Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمدردی و غمخواری…کامیابی کی کنجی

 خالص اللہ کی رضا کے لئے جہاں تک ہوسکے ہمیں نفع بخش بننا چاہئے اور اپنی زندگی کو انسانیت کی بھلائی میں کسی نہ کسی جہت سے مصروف رکھنی چاہئے
* * *  مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔ حیدرآباد دکن    * * *

  اسلام نے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کے ساتھ بندوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ایک شخص کا تعلق اللہ سے استوار ہو اور اس کی مخلوقات کے ساتھ بھی ‘تب ہی تقربِ الہٰی حاصل ہوسکتا ہے ۔اس کے بغیر محبوبیت خداوندی کا گمان دھوکہ اور فریب ہے۔جس طرح ایک شخص کسی کی اولاد کو ستا کراور ان سے عداوت کا معاملہ کرکے اس کی محبت کو نہیں پا سکتا، اسی طرح اللہ کی مخلوقات کے ساتھ ظلم کا معاملہ کرکے اس کی رضا حاصل نہیں کی جا سکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات اور بالخصوص اپنے بندوں سے ویسے ہی محبت کرتا ہے جیسے ایک آدمی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے اسی لئے رسول اکرم  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
    ’’جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اسکے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔‘‘( مسلم)۔
    رسول اللہ نے اس فرمان کے ذریعے پوری امت کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‘غمخواری اور محبت کی تعلیم دی ہے اور آپ نے یہ درس دیاہے کہ ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔کوئی شخص کسی پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اپنی وسعت کے مطابق اسے پریشانی سے نکالنے کی کوشش کرے ۔جسمانی اور مالی جیسی بھی ضرورت ہو ہاتھ بٹائے۔ایک آدمی بیمار ہے اور اس کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تو ایمان اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ آپ اسکے علاج کا انتظام کریں گنجائش ہو تو رقم اپنی جیب سے لگائیں یا اپنی بستی اور قرب و جوارکے صاحب وسعت افراد کو آمادہ کرکے اس کا نظم کریں ۔یہ بھی تعاون کی صورت ہے اور اس پر بھی برابر ثواب حاصل ہوتا ہے۔اس طرح جو بھی کسی درد اور بے چینی میں مبتلا ہو اس کیلئے کوشش کرنا بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے ۔جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے اور اس پر اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ویسے ہی بندوں کی خدمت اور زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا عمل بھی بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے بلکہ بسا اوقات خدمت خلق کا ثواب نفلی عبادتوں سے بڑھ جاتا ہے ۔ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  مسجد نبوی ؐمیں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص پریشان حال اور مغموم حضرت کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔
    آپ نے اس کی پریشانیوں کا سبب معلوم کیا ۔اس نے کہا مجھ پر فلاں آدمی کا قرض ہے اور میں وہ قرضہ ادا کرنے کے قابل نہیں حضرت ابن عباس ؓ نے کہا تو کیا میں اس قرض خواہ سے بات کروں؟ اس نے عرض کیا ضرور کیجئے ! آپ نے جوتیاں پہنیں اور مسجد سے باہر نکل گئے ۔وہ شخص کہنے لگا آپ تو اعتکاف میں ہیں کیا آپ بھول گئے ؟آپ نے فرمایا نہیں، بھولا نہیں البتہ میں نے اس روضۂ پاک والے آقاسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لئے قدم اٹھائے اور اس میں کوشش کرے تو اس کی یہ کوشش 10سال کے اعتکاف سے بہتر اور افضل ہے (بیہقی)۔
    ایک خدا ترس شخص ؒ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ حج کے ارادے سے نکلے ۔وہ بغداد کی ایک دکان پر زادِ راہ خرید فرمارہے تھے کہ ایک بڑھیا کو کوڑی کے اوپر سے مردہ مرغی اٹھا کر اور چادر میں چھپاکر لے جاتے ہوے دیکھا ۔وہ بے قرار ہوگئے ۔اس کے پیچھے پیچھے اس کے گھر گئے اور دستک دی ۔بڑی بی سے اس کی وجہ پوچھی۔ وہ بولیں: اے مسافر! جاتُو میرا راز کیوں فاش کرتا ہے ؟ میرے بچے 3 وقت کے فاقہ سے نڈھال ہوچکے ہیں ۔اب ان کی زندگی بچانے کے لئے یہ مردہ مرغی اٹھا کر لائی ہوں۔اُس حدا ترس انسان نے اپنے حج کا تمام سرمایہ نکال کر بڑھیا کے سپرد کردیا اور اپنے ساتھیوں کے قافلہ سے نکل کر گھر چلے آئے۔ قافلہ والے جب حج کرکے لوٹے تواُن صاحب سے ملنے آئے اور انہیںحج کی قبولیت کی مبارکبا د پیش کی کہ اللہ نے آپ کا حج قبول کیا مبارک ہو ۔وہ حیران ہوئے کہ یہ لوگ مجھے مبارکباد کیوں دے رہے ہیں ۔میں تو بغیر حج کے واپس ہوگیا تھا ۔دراصل اللہ تعالیٰ نے ایک غریب شریف زادی کو فاقہ کی مصیبت سے نجات دلانے پر انہیں حج کے اجر سے نوازدیا تھا۔
    جن لوگوں نے برصغیر میں اسلام پھیلانے کا کارنامہ انجام دیا ہے ان میں خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے ۔ انہی کا واقعہ ہے کہ ایک کسان دہلی سے آپ کی خدمت میں اجمیر پہنچا اس کی زمین پر سلطان التمش کے کارندے قبضہ کرنا چاہتے تھے۔اس نے اجمیر پہنچ کر حضرت خواجہ کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ سلطانِ دہلی کے آدمی میری زمین سے مجھے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔اگر آپ سلطان کے پاس میری سفارش کردیں تو میری زمین مجھ سے نہ چھینی جائے۔ حضرت خواجہ اس مظلوم کی فریاد سن کر اجمیرسے دہلی روانہ ہوگئے ۔ان کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کو خبر ملی کہ حضرت دہلی تشریف لارہے ہیں ،قطب الدین بختیار کاکیؒ نے اپنے پیرو مرشد کا استقبال کیا اور عرض کیا کہ حضرت ! آپ نے کسی اطلاع کے بغیر سفر کی زحمت کیوں فرمائی‘ اگرکوئی ضرورت تھی تو مجھ خادم کو حکم دیا ہوتا ۔حضرت خواجہ اجمیری ؒ نے فرمایا :یہ مصیبت زدہ کسان میرے پاس سلطان کے آدمیوں کے ظلم و جبر کی فریاد لے کر پہنچا تھا ،میں نے فیصلہ کیا کہ اس مظلوم کی فریاد رسی کے لئے مجھے خود دہلی پہنچ کر سلطان سے اس کی سفارش کرنی چاہئے کیونکہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جب تک انسان کسی بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال رہتی ہے، تو میں خود کیا اس کی رحمت کا محتاج نہیں ہوں ؟
    لوگ سمجھتے ہیں کہ ولایت کسی خانقاہ اور گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا نام ہے ۔ایسے لوگ جو جدو جہد کے میدان میں رہ کر خدمت خلق کا کام انجام دیتے ہیں انہیں دنیا دار اور تصوف سے نابلد سمجھاجاتا ہے حالانکہ یہی لوگ درحقیقت اللہ کے ولی اور تقرب الٰہی کے اہل ہوتے ہیں ۔رسول اکرم کی پوری زندگی خدمت خلق سے معمور تھی ۔ایک بوڑھی اور پاگل عورت بھی جب اور جہاں چاہتی آپ کو اپنے کام کے لئے لے جاتی۔آپ نے اسے بہترین شخص قرار دیا جو لوگوں کیلئے نفع بخش ہو ۔ نفع پہنچانے کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں ، جیسے کسی مجبور ولاچار کا پیسوں کے ذریعہ تعاون کرنا ، ضرورت مندوں کوقرض فراہم کرنا ، غریب بچیوں کی شادی میں حصہ لینا ، فاقہ کش افراد کیلئے کھانے کا نظم کرنا،پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور کرنا ، کسی ضرورت مند کی آواز کو ایسے شخص تک پہنچا دینا جو اس کی ضرورت پوری کرسکے ، بیمار کی عیادت کرنا اور تسلی کے کلمات کہنا ، خوشی اور غم کے موقعوں پر ساتھ دینا ۔یہ اور اس طرح کے وہ تمام کام جس سے دوسروں کی بھلائی مقصود ہو ، اللہ تعالیٰ کی نظر میں نہایت پسندیدہ ہیں۔
    ایسے افراد جو دوسروں کیلئے کسی نہ کسی اعتبار سے نفع بخش ہوتے ہیں آخرت میں تو ان کا بدلہ ملے گا ہی، دنیا میں بھی ان کو جذبۂ نفع رسانی اور خدمت خلق کا بہترین صلہ ملتا ہے ۔ اس عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرح کے حادثات‘ مشکلات اور پریشانیوں سے محفوظ رکھتا ہے،غیب سے ان کے آرام اور چین و سکون کا انتظام کرتا ہے اور اس کی برکت سے خود ان کا اپنا ذاتی کام پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔اس کے علاوہ پوری قوم انہیں یاد رکھتی ہے ۔ان کے مرنے کے بعد لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں ۔ان کی تعریف و توصیف کرتے ہیں ،ان کیلئے دعائیں کرتے ہیں ۔
    ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور جو دوسروں کی بد خواہی کرتے ہیں جن میں نافعیت کے بجائے حسد اور جلن کا مزاج ہوتا ہے، انہیں مرنے کے بعد کوئی یاد نہیں کرتا،نہ ان کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں اور جن کی زندگی جذبۂ خیر سے پُر رہتی ہے ۔دنیا و آخرت دونوںجہان میں ان کی کامیابی ہے جو کسی بھی انسان کے لئے سب سے بڑی سعادت ہے۔
    یہ اس لئے کہ مخلوق خواہ کافر اور نافرمان ہی کیوں نہ ہو ‘وہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ اوراس کے عیال میں سے ہے ،اسی لئے وہ اسے کھلاتا اور پلاتا ہے اور اس کی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو کسی کے عیال اور گھر والوں سے محبت کرتا ہے تو وہ بھی اس شخص سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسکے نزدیک اس کا مقام بلند ہوجاتا ہے ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کو چاہتا ہے جو ان کی مخلوق کے ساتھ بہتر معاملہ کرتے ہیں اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں چنانچہ حضرت انس ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم  نے ارشاد فرمایا :
    ’’ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے ،اس لئے اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اُس شخص سے ہے جو اس کے عیال یعنی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہو۔‘‘(بیہقی)۔
    کتنے ایسے مخلص ہیں جو خاموش انداز میں غربا اور مساکین کا تعاون کرتے ہیں ۔ان کی مدد اور تعاون سے گاؤں اور علاقے میں بہت سے گھروں میں روشنی ہوتی ہے ۔انہی کی مدد سے چولہا جلتا ہے اور بے سہارے کو سہارا ملتا ہے ۔کتنی بیواؤں اور یتیموں کو ان سے کھانا میسر ہوتا ہے اور کتنے محتاج بیمار ہوتے ہیں جن کی دوا علاج کا ان کے ذریعے انتظام ہوتا ہے ۔ان کے انتقال کے بعد عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے سخی اور فیاض تھے اور کس قدر ان کا سینہ خدمت خلق سے معمور تھا ۔اپنوں سے زیادہ یہ لوگ ان کے لئے آنسو بہاتے ہیں کہ اب ان کا سہارا ختم ہوگیا۔ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور اللہ کے حضور میں ان کے لئے دعائے مغفرت کی جاتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی دعائیں رد ہوجائیں گی؟ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کی وجہ سے ان کی مغفرت کا اعلان کردیتا ہے اس لئے خالص اللہ کی رضا کے لئے جہاں تک ہوسکے ہمیں نفع بخش بننا چاہئے اور اپنی زندگی کو انسانیت کی بھلائی میں کسی نہ کسی جہت سے مصروف رکھنی چاہئے ۔ نہ معلوم کون ساعمل اللہ کو پسند آجائے اور وہ ہمارے لئے ذریعۂ مغفرت بن جائے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :
    ’’قیامت کے دن جب اہل دوزخ صف بنا کر کھڑے کئے جائیں گے ‘اس وقت ان کے پاس سے ایک جنتی گزرے گا تو ایک دوزخی کہے گا :اے فلاں! کیا تو مجھے جانتا نہیں ؟میں وہی ہوں جس نے تجھے ایک مرتبہ پانی ( شربت یا دودھ وغیرہ ) پلایا تھا اور انہی میں سے ایک کہے گا کہ میں وہ ہوں جس نے تجھے ایک مرتبہ وضو کے لئے پانی پیش کیا تھا ۔تو اس پر وہ جنتی خدمت کے بدلہ میں اللہ کے حضور اس خدمت کرنے والے کیلئے شفاعت کرے گا اور اس کی شفاعت قبول کرلی جائیگی اور اس طرح وہ اسے جنت میں داخل کرا دے گا۔‘‘ ( ابن ماجۃ)۔
    اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی خدمت بھی انسان کے لئے مغفرت کا ذریعہ بن سکتی ہے اس لئے ہر شخص کو اپنی وسعت کے مطابق اس میں حصہ لینا چاہئے ۔کوئی ضروری نہیں کہ ہزاروں اور لاکھوں روپے کے ذریعے مدد کی جائے بلکہ آپ کو جس قدر طاقت ہو اور جتنی آپ کے پاس گنجائش ہو اتنا ہی تعاون کریں اور لوگوں کے دکھ درد کو مٹانے میں اپنے وسائل کو صرف کریں اور اگر آپ کے پاس مالی تعاون کی طاقت نہ ہو تو کم از کم جانی اور بدنی تعاون کریں ۔کسی کا بوجھ اٹھا دیں ‘کسی کو راستہ بتا دیں ‘کسی کے کام میں ہاتھ بٹائیں ‘کسی کا سودا سلف خرید کر لادیںیاکسی پریشان حال کی پریشانی کے ازالہ کیلئے دعاء کریں۔سارے کام خدمت خلق میں شامل ہیں اور یہ مغفرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
    غرض جس طرح بھی ہوسکے لوگوں کو نفع پہنچانے کی کوشش ایک بہترین اور پسندیدہ عمل ہے جس سے اللہ کا قرب اور نجات کاراستہ حاصل ہوتا ہے اورایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عزت کی زندگی عطا کرتا ہے ،وہ کبھی رسوا اور ذلیل نہیں ہوتے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دل میں وسعت پیدا کریں ‘دشمن ہو یا دوست ‘مسلم ہو یا غیر مسلم اگر کوئی کسی بھی مشکل سے گزر رہا ہو اور ہم اس کا کچھ تعاون کرسکتے ہیں تو ضرور اس کی مدد کریں اور کسی سے انتقام لینے کے بجائے دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیں ۔آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی اس کے اثرات و برکات کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

شیئر: