نریندر مودی کا دورہ، سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات کو کس حد تک تقویت ملی؟
نریندر مودی کا دورہ، سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات کو کس حد تک تقویت ملی؟
بدھ 23 اپریل 2025 6:34
انڈین وزیراعظم نریندر مودی منگل کو سعودی عرب پہنچے تھے (فوٹو: عرب نیوز)
انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے جہاز کی جدہ میں لینڈنگ سے قبل سعودی ایئر فورس کے طیارے ان کے استقبال کے لیے پہنچے اور اترنے کے بعد انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی، یہ دونوں اقدامات اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ نریندر مودی ہی نہیں بلکہ 40 سال میں کسی انڈین وزیراعظم کا بحیرہ احمر کے اس بندرگاہی شاہی شہر کا پہلا دورہ ہے۔
یہ نریندر مودی کا رواں عشرے میں سعودی عرب کا تیسرا دورہ ہے جو دونوں نئی دہلی اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے سفارتی، معاشی اور فوجی تعاون کا مظہر ہے۔
انڈین وزیراعظم نے اپنے دورے سے قبل ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’یہ دورہ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کو مضبوط کرے گا۔‘
انہوں نے دو طرفہ معاہدوں اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایکس پر لکھا کہ ’اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور تاریخی تعلقات کو مزید تقویت دے گا۔‘
انہوں نے سعودی رائل ایئر فورس کے دستی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا اور سعودی عرب کی دوستی اونچی سطح پر پرواز کر رہی ہے۔‘
سعودی عرب میں موجود انڈینز کی جانب سے بھی نریندر مودی کے لیے کافی گرمجوشی دکھائی گئی ہے جو کہ مملکت میں دیگر غیرملکیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔
سعودی رائل فورس کے طیاروں نے فضا میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا استقبال کیا (فوٹو: عرب نیوز)
وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ایک سعودی گلوکار ہاشم عباس نے ان کی آمد کے موقع پر ہندی ترانہ ’اے وطن‘ پیش کیا۔
انڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد جدہ کے اس ہوٹل میں جمع ہوئے جہاں نریندر مودی کا قیام تھا اور ’سارے جہاں سے اچھا‘ گایا۔
ان میں سے ایک اے این آئی کو بتایا کہ میں نریندر مودی کو یہاں دیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہوں، ہم اس بات پر اظہار تشکر کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موقع ملا۔‘
اس دورے کا مقصد سعودی عرب انڈیا سٹریٹیجک پارٹنرشپ کونسل کے دوسرے اجلاس کا انعقاد تھا، جس کی صدارت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور نریندر مودی نے مشترکہ طور پر کی۔ 2019 میں تشکیل پانے والی یہ کونسل سیاست، سلامتی، تجارت اور ثقافت کے میدانوں میں رابطوں اور تعاون کے لیے اہم پلیٹ فارم بن گئی ہے۔
سعودی گلوکار نے انڈین وزیراعظم کے سامنے مشہور ہندی ترانہ ’اے وطن‘ پیش کیا (فوٹو: عرب نیوز)
اپنے دورے سے قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے عرب نیوز کو انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان تعلق نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں صدیوں پر پھیلی ہوئی تہذیب میں ہیں۔
ان کے مطابق ’آئیڈیاز سے آئیڈیاز سے لے کر تجارت تک، دونوں عظیم ملکوں میں مسلسل رابطہ رہا ہے۔‘
دوران انٹرویو انڈین وزیراعظم نے مملکت کو ایک ’بااعتماد دوست اور سٹریٹیجک اتحادی‘ قرار دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے تعاون کے اہم ترین میدانوں میں سے ایک دفاع بھی ہے۔ سعودی عرب اور انڈیا نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں جبکہ انڈیا کے پہلے آرٹلری شیل کی مملکت کو برآمد کو حتمی شکل دینے کے علاوہ جدید ہتھیاروں کی ڈیلز پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والی مشاورت میں بحری مشقوں کو وسعت دینے اور سکیورٹی سے متعلق شراکت کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے جبکہ میری ٹائم اور سائبر سکیورٹی کے معاملات پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک جرات مندانہ گھریلو ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ جیسا کہ سعودی عرب اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے اپنے ویژن 2030 کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے اور ہندوستان ایک عالمی اقتصادی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے، لیڈران دیرینہ ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو 21ویں صدی کی جامع شراکت داری میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک خطے سے متعلق ایجنڈے کو جرات مندانہ طور پر عمل پیرا ہیں۔
سعودی عب ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے منصوبوں کو آگے بڑھا ہے جبکہ انڈیا ایک عالمی اقتصادی کے طور پر ابھر رہا ہے اور دونوں ممالک کے رہنما دیرینہ ثقافتی اور معاشی تعلقات کو جامع شراکت داری میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔
سینیئر صحافی اور خارجہ امور کے تجزیہ کار سی راجہ موہن کا کہنا ہے کہ ’دو طرفہ تعلقات میں نمایاں تبدیلی پر خوش ہونے کے لیے کافی مواد ہے۔‘
ان کے مطابق ’وزیراعظم کا یہ دورہ نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو وسیع کرنے کے لیے ہے بلکہ یہ اس امر کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب ولی اور وزیراعظم عہد شہزاہ محمد بن سلمان کی قیادت میں ایک اہم جیوپولیٹیکل کردار کے طور پر بھی ابھرا ہے۔‘