شادی کرنا اور گھر بسانا دو الگ باتیں ہیں، مرد ذمہ داریاوں نہیں سمجھ سکتا تو بیوی کی زندگی کو سزا کیوں بنا دیتا ہے، آخر اسے کس بات کا گھمنڈ ہے
ممتاز سلطانہ ۔ حیدرآباد
شادی شدہ زندگی میں بنیادی نکتہ ذہنی ہم آہنگی ہے ۔جب تک میاں بیوی اپنے راز،اپنے خیالات،مسائل مشترکہ طورپر حل نہ کر سکیں تو یہ سزا دونوں کیلئے برابر ہے۔شوہر اپنے دفتری مسائل یہ سمجھ کرکہ بیوی کو کیا خبر اس سے کیا بات کروں اس طرح وہ الجھتا ہی چلا جاتاہے۔اسے ایک جھوٹ چھپانے کیلئے دوسرے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے اس طرح اسکے گرد جھوٹوں کا ایک جال بن جاتا ہے۔ وہ سچ اس لیے نہیں بولتاکہ اس کی غلطیاں شامل ہوتی ہیں اور وہ اپنی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ اب اس کی حکمرانی ہے اور نکاح کرکے وہ عورت کو "خرید" لیتا ہے۔ وہ صرف یک طرفہ احکام الٰہی کی پابندی کرتا ہے کہ وہ مجازی خدا ہے حالانکہ نکاح دودلوں کا ملاپ ہے ۔اس دوڑ میں اگر کوئی تیسرا کھڑا ہوجائے تو سوائے کوفت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتاہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔بیوی اور شوہر کی بنیادی شرط اعتماد ۔بھروسہ اور یقین ہے۔ایک مرد کیلئے ضروری ہے کہ شادی کے بعد شوہر بنے اگر شوہر بننے کے بعد وہ اپنے گرد منہ بولے رشتوں کی دیوار کھڑی کرلے اور بیوی کے حقوق یہ سمجھے کہ گھر کی ساری ذمہ داری بیوی کی ہوتی ہے توغلط پہ کیونکہ وہ لڑکی نے جو اپنے سگے رشتوں کو چھوڑ کر ایک غیر مردکو اپنا سرتاج مانتی ہے۔ عورت خود کو جلا کراپنی محبت ،صلاحیت سے خدمت کو شعار بناتی ہے۔
دراصل زندگی ایک سواری ہے۔ اگرتم اس پر سوار نہ ہوئے تو یہ تم پر سوارہوجائے گی یعنی جب تم نے سوچا کہ خدمت میں عظمت ہے اور عظمت عزت ہے تو یاد رکھو ترازو کے پلڑوں کو اس طرح رکھوکہ ہم وزن رہیں تو عورت کو اس کا مقام مل جاتاہے۔جو عورت سوچتی ہے اللہ نے مرد کا رتبہ بلند رکھا ہے تو اسے احساس دلاؤ کہ اگر رتبہ دیاہے توحقوق کی ادائیگی کابھی حکم ہے۔اگر تم فرمان الٰہی کو نہ سمجھ سکے تو پھرتمہیںشادی کا حق نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’عورت مردکالباس اورمرد عورت کا‘‘مطلب دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کی ذمہ داری اور حقوق اداکریں ۔اپنے مقصد میں ایمانداری اور ارادوں میں مستقل مزاجی پیدا کریں اوراپنے اندر جھا نکھیںاور دیکھیں کہ عہد جوانی میں کیا زیادتیاں ہوئیں ۔تمہارے اعتمادکو کس طرح کچلا گیا ۔تم سے ہمیشہ جھوٹ بولا گیا۔تمہیں محبت کے بدلے دھوکہ ملا اور تمہیںصرف اپنے کام کیلئے استعمال کیا گیا کہ تمہارا وجود ریزہ ریزہ ہوگیا۔تمہیں اپنے اندر سے ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے ’’دھوکہ، مطلبی،لالچ اورجب آپ نے اپنی عملی زندگی شروع کی تو آپ نے خود کو بہادر ظاہر کیا اور دوسری بات اپنے اندر جرات پیدا کریں کہ آپ سب کیلئے کام کرسکتے ہیں ۔یوں آپ اپنے اندرکے خوف پر قابو پالیں گے اور بہت جلد آپ اپنے مقدمہ کا سراغ پالیں گے اور جان لیں کہ یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔محنت،لگن اور مستقل مزاجی آپ کو منزل پر پہنچادے گی اور آپ کامیاب انسان بن جائیں گے۔
عورت جب تک چپ کا تالا لگائے اپنا تماشہ دیکھتی رہی مرد اپنی حکمرانی سے ہرروز اپنا شوق پورا کرتا رہا بہرحال جب احساس مرجائے اور بھول جائے کہ یہ عورت جوپہلے ایک بہن،ایک بیٹی اور بعد میں بیوی ہے لیکن ’ ’مکافات‘‘ انسان کبھی کبھی دنیا میں دیکھ لیتاہے۔میں آج ان سچائیوںسے پردہ اٹھا رہی ہوں کیونکہ جب میں نے زندگی کو قریب سے دیکھا تو پتہ چلا کہ عورت کو کبھی عورت بن کر نہیں رہنا چاہیے ہم قدم چل کر بتائے کہ ’’گھر ‘‘ کس طرح بنتے ہیں۔
وہ بھی ایک شخص تھا سب کچھ بن گیا مگر شوہر نہ بن سکا اور شاید جس طرح کی بیوی کی خواہش تھی وہ نہ مل سکی ا س لیے وہ صرف ایک ٹھاکر ۔افسر اور چوہدری بن کر اہل خانہ پربادشاہی کرتا رہا۔ میں دراصل مرد کی سچائی بے نقاب کر رہی ہوں ۔مجھے اس سردار کی کہانی یاد آگئی جو یہ حکم دیتا کہ میرے کھانے کا بندوبست کرو۔وہ کمرے میں ایک مورتی سامنے رکھتا تھا بیوی آہستہ آہستہ کبھی اس مورتی کا ہاتھ توڑ دیتی، کبھی آنکھیں۔ ایک دن مورتی گرادی وہ چکناچور ہوگئی ۔ سردار نے دیکھا اور پوچھا یہ کیا کردیاتب اس نے کہامیں نے بہت چاہا کہ آپ کو احساس دلاؤں بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں ۔میںنے چاہا کہ تمہارے اندر کا مرد جاگ جائے ۔ میںنے چاہا تمہارے اندر بیوی کے وجود اس کے جذبات احساس بیدار ہوجا ئیں اور جو اعزاز خدا نے تمہیں دیا ہے بیدار ہوجائے مگر تم تو پتھر کے انسان ثابت ہوئے ۔تم صرف پجاری نکلے اور تم نے جھوٹے رشتوں سے اپنے آپ کو خوش رکھا اور تم سب کچھ بھول گئے۔ سب کچھ بن گئے مگر شوہر نہ بن سکے ۔ تم کو سچ قبول کرنے کی ہمت نہیں ہے یا تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ شوہر کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں ۔شادی کرنااور گھر بسانا الگ الگ باتیں ہیں۔میںہر اس مرد کوبتاناچاہتی ہوں کہ اس کو کس بات کا گھمنڈ ہے؟ جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھ سکتا تواس لڑکی کی زندگی سزا کیوں بنادیتاہے۔ آج کے دور کی عورت ہو یا14ویں صدی کی عورت ، اللہ نے عورت کو بھی مکمل حقوق دیئے ہیں۔ نہ وہ مرد کی محتاج ہے نہ کمزور۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو عزت وقار عطا کیاہے۔الغرض میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کبھی کبھی عورت اپنی عزت اور انا کی خاطر بہت کچھ برداشت کرلیتی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭