Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوپی: کاس گنج فرقہ وارانہ فساد میں مرنیوالا ہندونوجوان زندہ نکلا

    لکھنؤ- - - - یوپی کے  شہر کاس گنج میں  یوم جمہوریہ پر  بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد  کو  پھیلانے میں  افواہوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔  تشدد کے دوران  فائرنگ سے  چندن گپتا  نامی نوجوان کی موت کے علاوہ  ایک اور نام سوشل میڈیا پر گردش کررہا تھا  جس کے مطابق راہول اپادھیائے  بھی  فائرنگ سے مارا گیا۔  سوشل میڈیا پر  یہ افواہ پھیل رہی تھی کہ  تشدد کے بعد  زخمی راہول نے  علیگڑھ کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا لیکن سچ کچھ اور ہی نکلا۔ راہول اپادھیائے زندہ ہے اور  میڈیا  کے نمائندوں  نے اس سے بات بھی کی ہے۔  راہول  اپادھیائے کے مطابق  وہ کاس گنج سے تقریباً 10 کلومیٹر دور واقع نگلا گنج گاؤں کا رہنے والا ہے۔ اس کی موت کی افواہوں کے بیچ پولیس نے بھی پیر کو  اس سے  تحقیقات  کی ہے۔  راہل نے اپنے زندہ  ہونے کی بات  دہراتے ہوئے کہا کہ  یوم جمہوریہ کے موقع پر  جب کاس گنج میں  فرقہ وارانہ فساد بھڑکا تو میں اپنے  گاؤں نگلا  گنج  میں اپنے گھر پر ہی تھا۔  راہول کے جسم پر کسی طرح کی  چوٹ کے نشان بھی نہیں۔  علی گڑھ کے اسپتال میں  اسکے  داخل ہونے کا دعویٰ بھی  اس  بات سے خارج ہوجاتا ہے۔  راہول کو  کوتوالی لایاگیا جہاں اے ڈی جی زون آگرہ  اجے آنند  اور آئی جی رینج علیگڑھ  سنجیت گپتا کے ساتھ متعدد پولیس افسران نے اس سے بات چیت بھی کی۔ راہول نے بتایا کہ ضلع میں انٹرنیٹ بند ہونے کے باعث وہ اپنی موت کی  افواہ کی  تصدیق نہیں کرسکا تھا۔ راہول کے مطابق  انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے اس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ  سوشل میڈیا پر  اس کی تصویر کے ساتھ  نام بھی وائرل ہورہا ہے۔  رشتہ داروں اور  دوستوں نے فون کرکے اسے اس بات کی  اطلاع دی تھی ۔ واضح رہے کہ کاس گنج فرقہ وارانہ فساد کے بعد  چندن گپتا کے علاوہ  فیس بک  پوسٹ کے دعوؤں میں راہول اپادھیائے کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔  صورتحال اتنی خراب تھی کہ بدایوں اور اسکے آس پاس  کے اضلاع میں  مختلف تنظیموں نے  راہول کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے  اجلاس منعقد کردیئے۔ راہول نے بتایا کہ  کاس گنج میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے اوربہتر یہی نظرآیا کہ وہ اپنے  گاؤں سے باہرنہ جائے۔

شیئر: