رکھنے پر اصرار کرتیں۔ انہیں ربِ کریم پر مکمل بھروسہ تھا۔ مجھے بھی ہمت، صبر اورنماز کی تلقین کرتیں۔ ہر روز مجھ سے نیٹ پر رابطے میں رہتیں اور کبھی فون کرتیں۔ انہی کا دم تھا کہ میری مایوسی نے اُمید سے شکست کھائی اور میں پوری تو انائی کے ساتھ حالات سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئی پھر وہ وقت بھی آیا جب قمر اپنے پیروں پر چل کر گھر واپس آئے۔ ہماری زندگی کے معمولات بحال ہو گئے اور زندگی یوں رواں دواں ہوئی گویا کبھی اس میں کوئی بُرا وقت آیا ہی نہیں تھا۔ واقعی میرا رب وہ ہے جو سوکھی ہوئی بے جان کھیتیوں کو پھر سے شاداب کر تاہے۔ وہ ہر شے پر قادر اور ہے، بے نیاز ہے۔ اس کی رحمتوں اور نعمتوںکا شمار نا ممکن ہے۔ انسان کی سوچ اس کے تعریفی الفاظ ور عبادتوں سے ماورائ۔۔۔۔ بلند ، ؛پُروقار، مہربان اور کریم کریم و کریم و کریم۔۔۔۔۔ واقعی ”تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جُھٹلاﺅ گے“ اللہ تعالیٰ میرے تمام شکرانے قبول کرنے کی توفیق دی اور شکرادا کرنے کے لئے صحت اور ہمت بھی۔
قمر کی بیماری نے مجھے دنیا کی عارضی خوشیوں اور لذتوں کے فریب سے کسی حد تک نکال دیا ہے اللہ سے دُعا ہے کہ قمر کا سایہ ہم پر ہمیشہ سلامت رہے ( آمین)۔
میں اپنی موجودہ زندگی سے بہت مطمئن ہوں، قلب مطمینئہ بہت بڑی نعمت ہے۔ سعودی عرب میں رہائش کے دوران 2015 کو اماں ہمیں روتا چھوڑ کر ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں ۔ شاید میری زندگی کا سب سے بڑا دُکھ یہی ہے ۔میں نہ تو ان کی کوئی خدمت کر سکی او نہ ہی آخری وقت میں ان کے قریب تھی۔ میرے پاس کوئی ایسا لفظ نہیں جو اماں کی تعریف یا پھر میرے دُکھ کو بیان کر سکے۔ وہ بے حد با ہمت خاتون تھیں ، جگر کے مرض میں مبتلا تھیں بہت درد اور تکلیف بڑی ہمت اور صبر سے برداشت کئے اور آخری دنوں میں ہر وقت حمدوثناءبیان کرتی رہیں ۔ ہر درد پر اللہ اکبر کا ورد کرتیں۔ ان کی تعریف کے لئے تو پورا مضمون چاہیئے دو چار اقتباسات میں کہاں ان کی شخصیت سما سکتی ہے ۔
میں اماں کے جانے کے بعد بہت دل شکستہ اور نڈھال رہنے لگی تھی تب قمر نے مجھے دوبارہ قلم اُٹھانے پر آمادہ کیا وہ مسلسل میری ہمت افزائی کرتے انہوں نے میرے ادھورے مضامین کو مجھ سے اصرار کرکے مکمل کروایا اور خود اردونیوز میں بھیجا۔ میں اردو نیوز کی صرف 2 شخصیات سے فون کے ذریعے واقف ہوں جن میں ایک تو ابصار علی سیداور دوسرے مصطفی حبیب بھائی ہیں۔
بڑے باکمال لوگ ہیں میرے عام سے الفاظ کی وہ قدر افزائی کرتے ہیں کہ میں شرمندہ ہو جاتی ہوں ۔مصطفی بھائی نے تو کبھی بھی میرے کسی لکھے ہوئے مضمون کو عام یا معیار سے گرا قرار نہیں دیا۔ واقعی عزت صرف عزت دار لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ہمیں عزت و تکریم وہی دے سکتا ہے جس کے پاس یہ چیز خود موجود ہوں۔میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیںبھی دونوں جہانوں کی عزت اور بلند مرتبہ عطا فرمائے (آمین)۔ زندگی بہت سبک رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ میں اب اپنے بچوں کو پروان چڑھتے دیکھ رہی ہوں۔ ان کے لئے ہر دم دُعا کرتی ہوں ۔ P-I-S-J میں بہت خوش ہوں۔ یہاں کی اساتذہ اور دونوں پرنسپلز بے حد شفیق اور مہربان ہیں خصوصاً وائس پرنسپل فرحت النساءبہت زیرک، ذہین، شفیق اور بہترین منتظم ہیں۔ اتنے بڑے ادارے کی سربراہی بہت معاملہ فہمی اور تدبر سے کر رہی ہیں ۔ سعودی عرب میں اب ہمارا قیام شاید زیادہ عرصے نہ رہے کیونکہ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ کھڑا ہے میں اپنے آخری سانس تک اس سر زمین کو یاد رکھونگی ۔ کاش!! جاتے جاتے ایک حج اماں کے نام کا کر لوں کاش !! حالات اجازت دے دیں۔۔۔
قارئین! یہ میرا نہ تو بچپن تھا اور نہ ہی خودنوشت کچھ بے ربط سے واقعات تھے اور کہیں کہیں خود کلامی کی کیفیت تھی۔اپنی زندگی سے صرف ایک سبق سیکھا ہے ، اپنے بچوں کو بھی سکھا رہی ہوں اور اپنے طالب علموں کو بھی کہ ” اپنے حصے کی نیکی کرتے رہیئے“، کیونکہ آپ سے صرف آپکے اعمال کی بابت دریافت کیا جائے گا۔ آپ کی نیکی دُنیا میں آپ کے کام آئے گی اور آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ بنے گی۔ آپ کی نیکیاں آپ کی اولاد کی ذندگی کو آسان بنائیں گی جیسے آپ کے والدین کے نیک اعمال آپ کے لئے سایہ رحمت ہیں ۔ خُدا حافظ جو جہاں رہے خوش رہے (آمین)۔
٭٭٭٭٭٭٭