Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہر افسانے کو سراہتے ہیں، میں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہوں، سیمیں

تسنیم امجد۔ریاض
زندگی وہی ہے جس کے پسِ پردہ کو ئی لگن اور تڑپ ہو ۔ایک ایسامقصد جس کی لگن انسان کو سر گرم عمل رکھتی ہو ۔بے مقصد زندگی ایک ایسا خواب ہے جس کی کو ئی تعبیر نہیں ہو تی یا ایک ایسا سفر ہوتی ہے جس کی کو ئی منزل نہیں ہوتی۔یہ بھی سچ ہے کہ حق اور سچ کی راہ پر چلنے والے مسافرو ں کا استقبال خود منز لیں کیا کرتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ زندگی جمود و قرارکا نام نہیں،سعی و ا ضطراب کا نام ہے ۔ہر لحظہ مو جو ں سے ٹکرانا زندگی ہے ۔سا حل پر بیٹھ کر مو جو ں کے ا گلے ہو ئے مو تی چننا ،انسا نی عظمت کی تو ہین ہے کیو نکہ زندگی پیہم تلاش و جستجو ہے ۔
رب ا لعزت نے انسان کو اشر ف ا لمخلو قات بنایا اور لا تعداد خو بیو ں سے نوازا ۔یہ اپنی صلا حیتو ں سے بیا با نو ں کو گلزا رو ں میں تبدیل کر رہا ہے ۔سا ئنسی ترقی نے علم کے لا تعداد افق اور زمین کے خزانے انسان کی مٹھی میں بند کر دیئے ہیںبا لکل اس طرح جیسے” اردو نیوز“ نے دیس و پردیس کے درمیان ساری زمینی دوریاں اور قانونی مجبوریاںمحض ایک کلک سے مٹا ڈالی ہیں ۔ہوا کے دوش پر بحر آ گہی سے گوہر یکتا کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور یہ جریدہ صحرائے عرب میں تیشہ زنی کر کے تاریخ کی ترقیم میں مصروف ہے۔
اسے بھی پڑھئے:دل چاہتا ہے قدرتی ماحول کینوس پر منتقل کر کے گھر سجا دوں، نشیمہ ہارون
بظاہر ہمیں اپنے گرد کئی چہرے نظر آ تے ہیں لیکن جب ان سے ملاقات کا اتفاق ہوتا ہے تو حیران کن ٹیلنٹ سامنے آتا ہے ۔آج ہم جس گو ہرِ نا یاب سے آ پ کی ملا قات کرا رہے ہیںوہ اپنی مثال آپ ہےں۔ان کا نام محترمہ سمیرہ کرن ہے ۔ وہ اپنے قلمی نام ” سیمیںکرن“ سے پہچانی جاتی ہیں۔سیمیں ہمہ صفت و ہمہ جہت شخصیت ہیں جو اپنے اندر مقنا طیسی کشش رکھتی ہیں ۔ان سے مل کریقین آیا کہ اگر نسوانیت ، نزاکت ،احساس ،انسانیت کا پاس،گر ہستی اور وفا، محبت اور حیا،حُسنِ خیال اور جمال اگریکجا ہو جا ئیں تو جو تصورحقیقت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے آ ئے گا وہ محترمہ سیمیں کرن ہوں گی۔ان کی سا دگی پر تو بے ا ختیار یہ کہنے کو دل چا ہاکہ:
 سوچا تھا سادگی پہ تری اک غزل لکھوں
الفاظ نہ ہمیںترے معیار کے ملے 
ان سے گفتگو کے بعد ہمیں یقین ہو گیا کہ اردو جسے ہم ا حساسات و جذ بات کے تبادلے کا ذریعہ سمجھتے تھے،خود ایک تہذیب ہے، تمدن ہے ،شنا خت ہے ۔سیمیں کرن آ سمانِ ریختہ کا کوکبِ در خشا ں ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی اردو ادب سے شغف رہا ۔ان سے ہوائی سرگوشیاں ہوئیں تو کہنے لگیں میں بچپن میں ہی ٹو ٹی پھو ٹی نظمیں لکھا کرتی تھی۔میرے والد عبدا لحمید عالی پیشے کے لحاظ سے انجینیئرتھے لیکن انہیں بھی ادب سے لگاﺅ تھا ۔وہ بہت اچھے مزا ح نگارتھے ۔مزاحیہ رسالے میں لکھتے تھے ۔شاید لا شعوری تر بیت و صلا حیت وہیں سے ملی ۔ میرے والد صا حب کی شخصیت کے بہت سے رنگ تھے۔ وہ میری کہی ہوئی چھو ٹی چھوٹی نظمو ں پرمیری حو صلہ افزائی کرتے ۔جیب سے ٹافی نکال کر دیتے ۔اب سو چتی ہو ں شاید اسی لئے ٹافیاں ہر وقت جیب میں مو جود رہتی تھیں۔ہنستے ہوئے کہنے لگیں اسی نے مجھے آ گے بڑھنے میں مدد دی ۔والدہ فر حت نا ہید خاتونِ خانہ تھیں لیکن وہ بھی والد صا حب کے ادب میں معا ون تھیں۔ان کے لکھے اور چھپے ہوئے مضا مین پر بھر پور داد دیتیں ۔
ہم پا نچ بہن بھائی ہیں جن کی بھر پور پر ورش والدین نے اولین ذمہ داری جا ن کر کی ۔ہماری پرورش نہا یت نا ز و نعم سے کی گئی۔ میں غریب اورایماندار والدین کی شہزادی تھی ۔غریب اس لئے کہا کہ ہمارے ملک میں ایما ندار اور دیا نت دار افسر امیر نہیں ہو سکتا۔ ہمارے گھر میں اللہ کریم کی ر حمتیں تھیں۔زندگی میں اطمینان تھا ۔جو کچھ گھر میں آ تا تھا، اس میں بر کت ہوتی تھی ۔کبھی امی کو شکوہ کرتے نہیں سنا۔ہم متوسط ہو تے ہوئے بھی ایک شان رکھتے تھے اور قنا عت کی دولت سے مالا مال تھے ۔والدین نے دین کے بارے میں بھی ہر ممکن آگہی دی ۔امی نے گھر گرہستی کا بھی ماہر بنایا ۔کالج اور یو نیورسٹی میں ایک نام رہا ۔صف اول کی طالبات میں شمار ہو تا تھا ۔سیاسیات میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ قانون میں بھی گریجویشن مکمل کی ۔شاید یہی وجہ ہے کہ زندگی کو قواعدو ضوابط کے حوالے سے پرکھنے اوردیکھنے کی عادت ہو چکی ہے ۔
پلو ٹھی کی اولاد ہو ں اس لئے والدین سے تو جہ بھی زیادہ ملی اور محبت بھی ۔مجھے رخصت کرنے کی بھی ذرا جلدی کی گئی اور میں شیخ محمدیا سین کی دلہن بن کر فیصل آ باد چلی آ ئی۔شو ہر بز نس مین ہیں۔کون ڈائنگ وا سپننگ ملزیعنی ٹیکسٹا ئل صنعت سے وا بستہ ہیں۔اس میں یہ زیادہ وقت دیتے ہیں کیو نکہ بز نس تو زیادہ سے زیادہ محنت ما نگتا ہے ۔میرے شوہر کا نام کا میاب کا رو باری حضرات کی فہرست میں شامل ہے، الحمد للہ۔
اسے بھی پڑھئے:حق کی حقانیت جاننے کے لئے ایمان ضروری ہے ، فرحین سعد
شادی کے بعد فراغت زیادہ تھی ۔شو ہر نے ملا زمت کی اجا زت نہ دی لیکن میرے مزاج کو بھا نپتے ہوئے مجھے ہر وہ سہولت دی جس کی میں خوا ہا ں تھی ۔میں یہ کہو ں گی کہ آ ج میںجو کچھ بھی ہو ں، شوہر اور سسرال کے بھر پور تعاون کی بدولت ہو ں۔میرا مزاج انتہائی سادہ ہے ۔ مجھے عام خواتین کی طرح بننے سنورنے کا شوق تونہیں تھا تاہم قلم اور کا غذ سے محبت تھی اسی لئے انہیں ہی اپنا لیا ۔ پڑھنے کی عادت تو بچپن سے تھی ۔جب لکھنا شروع کیا تو چھپنے بھیجا اور وہ چھپ گیاتوبہت خوشی ہو ئی۔پھر کیا تھا اس سلسلے کو سنجیدگی سے لیا ۔اللہ کریم کا احسان ہے کہ مجھے میرے مزاج کے مطابق منزل مل گئی ۔دو ڈھا ئی برس جریدے میں لکھا۔میرے کا لمز کو پسند کیاجانے لگا۔مختلف ویب پیپرز میں بھی میری تحاریر چھپیں۔تجزیاتی مضا مین بھی ادبی جرائد میںشا ئع ہوئے ۔میںیہا ں یہ کہنا چا ہو ں گی کہ تخلیقی صلاحیت خدا داد ہو تی ہے مگر ان صلا حیتوں کی حفا ظت کرنی پڑ تی ہے ۔اسی طرح کسی ادیب کو حقائق سے با خبررہنے کے لئے مطا لعے سے بین ا لا ا قوامی، سیاسی اور معا شرتی حالات سے آ گا ہی ضروری ہوتی ہے کیو نکہ یہی عوامل ادبی شہ پارے کو جنم دیتے ہیں ۔میرے لئے ادب ایک غیر مرئی تجربہ ہے ۔جب زندگی کے حبس سے دل گھبرانے لگا تو یہی یقین ہوا کہ یہ ایک ایسی کھڑکی ہے جو با ہر بھی کھلتی ہے اور اندر بھی ۔میں اس کھڑ کی سے اپنے با طن کی سیڑ ھیا ں اتر کر خود اپنا سراغ پا لیتی ہو ں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی با طنی نگاہ سے دیکھ کر تخلیقی مسرت کشید کرتی ہو ں ۔وہ تخلیق کا سفر جو ایک ما ں کو کرب کے بعد اپنے بچے کی طرف دیکھ کر محسوس ہو تا ہے ۔میں نے اپنے افسا نو ں میں عورت ،مرد ، فلسفہ،عدمِ مساوات اور اس کی وجہ اورآ گہی کی منزل کو مو ضو ع بنا یا۔میری کو شش ہو تی ہے کہ اپنے افسا نو ں میں حقیقت کا رنگ بھروں۔میںاکثر اپنے گرد پھیلی کہا نیو ں کو کا غذ پر بکھیرتی ہوں جس سے ایسا سکون ملتا ہے جیسے کسی بکھری ہو ئی شے کو سنبھال کر رکھ دیا گیاہو ۔
سیمیں کرن کی مصروفیات کی وجہ سے ہماری ان سے گفتگو کا سلسلہ بار بار منقطع ہو تا رہا ۔انہوں نے مجھے اپنے چند مجمو عے بھیجے۔وقفے کے دوران انہیں پڑھنے کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچے کی ان کی تحریریں سچائی کے قریب ہیں۔ایک افسانہ ” پچیس کلو کے اڑھائی سو“میں ایک حقیقت کو افسا نوی شکل دی گئی ہے۔اس میں کتا بیں ،ردی کا غذ ،پرانے نو ٹس اورلکھی ہوئی ڈائریوں کا ذکر ہے ۔
اپنی اگلی ملاقات میں ہم نے ان سے اس افسانے پر ہی پہلا سوال کیا۔اس پر وہ بو لیں کہ میں اس میں ایسے حقائق سے پردہ ا ٹھانا چا ہتی ہو ں جونہ چا ہتے ہو ئے بھی مجبور یو ں کی نذر ہو جاتے ہیں ۔آج ایسے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی تحریروں کا سودا کرنے پرمجبور ہیںاور ان کی تخلیق کسی اور کے نام سے چھپ جاتی ہے ۔اس افسانے میں ایسی ہی کسی مجبوری کا ذکر ہے ۔گھر والے اپنے گھر کو بیچ کر چل دیتے ہیں ۔اس میں موجود نگارشات صرف ردی میں بکتی ہیں ۔ ان کا وزن 25 کلو تھا ۔اسی طرح ”کو ئی شرم ہوتی ہے، حیا ہو تی ہے“، ”عادت سیڑھی“، ”سات گھروں کی دلہن“،”خسارہ “او ر ” استغفر اللہ“بھی اپنے اندر ایک پیغام لئے ہو ئے تھے ۔
محترمہ سیمیں کرن کی خواہش پر ہم نے ان کے شوہر شیخ محمدیا سین سے بھی گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ وہ اپنی بیگم کے مصنفہ ہونے پر کس قدرنا زا ں ہیں ۔کہنے لگے کہ مجھے ادب سے کو ئی خاص لگا ﺅ نہیں لیکن اپنی اہلیہ کی حو صلہ افزائی ضرور کرتا ہو ں ۔ادبی محافل میں ان کے ساتھ جانے کا وقت نکالنے کی کو شش کرتا ہو ں ۔بیگم گھر اور بچوں پر پو ری توجہ دیتی ہیں اس لئے ان کی مصرو فیت کھلتی نہیں ۔یہ ادبی ذوق کی حامل ہیں،بلا شبہ سر حدو ں کی طرح ثقافت اور زبان کی حفا ظت بھی ضروری ہے۔مجھے ”مستنصر حسین تا رڑ“جو ادب کی دنیا کا ایک معروف نام ہیں،ان کی جانب سے میری بیگم کی تحریروں پرکیا جانے والا اظہارِ رائے پڑھ کر بہت خوشی ہو ئی۔ وہ کہتے ہیںکہ:
”ادب کی دنیا ایک وہ ہو تی ہے جس میں بڑے شہروں کے حادثاتی ادیب اپنی عظمت کی تا لیاں بجاتے،غل غپا ڑہ کرتے،اپنے آپ کو زبر دستی نما یا ں کرتے ہیں ۔ ان شہروں سے دور گم نام بستیو ں میںکچھ ایسے لکھنے والے بھی ہو تے ہیںجن کا چر چہ نہیں ہو تا لیکن وہ ان بڑے ادیبو ں کی عظمت را کھ کر ڈالتے ہیں۔یہ ادب میں روشنی کی کرن کی ما نند ہیں۔سیمیں ان میں سے ایک ہیں ،یہ ایسی کہا نیا ں لکھتی ہیں جو آپ کو بے آ رام کرتی ہیں۔ان میں لطف اندوزی نہیں،اذیت کا سامان ہے اور ادب کیا ہے جو آ پ کو بے آ رام کرے،سو چنے پر مجبور کرے ،معا شرے کی نا ہموار یو ں اور ظلم کے خلاف کمر بستہ کر دے ۔سیمیںبہت جلد بڑے نثر نگا رو ں میں شامل ہو گئی ہیں۔“
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے آ نگن کو تین پھو لو ں سے سجایا ۔بیٹی ثامن یا سین ، بیٹا عفرس یا سین ،اور چھو ٹا عالیان یا سین کو ہم دو نو ں ہر ممکن دین و دنیا کی تعلیم سے نوا زنے کی کو شش کرتے ہیں ۔زندگی میں آ گے بڑ ھنے کا سلیقہ والدین ہی سکھا تے ہیں۔ اولاد سے دوستانہ رویہ رکھنے کا میں قا ئل ہو ں ۔ شاعری نا صر کا ظمی کی پسند ہے۔ ان کی ایک غزل کے کچھ اشعا بیگم کو نذر کرتا ہوں، عرض ہے کہ :
میں سو رہا تھا کسی یاس کے شبستا ں میں
جگا کے چھوڑ گئے قا فلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہو ں میں
 ا ڑا کے لے گئے جا دو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیا نیو ں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
سیمیں کرن نے ہنستے ہو ئے کہا کہ یہ تو خوب رہی، واہ! اسی بہانے مجھے آپ کی پسند کی بھی خبر ہو ئی ۔مجھے یاد ہے وہ دن جب انہوں نے میرا ناول ایک ہی نشست میں مکمل کیا ۔میرے افسانوں اور کالموں کو جب میرے شوہر سراہتے ہیں تو میں ہوا ﺅ ں میں اڑ نے لگتی ہو ں۔یہ تو حقیقت ہے کہ شو ہر کی نظر میں بیوی کی اہمیت زندگی کا حسین ترین تحفہ ہے ۔یہ ا حساس اسے وہ خو شی دیتا ہے جو آ سمان سے تارے تو ڑ کر را ہو ں میں بچھانے سے بھی نہیں مل سکتی۔ازدواجی زندگی ایک ایسا بندھن ہے جسے جتنا چا ہیں خو بصورت بنا یا جا سکتا ہے ۔ طرفین کا ا خلاص درکارہوتا ہے بس ۔یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر کا میاب عورت کے پیچھے ایک مرد ہو تا ہے ۔اس کے تعاون کے بغیر عورت کچھ نہیںکر سکتی۔
میرے افسا نوی مجمو عے ،”شجر ممنو عہ کے تین پتے “میں 22افسانے ہیں۔اسی میں سے دو افسا نو ں ” طا ھرہ سنو“ اور ایک مکالمے کا ہندی تر جمہ انڈیا کی مشہور افسانہ نگار و کالم نویس ” تبسم فا طمہ“نے کیا تھا ۔میرا پہلا نا ول ” خو شبو ہے تو بکھر جا ئے گا“ایک سماجی، نیم ادبی نا ول ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک بیوہ عورت معا شرے میں کن مسا ئل سے گزرتی ہے اور شہر یار کے مضبوط کردار کی صورت میں انسانی نفسیات کی گتھیا ں کھو لی گئی ہیں۔ حال ہی میں یعنی 2017ءمیں ” بات کہی نہیں گئی“ کے ٹا ئٹل سے افسا نوی مجمو عہ منظرِ عام پر آیا ہے ۔اس میں 27 افسانے ہیں ۔اس کے افسا نو ں میں بہت تنو ع ہے ۔ میں اپنی پسند کی غزل سنانا چا ہو ں گی:
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا ،سرِ بزم رات یہ کیا ہوا 
مری آ نکھ کیسے چھلک گئی ،مجھے رنج ہے یہ برا ہوا 
مری زندگی کے چرا غ کا یہ مزاج کو ئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی ، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جا ں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی ،نہ کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیو ں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل سے ہی پو چھئے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے، مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہو ں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آ ستیں میں چھپا ہوا
 مرے ایک گو شہ فکر میں،مری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط ملا
کہیں خو نِ دل سے لکھا ہوا ،کہیں آ نسو ﺅں سے مٹا ہوا
ہماری گفتگو کا دورا نیہ طویل ہو چلا تھا لیکن سیمیں کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا ۔ان کے افسا نو ں پر تبصرہ کرنے کو ہمارا بھی دل چاہ رہا تھا لیکن وقت ا جا زت نہیں دے رہا تھا ۔کہنے لگیں :
اپنے ملبے میں اترنا ہو گا 
خود کو تعمیر تو کرنا ہو گا
وہ جو سو چو ں میں ہے پیکر اپنا
اسے تصویر تو کرنا ہو گا 
راس تو ڈال کے رکھنی ہو گی 
وقت زنجیر تو کرنا ہو گا 
آ ئینہ سامنے رکھ کے اپنے 
خود کو تحریر تو کرنا ہو گا 
سیمیں نے کہا کہ میں میڈیا کی وسا طت سے یہ پیغام دینا چا ہو ں گی کہ کتابِ زندگی کے چند اوراق الجھنوں سے بد رنگ ہو جاتے ہیں،انہیں سنبھال کر رکھ کر بار بارپڑ ھنے سے بہتر یہی ہے کہ انہیںپھا ڑ کر پھینک دیا جائے ۔زندگی میں کئی لمحے ایسے آ تے ہیں جو نہا یت قیمتی ہو تے ہیں۔گزر جا ئیں تو انہیں واپس لانا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ہمیں ان کا احساس کرنا چا ہئے ۔اسی طرح ان رشتو ں کی قدر کر نی چا ہئے جو کھو جا ئیں تو ندامت جینے نہیں دیتی اور انجام کارانسان کی ہستی کا شیرازہ بکھر کر رہ جا تا ہے ۔
 
 
 

شیئر: