یہ کہانی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع پونچھ کے ایک گاؤں کی ہے جہاں کچھ عرصے سے ایک جنگلی ہرن (بارکنگ ڈیئر) کی انسانوں سے دوستی کے چرچے ہیں۔
یہ جنگلی ہرن جسے مقامی زبان میں کَکڑ کہا جاتا ہے، گاؤں میں آزاد پھرتا ہے، مقامی افراد اسے دودھ پیش کرتے ہیں اور پھر یہ قلانچیں بھرتا ہوا جنگل کی طرف نکل جاتا ہے۔
ضلع پونچھ کی تحصیل عباسپور کے گاؤں ٹنگیڑاں کے ایک شہری کو چند ماہ قبل جنگل کے قریب سے ’بکری کا یہ بچہ‘ ملا تھا، وہ اسے اپنے گھر لے آئے اور بھینس کا دودھ پلا کر اسے پالا۔ اب وہ جانور کچھ بڑا ہو چکا ہے اور آبادی اور جنگل کے درمیان آزادانہ طور پر گھومتا پھرتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
افغانستان: مویشیوں کو مارنے والا نایاب برفانی تیندوا پکڑا گیاNode ID: 833696
ٹنگیڑاں کے رہائشی سردار خالد محمود چغتائی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ چار پانچ ماہ قبل کی بات ہے کہ مجھے جنگل کے ساتھ اپنی زمین میں ایک بکری کا بچہ لاغر حالت میں سردی سے ٹھٹھرتا دکھائی دیا۔ شاید اس کی ماں کتوں یا تیندوے کے ڈر سے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی یا پھر اسے کسی تیندوے نے شکار کر لیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی اس بکری کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لی آئی۔ ہم نے اسے پہلے روئی میں لپیٹ کر رکھا، پہلے اسے روئی کے گالے سے دودھ پلاتے رہے اور پھر فیڈر کا استعمال شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد میں نے اڑھائی لاکھ کی ایک بھینس بھی خریدی تاکہ اس ننھے جانور کے لیے دودھ کا انتظام ہو سکے۔‘
’اب یہ جانور کچھ بڑا ہو گیا ہے اور ہم نے اسے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ محکمۂ جنگلی حیات کی ٹیم نے آج یہاں آ کر اسے چرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘
ضلع حویلی میں محکمہ جنگلی حیات کے سپروائزر کامران بشیر کو جب اس جانور کے بارے میں پتا چلا تو انہوں نے محکمے کے ناظم نعیم افتخار ڈار کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد بدھ کو وائلڈ لائف کی ٹیم ٹنگیڑاں گاؤں پہنچی۔

سپروائزر کامران بشیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب وہ ٹیم کے ساتھ اس گاؤں میں پہنچے تو انہوں نے جنگلی ہرن کو وہاں بلا کسی خوف کے گھاس چرتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم دو بجے ٹنگیڑاں پہنچے۔ جنگلی ہرن وہاں چر رہا تھا اور اس سے لگ بھگ 30 فٹ کے فاصلے پر مقامی شہری خالد محمود بھی بیٹھے ہوئے تھے، یہ حیران کن منظر تھا۔ میں نے اس دوران جانور کی کچھ تصاویر بھی بنائیں۔‘
جنگلی ہرن کی دیکھ بھال کرنے والے خالد محمود کے مطابق ’میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا کہ اگر جنگلی ہرن کے بچے کو ماں کا دودھ دستیاب نہ ہو تو کسی حد تک بکری یا بھینس کا دودھ اس کا نعم البدل ہو سکتا ہے۔‘
’پھر اسے فیڈر کی مدد سے دودھ پلانا شروع کر دیا، یوں اس کی حالت کسی حد تک سبنھل گئی تھی۔‘
’دو ماہ تک وہ میرے گھر میں رہا اور اس دوران وہ میری دو بچیوں اور آس پاس رہنے والے کچھ افراد کے ساتھ یہ جانور مانوس ہو گیا تھا۔‘

خالد محمود کے والد صابر محمود نے بتایا کہ ’ تقریباً دو ماہ بعد اسے آزاد چھوڑ دیا گیا تھا لیکن اب وہ قریبی جنگل میں چر کر دوبارہ واپس گھر آ جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پانچ سات دن قبل شدید بارش ہوئی تو یہ جنگلی ہرن کہیں غائب ہو گیا تھا، ہم کافی پریشان ہوئے لیکن دو دن بعد یہ دوبارہ گھر واپس آ گیا۔‘

مقامی سماجی کارکن محمد شیراز کے مطابق ’یہ جانور ہر دوسرے تیسرے دن گاؤں میں آتا ہے۔ دودھ پی کر رات کو اپنی مرضی کے مطابق یا تو ادھر ہی رہتا ہے یا قریبی پہاڑی پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ دو ماہ سے اس جانور کا یہی معمول ہے۔‘
اس جانور کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق سوال کے جواب میں کامران بشیر نے بتایا کہ ’گاؤں والوں نے اس جانور کو قید نہیں کیا۔ اب محکمہ وائلڈ لائف کے ناظم نے گاؤں کے 50 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس جانور کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔‘
خالد محمود نے بتایا کہ ’یہ جانور خریدنے کے لیے مجھ سے رابطے بھی کیے گئے۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ ایک لاکھ روپے لے لو اور یہ جانور مجھے دے دو۔ میں نے کہا کہ یہ جنگلی جانور ہے۔ اسے میں نے پیار سے پالا ہے۔ اگر کوئی ایک کروڑ بھی دے تو بھی میں یہ فروخت نہیں کروں گا۔‘
جنگلی ہرن کہاں پایا جاتا ہے؟
جنگلی ہرن کو انگریزی میں بارکنگ ڈیئر یا انڈین مُنٹجَک کہا جاتا ہے۔ گہرے بھورے رنگ کا یہ جانور کوہ ہمالیہ کے زیریں پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے عقب میں واقع مارگلہ نیشنل پارک میں بھی یہ جانور کبھی کبھار دکھائی دیتا ہے۔
قدرے بھاری جسامت اور پتلی ٹانگوں والا تیز رفتار اور شرمیلا جانور مارگلہ ہلز کے علاوہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے بعض گھنے جنگلات میں بھی پایا جاتا ہے۔

اس کی اونچائی 43 سے 52 سینٹی میٹر ہوتی ہے اور یہ سمندر سے 1200 میٹر بلندی سے نیچے رہتا ہے۔
پاکستان میں جنگلی ہرن کو خطرے کی شکار انواع میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
2020 میں وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں جنگلی ہرنوں کی تعداد صرف 300 سے 400 تک رہ گئی ہے۔