Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

5سال کی بچی کو یہ کس نے بتایا، کس نے سکھایا

 
 سیدہ حرا۔جامعہ کراچی
مما میں چاچو کی شادی میں ایسے ناگن ناگن گاﺅں گی اور ڈانس بھی کروںگی، معصوم پانچ سالہ ندا نے جب اپنے دونوں ہاتھوں کو سانپ کے انداز میں چہرے کے سامنے باندھ کر اپنی امی سے کہا تو میں جہاں تھی وہیں ساکت ہو گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیا ہے ؟ 5 سال کی بچی کو یہ کس نے بتایا، کس نے سکھایا۔ہماری معصوم نسل کس منزل کی جانب گامزن ہے،ان کو یہ باتیںاور گانے سکھانے والا کون ہے؟
اپنی ذات سے پوچھے جانے والے سوال کا جواب مجھے چند ہی دنوں میں اس وقت مل گیا جب میں نے اسکول وین میں بڑے زور و شورسے انڈین گانے بجتے سنے اور معصوم بچوں کو دیکھا کہ وہ لہک لہک کر اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔
دوسری بڑی وجہ گھروں میں24 گھنٹے چلنے والے ٹی وی ہیںجن پر ہر وقت کوئی نا کوئی ڈرامہ، فلم، شو یا کارٹون چل رہے ہوتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں؟ ان کے معصوم ذہنوں پر ان چیزوں کا کیا اثر پڑے گا۔ ایسے ماحول میں ان معصوم بچوں کا کیا قصور؟انہیںکیا معلوم کہ کیا اچھا ہے اورکیا برا۔ بچے تو وہی کریںگے جو اپنے اردگرد ہوتا دیکھیں گے۔
آج کل کے دور کا دو سے ڈھائی سال کا بچہ اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے میں گزارتا ہے مگر کیوں؟امی اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔بچہ انہیں پریشان نہ کرے اس لئے بچے کو کارٹون لگا کر ٹی وی کے سامنے بٹھا دےا اور خود کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ پھر جب تمام کام نمٹا لئے تو خود بھی ڈرامہ یا فلم دیکھنے لگیں اور بچے کو بھی ساتھ بٹھالیا۔انہیں گھر سے باہر جانے نہیں دینا کیونکہ ماحول خراب ہے۔ گھر میں اس معصوم کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں۔ بہن بھائی ہیں تو زیادہ تر ان کا وقت اسکول، ٹیوشن اور مدرسے میں گزر جاتا ہے۔
آج کل شادی بیاہ میں گانے اوررقص کا ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ اب اس میں قصور کس کاہے؟آیا اس کے قصور وار بچے ہیں کہ جنہیں اچھے برے کی کچھ تمیز ہی نہیں ہوتی۔ بچے توبہترین نقال ہوتے ہیں وہ بڑوں کو دیکھ کر ان کی نقل اتارتے ہیں اور دوسرے جب انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔
اگر قصور بچوں کا نہیں تو کیا والدین کا قصور ہے جو لاشعوری طور پر انہیں اپنی باتوں سے اورکبھی اپنے کاموں سے غلط باتیں سکھا دیتے ہیں۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ”
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے“
لیکن ہم ان کی چالاکی کو بہترین مصرف میں کیوں نہیں لاتے ؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ان خرافات سے بچانے کے لئے عملی طور پر اپنا کردار ادا کریں۔بچوں کو مختلف قسم کے کھیل یا ذہنی و جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ بچوں کو اسکول بھیجنا ہی صرف اپنا فرض نہ سمجھیں بلکہ گھر میں بھی ان کی عملی تربیت کا خیال رکھیں۔ بچوں سے ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں شیئر کریں۔
بچوں کو ٹی وی دکھانے سے کہیں بہتر ہے کہ انہیں اپنے ساتھ مصروف رکھیں۔ جہاں آپ کام کریں وہیں انہیں بھی بٹھا لیں، ان سے باتیں کریں،کہانیاں یا اسلامی واقعات سنائیں۔ان کی پسند یا نا پسند کو اہمیت دیں، ٹی وی دیکھتے وقت ہمیشہ ان کے ساتھ بیٹھیں۔ اپنے بچوں کو اہمیت دیں تاکہ کل کومعاشرے میں یہ آپ کا نام روشن کر سکیں اور آپ کے لئے فخر کا باعث بنیں۔
 
 

شیئر: