آج کل ملک عجیب ہذیانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہر نئی صبح اس مملکت خداداد کے مظلوم عوام ایک نئی کہانی سنتے ہیں اور خود کو دُھنتے ہیں اور خاموش کردار بن جاتے ہیں۔ صرف منہ سے اُف نکلتا ہے۔ بس یہ ہے 20کروڑ آبادی والے ملک کی انوکھی اور اکلوتی داستان کا سلسلہ۔ کہاں سے جوڑوں۔
ہماری پولیس گزشتہ ایک چوتھائی صدی سے کھلم کھلا جس کو چاہتی ہے ماورائے عدالت قتل کرڈالتی ہے ۔آج تک ایک بھی پولیس والے کو عدالت میں طلب نہیں کیا گیا اور نہ سزا ہوئی ۔صرف کراچی میں 250سے زائد ملزمان اپنی جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں ۔یہ کارنامہ بھی صرف ایک منہ زور پولیس افسر رائو انوار سے منسوب ہے جس سے خود اُسی کے افسرانِ بالا ڈرتے ہیں۔ ابھی تک اُسکے سہولت کار سامنے نہیں آئے۔ ہر کوئی اپنا دامن بچاکر خود کو نردوش ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جس طرح ماضی میں عذیربلوچ پر جب بُرا وقت آیاتو سندھ کے طویل مد ت تک وزیراعلیٰ سندھ کے عہدے پر رہنے والے قائم علی شاہ نے اپنے تعلق کی تردید کرتے ہوئے کہاتھا کہ کون عذیر بلوچ! میں تو اُس کو جانتا بھی نہیں ہوں مگر ہمارا میڈیا بھی بہت ہوشیار اور چالاک ہے۔ دوسرے ہی دن تمام اخباروں میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ عذیر بلوچ کی دعوت میں مختلف پوز کے ساتھ ان کی تصاویر دیکھی جاسکتی تھیں جس میں وہ خود مہمان خصوصی تھے۔
خیر چھوڑیں رائو انوار کے قصے کی طرف آتے ہیں۔ نقیب اللہ محسود کا قصہ بھی دب جاتا اگر اُس کی قوم میں جرگہ بلانے کا رواج نہ ہوتا ۔یارلوگ توکہتے ہیں کہ اس جرگہ کو بھی لانے کا مشورہ اُس پولیس افسر کے دل جلے بڑے افسران نے دیا جنہوں نے متفقہ طور پر رائو انوار سے بدلہ لیا اور اُس جی آئی ٹی نے نقیب اللہ محسود کو معصوم قرار دیکر اس کیس کارُخ بدل دیا مگر ابھی تک رائو انوار مفرور ہے اور مختلف سمت سے نئی نئی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ روپوش اور دبئی فرار ہونے کی خبریں نمایاں ہیں ۔
دوسری اہم خبروں میں تمام صوبوں میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ کافی تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔قصور سے تعلق رکھنے والی معصوم بچی زینب کے علاوہ درجن بھر لڑکیوں کے ساتھ زیادتیاں قوم کو ہلا گئیں، پھر عدلیہ نے مداخلت کی۔خادم اعلیٰ پھر دوبارہ ہل گئے۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ پھراُبھرکر آیا کیونکہ خود ڈاکٹر طاہر القادری بنفس نفیس نہ صرف لاہور میں سیاسی دنگل لگانے میں کامیاب ہوئے اُس سے بھی بڑھ کر قصور پہنچ کر معصوم بچی کی نماز جنازہ بھی پڑھائی ۔قوم نے دیکھا، پولیس نے صرف ایک ملزم عمران کو پکڑ کر معاملہ دبانے کی کوشش کی تو ہمارے ایک مشہور اینکر نے جو غیر معمولی انکشافات کیلئے مشہور ہیں، از خود ٹی وی پرآکر جہاں کے وہ تنخواہ دار ہیں انکشاف کیاکہ یہ ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں ۔ یہ ارب کھرب پتی ہے۔ اس کا مکمل گینگ ہے۔37بینک اکائونٹس ہیں ۔اس گینگ میں ایک مرکزی وزیر (نام نہیں بتایا) سرپرستی کررہاہے وغیر ہ وغیرہ ۔انہوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ اس اصلی کیس کو تو سامنے لانے کیلئے تیار ہیں تو پھر چیف جسٹس صاحب نے اُن کو اپنی عدالت میں طلب کرکے ثبوت مانگے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے مگر جب ججزز صاحبان نے ثبوتوں پر اصرار کیا تو بھاگنے کیلئے راستہ ڈھونڈا اور مزید 90دن کا وقت طلب کیا ۔عدالت نے اتنا وقت دینے سے انکار کیا اور کہا کہ اگر معافی مانگ لیں تو معافی مل سکتی ہے۔اُس وقت عدالت میں مزید اینکرز بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی اُن کو سمجھایا کہ ابھی بھی وقت ہے معافی مانگ کر جان چھڑائو مگر انہوں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا تو عدالت نے ثبوت پیش کرنے کیلئے ایک ہفتے کا ٹائم دے دیا ۔دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں سے ثبوت لائینگے ۔میری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ اگر اینکر ثبوت نہ لا سکیں تو اِن کو بھی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی جھوٹی خبریں نہ دے سکے ۔
عدلیہ نے تہیہ کررکھا ہے کہ وہ کمسن بچیوں کے قتل کا معمہ حل کرکے رہیں گے۔ اگر ان مجرموں کو عبرت ناک سزائیں نہ ملیں تو وہ منہ زوری دکھائیں گے ۔جیسے خود وزیراعظم کے گائوں کی ایک معصوم لڑکی کیساتھ زبردستی گینگ ریپ کا واقعہ سامنے آچکا ہے۔ تاحال نہ ایف آئی آڑ کٹی اور نہ ملزمان جو نامزد ہیں تاحال گائوں میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ایران میں ایسے ہی کیس میں کمسن بچے کے قاتل کو بھرے بازار میں لاکر پھانسی پر لٹکایا گیا ۔سعودی عرب میں ایسے مجرموں کو نماز جمعہ کے بعد سر قلم کیاجاتا ہے جو عبرت کا باعث ہوتا ہے ۔
امریکہ کا دورہ کرنیوالے اکثر سربراہِ مملکت کو ایک مشہور یونیورسٹی میں بلا کر اُن سے ذہین اساتذہ اور طلباء سوال کرتے ہیں۔آج سے 40سال قبل شاہ فیصل کو دورہ امریکہ کے دوران یونیورسٹی مذکور میں بلاکر اُن سے ایک پروفیسر نے سوال کیا کہ سعودی عرب میں بہت ظالمانہ قانون سرعام سزائے موت کیوں ہے جبکہ امریکہ جیسے مہذب ملک میں قتل کے بدلے سزائے قید ہوتی ہیں ۔اسکے جواب میں شاہ فیصل نے 2دلائل دیئے۔ پہلا یہ کہ آپ کا قانون مظلوم کو انصاف دینے کے بجائے ظالم کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتاہے اور صرف ایک کمزور دلیل پر رہا کردیتاہے جس کی وجہ سے صرف نیویارک میں ہر سال 10ہزار سے زیادہ بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ملزم چند سال گزار کر رہا ہوجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف نیویار ک میں 8ہزار سے زیادہ اُس سال قتل ہوچکے ہیں۔ جواب میں 5ہزار کے قریب افراد پکڑے گئے جن کو 14سال کی سزا ہوئی جو کٹ کر آدھی رہ جائیگی۔بتایا جائے مقتول کو کہاں انصاف ملا جبکہ نیویار ک سے 5گنا بڑے ملک سعودی عرب میں پورے سال میں 10قتل ہوئے۔ ہم نے ان 10قاتلوں کو چند ہفتوں میں قاتل ثابت کرکے ان کے سر قلم کردیئے۔ ایک طرف مقتول خاندان کو انصاف مل گیا تو دوسری طرف کروڑوں افراد کو سبق مل گیا کہ قاتل بچ نہیں سکتا اور قتل کرنے سے پہلے 100بار وہ سوچے گا ۔ صرف 10افراد کی قربانی دے کر ہم نے کروڑوں افراد کو تحفظ فراہم کرکے مثال قائم کردی ہے ۔بتائیں کہ آپ کا مہذب معاشرہ 5ہزار افراد کو سزائیں دے کر بھی تحفظ فراہم نہ کرسکا تو ظالم آپ ہوئے یا ہم ؟
حال ہی میں امریکہ میں ایک شخص جو اولمپکس جمناسٹک ایتھلیٹ کی لڑکیوں کو ٹریننگ دیتا تھا،ا نکشاف ہوا کہ وہ 30سال سے درجنوںلڑکیوںسے زیادتی کرچکا ہے ۔پچھلے سال ایک لڑکی نے عدالت میں آکر انکشاف کیا کہ اُسکے ساتھ 20سال سے عرصہ سے زیادتی ہوتی رہی ہے۔ اُس استاد کا نام Larry Nassarہے۔ اُسکے انکشاف کے بعد جب یہ خبر اخبارات میں پھیلی کہ قومی جمناسٹک ایتھلیٹ کا انچارج یہ حرکت کرتا رہا ہے تو 60لڑکیوںنے عدالت میں آکر گواہی دی کہ واقعی وہ اُن سے بھی زیادتی کرتا رہا تو عدالت نے اُس شخص کو 175سال کی سزا سنائی اور وہ اب جیل میں سزا کاٹ رہا ہے ۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جس ملک میں عوام کو تحفظ نہ ملے تو ایسے لولے لنگڑے قوانین سے کیا فائدہ ۔آخری سطر لکھنے تک پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ نے سینیٹر نہال ہاشمی کی روایتی معافی کی درخواست مسترد کرکے 5سال کی نا اہلی اور ایک ماہ کی قید سنا کر اپنے وقار کو عظمت فراہم کردی ۔
اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو سرعام کہتے پھر رہے ہیں کہ میرا کیا قصور تھا ،مجھے کیوں نکالا اور اُنکے حواری جو اس آگ کو مزید ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں ،کیا انہیں انصاف مل سکے گا ؟